صدر ریگن، تاجر اور وزیراعظم عمران خان

737

رونلڈ ریگن امریکا کے 40 ویں کامیاب صدر رہ چکے ہیں، آپ ریپبلکن تھے اور آپ کا دور حکومت 1981ء سے 1989ء تک تھا، آپ کی وفات جون 2004ء میں ہوئی۔ صدر ریگن نے پاکستان کے صدر جنرل محمد ضیا الحق کا بھرپور ساتھ دیا اور افغانستان پر سے سوویت (روس) افواج کے قبضے کو ختم کرانے میں مدد دی۔ امریکن صدر ریگن وائٹ ہائوس تک پہنچنے سے پہلے ہالی ووڈ میں اداکاری کا شوق پورا کرچکے تھے گو کہ ہمارے وزیراعظم عمران خان بھی وزارتِ عظمیٰ تک پہنچنے سے پہلے اداکاروں اور گلوکاروں کے ساتھ کافی شناسائی رکھتے تھے۔ بھارت کی اداکارہ ریکھا سے عطا اللہ عیسیٰ خیلوی تک عمران خان نے گھنگھرو اور ہارمونیم کی آواز کو بہت قریب سے سنا، ریگن کے صدر بن جانے کے بعد بھی اداکاروں کے ساتھ قریبی تعلقات رہے، جب کہ وزیراعظم عمران خان کے بارے میں بھی اطلاعات ہیں کہ انہوں نے بھی کھلاڑیوں اور اداکاروں کے ساتھ اب تک اپنے دیرینہ تعلقات کو نظر انداز نہیں کیا۔ کہتے ہیں کہ کھلاڑی اور اداکار بھی کسی ملک کے سفیر کا درجہ رکھتے ہیں تاہم امریکا اور پاکستان کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ ان دو ممالک میں کھلاڑی اور اداکار صدر اور وزیراعظم تک کے منصب پر فائز ہورہے ہیں۔
قارئین محترم آپ ضرور سوچ رہے ہوں گے کہ امریکا کے آنجہانی صدر ریگن اور پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے درمیان کیا تعلق بنتا ہے جس کو ہم یہاں لے بیٹھے ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ صدر ریگن اور وزیراعظم عمران خان کے درمیان کوئی تعلق نہیں بنتا تاہم ایک سبق ضرور بنتا ہے جو وزیراعظم عمران خان کے لیے صدر ریگن کے ایک انٹرویو میں ملتا ہے۔ امریکا کے نجی چینل کے کسی صحافی نے ایک مرتبہ صدر ریگن سے انٹرویو کے دوران سوال پوچھا کہ ’’جناب صدر آپ صبح کو جب اپنے آفس پہنچیں تو آپ کے سامنے ایک فہرست رکھی جائے کہ ویٹنگ روم میں روس، چین اور سعودی عرب کے سفیروں سمیت امریکن بزنس مین کا ایک وفد بھی ملاقات کا منتظر ہے تو آپ سب سے پہلے کس سے ملنا چاہیں گے‘‘۔ صدر ریگن نے کچھ لمحے توقف کے بعد کہا کہ میں سب سے پہلے امریکن بزنس مین کے وفد سے ملنا چاہوں گا۔ صدر نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بلاشبہ امریکی مفادات اور بین الاقوامی تعلقات میں روس، چین اور سعودی عرب کے سفیروں سے ملاقات بہت ضروری اور اہم ہے تاہم ان سب سے زیادہ میرے نزدیک امریکن بزنس مین ہے جو امریکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور جس کی وجہ سے امریکی عوام خوشحال اور امریکا ایک معاشی طاقت ہے۔
صحافی نے مفروضے پر مبنی صدر ریگن سے جو سوال پوچھا صدر نے اپنی ذہانت سے اُس کا جواب ایسے حقائق کو مدنظر رکھ کر دیا جو آج بھی امریکی صدور کے لیے ایک رہنما اصول کی حیثیت رکھتا ہے جب کہ اِسی طرح سے پاکستان جیسے غریب اور مقروض ملک کے حکمرانوں کے لیے بھی صدر ریگن کا مذکورہ جواب ایک بہت بڑا سبق ہے کہ ہمیں بھی اپنے ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے لیے تاجر برادری اور بزنس کمیونٹی کو اہمیت دینی چاہیے۔ بجٹ اور معیشت کے اندر ترقی اور تبدیلیوں کے لیے جو بھی اہداف مقرر کیے جارہے ہیں یا یہ کہ جس طرح سے ٹیکسوں کی وصولی سے لے کر قرض اُتارنے تک جو معاشی پالیسیاں ترتیب دی جارہی ہیں اُن میں ’’تاجر برادری‘‘ کے تحفظات اور مشوروں کو شامل کرنا انتہائی ضروری ہے۔ مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان
’’تاجر برادری‘‘ کے تجربے اور اہمیت کو نظر انداز کرتے ہوئے محض آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ملازمین کو اپنا مشیر رکھ کر یہ سمجھ رہے ہیں کہ شاید انہیں معاشی ماہرین کی سب سے اچھی ٹیم مل گئی ہے، حالاں کہ حفیظ شیخ سمیت جو معاشی ماہرین خان صاحب کا گھیرائو کیے ہوئے ہیں یہ تمام لوگ سابق فوجی ڈکٹیٹروں کے منظور نظر اور عالمی مالیاتی اداروں کے ملازم رہے کہ جو مصر سے پاکستان تک ناکام معاشی پالیسیاں بنانے اور نافذ کرنے کے ذمے دار ہیں جن کے نتیجے میں فرعون مصر فتح السیسی اور آئی ایم ایف کے ’’ٹیپو سلطان عمران خان‘‘ کے ہاتھوں سے کشکول ٹوٹتا اور چھوٹتا نظر نہیں آرہا بلکہ خان صاحب کے مشیروں نے عالمی مالیاتی اداروں سے ’’گولڈن شیک ہینڈ‘‘ لیتے ہوئے اپنے گلے میں پڑا غلامی کا طوق اُتار کر بے خبر، بے بس اور غریب عوام کے گلے میں ڈال دیا ہے، اب ہر پاکستانی پیدا ہونے سے مرتے دم تک آئی ایم ایف کا مقروض اور غلام ہوگا تاوقتکہ وہ سود اور قرض اُتار کر اپنے منہ کا نوالہ اپنے وسائل سے حاصل کرسکے۔ خود انحصاری اور خود داری وزیراعظم صاحب کے خطاب اور الفاظ میں تو موجود ہے مگر پالیسیوں اور کردار میں نہیں۔
بہرحال 13 جولائی 2019ء کو مہنگائی اور ٹیکسوں کے خلاف تاجر برادری نے جو کامیاب ملک گیر ہڑتال کی ہے وہ وزیراعظم عمران خان کے لیے واضح پیغام ہے کہ امریکن بزنس مین کی طرح پاکستان کی ’’تاجر برادری‘‘ کی بھی بہت بڑی اہمیت ہے اگر تاجر برادری کو اعتماد میں نہ لیا گیا اور اُس نے مزید ہڑتالوں کی اپیل کردی تو پوری حکومت ہی چند ہفتوں میں زمین بوس ہوجائے گی۔ اعوان، چودھری، شیخ اور زیدی جیسے لوگ خان صاحب کو ’’راول ڈیم‘‘ کی طرف لے جارہے ہیں جہاں عوام کا ایک دھکا لگنے کے بعد غوطے پر غوطہ تو ضرور آئے گا مگر ہاتھ پکڑ کر کنارے لگانے والا کوئی نہیں ہوگا۔ وزیراعظم صاحب نے اگر سابق امریکی صدر کے مذکورہ انٹرویو سے کوئی سبق حاصل نہ کیا تو اپوزیشن مضبوط اور حکومت کمزور ہوجائے گی۔ روٹی مہنگی ہوئی تو غریب کی آنکھ کھل جائے گی جب کہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب بھی عوام کی آنکھ کھلی حکومت کی آنکھ بند ہوگئی۔ غریب عوام کہہ رہے ہیں کہ ہم نے تحریک انصاف کو ووٹ اس لیے نہیں دیے کہ وہ ہماری جیبیں خالی کرکے آئی ایم ایف کی تجوریاں بھرنی شروع کردیں۔ ہم نے 25 جولائی 2018ء کا ووٹ اپنے حق اور مفاد میں دیا تھا کہ اس طرح سے ہمیں ایک عوام دوست حکومت مل جائے گی تاہم اب یوں لگ رہا ہے کہ جیسے 25 جولائی کو ’’یوم سیاہ‘‘ منانا بہت ضروری ہوگیا ہے۔
اللہ رب العزت مشکل فیصلے کرنے والوں کو اتنی مشکل میں ڈال دے کہ عوام الناس کی مشکلین آسان ہوجائیں۔