کے فور منصوبے میں کرپشن کے معاملے پر جوڈیشل کمیشن بنایا جائے،حافظ نعیم

351

کراچی(اسٹاف رپورٹر)جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ کے فورمنصوبے میںاب تک ہونے والے کام میں کرپشن اور نااہلی کے تعین کے لیے یہ معاملہ نیب کے حوالے کیا جائے یا جوڈیشل کمیشن بنایا جائے ، اگر ایک ہفتے میں ایسا نہ کیا گیا تو جماعت اسلامی خود نیب سے رجوع کرے گی ،وفاقی ، صوبائی اور شہری حکومت تینوں پانی کے مسئلے پر سنجیدہ اقدامات کریں ۔کے فورکو فوری طور پر دوبارہ شروع کرکے ایک سال میں مکمل کیا جائے ،کے فور کے تینوں فیز بیک وقت مکمل کیے جائیں، پانی کی منصفانہ تقسیم کی جائے اورپورے کراچی میں سپلائی اور ناغے میں انصاف کیا جائے ، منصوبہ مکمل کرنے کے لیے مطلوبہ رقم میں صوبائی اور وفاقی حکومت فوری طور پر اپنا حصہ ادا کریں۔ جماعت اسلامی نے ’’کراچی کو عزت دو ، حقوق دو‘‘ کی تحریک کا آغاز کردیا ہے ، عوام کوکوئی کہانی نہیں پانی چاہیے ، کراچی کے پانی کے لیے بہت جلد وزیر اعلیٰ ہاؤس پر دھرنا دیا جائے گا،پی ٹی آئی ، ایم کیو ایم ، پیپلز پارٹی اور یہ تینوں ہی اس وقت اقتدار میں ہیں ۔ پی ٹی آئی کی وفاق میں حکومت ہے ۔ ایم کیو ایم شہری اور وفاقی حکومت دونوں جگہ موجود ہے اور پیپلز پارٹی کی صوبہ سندھ میں حکومت ہے لیکن عوام کے مسائل حل نہیں کیے جارہے ہیں ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایم ڈی واٹر بورڈکے دفتر کے سامنے شارع فیصل پر ’’عوامی پریس کانفرنس ‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔پریس کانفرنس سے جماعت اسلامی ضلع جنوبی کے امیر و رکن سندھ اسمبلی سید عبد الرشید اور بلدیہ عظمیٰ کراچی میں جماعت اسلامی کراچی کے پارلیمانی لیڈر جنید مکاتی نے بھی خطاب کیا ۔اس موقع پر شہر کے مختلف علاقوں سے آئے پانی سے محروم شہریوں اور یوسی چیئرمین نے اپنے علاقوں میں پانی کی قلت اور مسائل سے آگاہ کیا ۔جن میں لیاری سے محمد فاروق ،محمد آصف ، اورنگی ٹاؤن فقیر کالونی سے یوسی چیئرمینوں عبد القیوم ،سائٹ ٹاؤن یوسی چیئرمین عبدا لصمد خان،لیاری سے یوسی چیئرمین فضل الرحمن ،لانڈھی سے نعمان بیگ ،اورنگی ٹاؤن سے جاوید حسین اور دیگر شامل تھے۔پریس کانفرنس کے موقع پر شہریوں نے خالی مٹکے ، خالی بالٹیاں، پانی کی خالی بوتلیں ، نلکے ،بینرز اور پلے کارڈز بھی اٹھائے ہوئے تھے ۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ 65ایم جی ڈی پانی جو پہلے سے منظور شدہ ہے اور دھابیجی سے پیپری تک لائن ڈالنی ہے اس کو اگلے 6ماہ میں مکمل کیا جائے۔ 116ایم جی ڈی پانی ضائع ہو رہا ہے اس ضیاع کو روکنے کے لیے اقدامات کیے جائیں ،650 ایم جی ڈی پانی کے فور سے آناہے لیکن حکومت سندھ نے صرف 400 کیوسک کی منظوری دی ہے بقیہ 800 کیوسک کی منظوری بھی فوراً دی جائے،650 ایم جی ڈی پانی کے فور سے کراچی آنا ہے اس کے لیے 3 کینال الگ الگ بننی ہیںاس کو ایک کرنے کی پلاننگ ہورہی ہے یہ حفاظتی نقطہ نگاہ سے غلط ہوگا ،3 کینال الگ الگ ہی تعمیر کی جائیں،سیوریج کا منصوبہ ایس 3فوری مکمل کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں ۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہاکہ کراچی سمندر کے کنارے ہے ،دریائے سندھ اور کینجھر جھیل بھی قریب ہیں ، حکمرانوں کی نااہلی اور کرپشن کے باعث کراچی کی اکثریت آبادی پانی سے محروم ہے ، کراچی کو اس کی ضرورت کے مطابق پانی فراہم نہیں کیا جارہا ہے اور جو فراہم ہورہا ہے وہ ترسیل اور تقسیم کے ناقص نظام ، پانی کی چوری اور ٹینکر مافیا کی ملی بھگت کے باعث کراچی کے عوام کو نہیں مل پارہا۔کے فورکے منصوبے کا روٹ 13مرتبہ تبدیل ہوا ، آخر یہ کیو ں ہوا اور کس کے کہنے پر ہوا ؟ 3سال میں کے فورکا منصوبہ مکمل کرنے کا دعویٰ کرنے والے مصطفی کمال پہلے یہ بتائیں کہ انہوں نے اپنے دور نظامت میں عوام کے اس اہم منصوبے کو تاخیر کا شکار کیوں کیا؟انہوں نے کہاکہ کراچی کے شہری پانی کے لیے ترس رہے ہیں ایک بڑی آبادی پانی سے بالکل محروم ہے ، پانی کے منصوبوں کے نام پر شہریوں کو دھوکے میں رکھا گیاہے ۔ اس وقت کے فورکا منصوبہ 12ارب روپے خرچ کرنے کے بعد سنگین غلطیوں کی وجہ سے روک دیا گیا ہے ۔ 116ایم جی ڈی پانی ضائع ہو رہا ہے لیکن اس ضیاع کو روکنے کے لیے کوئی بھی اقدام نہیں کیا گیا ۔انہوں نے کہا کہ اس وقت کراچی سے3 جماعتوں کے ارکان کی اکثریت منتخب ہوئی ہے ۔ پی ٹی آئی ، ایم کیو ایم ، پیپلز پارٹی اور یہ تینوں ہی اس وقت اقتدار میں ہیں ۔ پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت ہے ۔ ایم کیو ایم کراچی کی شہری حکومت اور وفاقی حکومت دونوں جگہ موجود ہے اور پیپلز پارٹی کی صوبہ سندھ میں حکومت ہے ۔ کراچی وفاق کو پورے ملک کا تقریباً 70فیصد ریونیو دیتا ہے جبکہ صوبے کے ریونیو میں کراچی کا 90 فیصد حصہ ہے ۔ اب یہ سارا ریونیو ان تینوں جماعتوں کے ہاتھ میں ہے اس سے بہتر وقت نہیں آسکتا جب کراچی سے منتخب تینوں جماعتیں ہی حکومت میں ہیں لیکن اب بھی مسائل حل نہ ہوئے تو پھر کب ہوں گے ؟ان جماعتوں کی مسائل سے لاتعلقی اور غیر سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ حکومت میں ہونے کے باوجود تینوں ڈراما رچا رہی ہیں ، دھرنے اور مطالبات کر رہی ہیں۔ حکومت کا کام مطالبہ کرنا نہیں مسائل حل کرنا ہو تا ہے ۔انہوں نے کہاکہ صوبہ سندھ میں بدترین نا اہلی اور کرپشن کا راج ہے 25ارب کا منصوبہ کے فور100 ارب سے زیادہ کا ہو چکا ہے لیکن نہ کوئی جواب دہی ہے نہ احتساب ، اب ورلڈ بینک سے قرض لینے کی باتیں ہو رہی ہیں ۔ 13 کروڑ کا ٹھیکا منصوبے پر نظر ثانی کے لیے دے دیا گیا ہے ، منصوبے کی تکمیل کا کوئی وقت ہی متعین نہیں ہے ۔ گزشتہ سال سندھ حکومت نے لوگوں کو بے وقوف بنایا اور 2018ء کے آخر میں کے فورکی تکمیل کی نوید سنائی ۔ حالانکہ اس وقت منصوبے پر کام بند پڑا تھا ۔ کراچی کو 1200ایم جی ڈی پانی کی ضرورت ہے لیکن سپلائی صرف583.5ایم جی ڈی ہے اس میں سے 116.6ایم جی ڈی پانی ضائع ہو رہا ہے ۔ 126ایم جی ڈی انڈسٹری اور کمرشل استعمال میں ہے ۔ 18ایم جی ڈی ٹینکرز لے رہے ہیں ۔ اب صرف 323ایم جی ڈی پانی گھریلو صارفین کے لیے ہے ۔ اس کی بھی سپلائی کا نظام اتنا ناقص ہے کہ کہیں 24گھنٹے پانی آتا ہے تو شہر کے 70فیصد حصے میں ہفتے بعد اور مہینوں بعد چند منٹ کے لیے پانی ملتا ہے اور بعض علاقوں میں 10سال سے پانی نہیں آرہا ۔ انہوں نے کہاکہ بے تحاشا سیاسی بھرتیوں کے ذریعے عملاً واٹر بورڈ پر ایم کیو ایم کا قبضہ ہے اور سر کاری طور پر سندھ گورنمنٹ کا ،لیکن دونوں کی توجہ ا س کے وسائل اور نوکریوں پر ہے ۔ ان حالات میں امید کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی ۔ وفاقی اور صوبائی بجٹ میں اتنے کم پیسے کراچی کے لیے رکھے گئے ہیں کہ ایک پروجیکٹ بھی پورا ہوتا نظر نہیں آتا تو جماعت اسلامی کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ شہریوں کے حقوق کے لیے ہر جگہ اور ہر فورم پرآواز اُٹھائے ۔اگر اب بھی مسائل کے حل پر توجہ نہ دی گئی تو ہمیںعوام کے ساتھ سڑکوں پر آنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔انہوں نے کہاکہ کے 3 منصوبہ نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ نے مکمل کیا اور انہوں نے ہی کے فورمنصوبے پر 2002ء میںکام شروع کیا۔ اس سے قبل بھی پانی کے منصوبے کے 1اورکے 2جماعت اسلامی کے میئر عبد الستار افغانی نے ہی مکمل کیے ۔وقت اور حالات نے ثابت کیا ہے کہ کراچی کے مسائل کا حل صرف جماعت اسلامی ہی کے پاس ہے، جس کے پاس بہترین تعلیم یافتہ ، دیانت دار اور با صلاحیت ٹیم موجود ہے ۔ پہلے بھی کراچی کو بنایا تھا ان شاء اللہ آئندہ بھی کراچی کو عزت اور حق جماعت اسلامی ہی دلائے گی۔سید عبدا لرشید نے کہاکہ جماعت اسلامی مسائل پر سیاست نہیں کرتی بلکہ مسائل کے حل کے لیے عوام کی ترجمانی کرتی ہے ، شہر کے دیگرنمائندے بھی سندھ اسمبلی میں موجود ہیں لیکن کراچی میں پانی کے مسئلے سمیت دیگر مسائل پر سب سے زیادہ بات میں نے کی ہے اور عوام کا مقدمہ لڑا ہے۔ کراچی میں پانی کے مسئلے کے حل کے لیے صرف جماعت اسلامی نے ہی اقدامات کیے ہیں ،میئر عبد الستار افغانی اور نعمت اللہ خان کے دور میں پانی کے منصوبے شروع کیے ۔آج کراچی کے اندر پانی کی جو سپلائی ہے وہ تقریبا ً 40فیصد آبادی کے لیے ہے اور 60فیصد آبادی کے لیے پانی میسر ہی نہیں ہے ،واٹر کمیشن کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں پینے کا صاف پانی میسر نہیں اور فضلہ ملا ہواپانی عوام کو دیا جارہا ہے ،سیوریج کا پانی پینے کے پانی میں مل رہا ہے لیکن کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے ،کراچی کے عوامی نمائندے عوام کی ترجمانی کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں ۔جنید مکاتی نے کہاکہ عوام کی بد قسمتی ہے کہ شہر کراچی کا صدر پاکستان ، گورنر سندھ ،میئر کراچی ،وزیر بلدیات کراچی کے ہیںتینوں پارٹیاں حکومت میں ہیں لیکن یہ عوام کو پانی تک نہ دے سکے ،سمندر کے پانی کو میٹھا بنانے کے اعلانات بارہا کیے گئے مگر کوئی اقدامات نہیں کیے گئے ۔

امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن واٹر بورڈ کے دفتر کے باہر عوامی پریس کانفرنس سے خطاب کررہے ہیں