افکارسید ابولاعلی مودودی

361

سفر کی اقسام
دنیا کے لوگ عموماً دو ہی قسموں کے سفروں سے واقف ہیں۔ ایک سفر وہ جو روٹی کمانے کے لیے اور دوسرا وہ جو سیر و تفریح کے لیے کیا جاتا ہے۔ ان دونوں قسم کے سفروں میں اپنی غرض اور اپنی خواہش آدمی کو باہر نکلنے پر آمادہ کرتی ہے۔ گھر چھوڑتا ہے تو اپنی غرض کے لیے، بال بچوں اور عزیزوں سے جدا ہوتا ہے تو اپنی خاطر، مال خرچ کرتا ہے یا وقت صرف کرتا ہے تو اپنے مطلب کے لیے لہذا اس میں قربانی کا کوئی سوال نہیں مگر یہ سفر جس کا نام حج ہے، اس کا معاملہ اور سب سفروں سے مختلف ہے۔
یہ سفر اپنے کسی غرض کے لیے یا اپنے نفس کی خواہش کے لیے نہیں بلکہ صرف اللہ کے لیے ہے اور اْس فرض کو ادا کرنے کے لیے ہے جو اللہ نے مقرر کیا ہے۔ اسْ سفر پر کوئی شخص اس وقت تک آمادہ ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ اس کے دل میں اللہ تعالٰی کی محبت نہ ہو، اس کا خوف نہ ہو اور اس کے فرض کو فرض سمجھنے کا خیال نہ ہو۔
پس جو شخص اپنے گھر بار سے ایک لمبی مدت کے لیے علیحدگی، اپنے عزیزوں سے جدائی، اپنے کاروبار کا نقصان، اپنے مال کا خرچ اور سفر کی تکلیفیں گوارا کرکے حج کو نکلتا ہے، اس کا نکلنا خود اس بات کی دلیل ہے کہ اس کے اندر خوفِ خدا اور محبتِ خدا بھی ہے اور فرض کا احساس بھی اور اس میں یہ طاقت بھی موجود ہے کہ اگر کسی وقت اللہ کی راہ میں نکلنے کی ضرورت پیش آئے تو وہ نکل سکتا ہے، تکلیفیں اْٹھا سکتا ہے، اپنے مال اور اپنی راحت کو اللہ تعالٰی کی خوشنودی پر قربان کر سکتا ہے۔
(حقیقتِ حج)
حج کا مقصد
آج کل حج کے بارے میں نئے نئے فلسفے پیش کیے جارہے ہیں۔ کچھ لوگوں کے خیال میں حج اس لیے فرض کیا گیا ہے کہ اس سے دراصل مسلمانوں کی ایک بین الاقوامی سالانہ کانفرنس کرانا مقصود ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی ایک سالانہ کانفرنس کے جو کچھ فوائد بھی کوئی شخص اپنے ذہن میں سوچ سکتا ہے، اس سے ہزار گنے زیادہ فوائد حج سے عملاً حاصل ہوتے ہیں۔ لیکن ایسی کوئی کانفرنس دراصل حج کا حقیقی مقصود نہیں ہے۔
اسی طرح اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ حج کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ آدمی کو عرب کی سیاحت کرنے کا، اس کے تاریخی مقامات دیکھنے کا، اور اس کی تہذیبی اور تمدنی زندگی کا مطالعہ کرنے کا موقع ملتا ہے تو حقیقت میں وہ اپنے حج کو ضائع کرتا ہے۔ اگر اس کے دل میں حج کے مقصد کی حیثیت سے ایسی کوئی غرض اور نیت شامل ہوجائے تو فی الحقیقت اس کی یہ عبادت سرے سے عبادت ہی نہیں رہے گی۔ اپنے ذہن میں اس خیال کو بٹھائیے کہ ہمارا اصل مقصود اللہ کے رضا حاصل کرنا اور اس کے حضور اپنے جذبۂ عبودیت کو پیش کرنا ہے۔ (خطباتِ حرم)