بیت اللہ کی حاضری

366

حرم میں نمازوں کا شورش کاشمیریؒ
سرور ہی کچھ اور ہے، بعض کیفیتیں بیان کی جا سکتی ہیں۔ لیکن کچھ کیفیتیں ایسی ہوتی ہیں کہ الفاظ ومعانی کا سرمایہ دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے، اور وہ کیفیتیں بیان نہیں ہوسکتیں۔ خانہ کعبہ میں حاضر ہوکر جو کیفیت پیدا ہوتی ہے اور بیت اللہ کے طواف میں جو مزہ آتا ہے منطق کی تمام ادائیں بھی اس کو محصور نہیں کر سکتی ہیں۔ انسان دو ہیں: ایک وہ جو دیکھتا اور بولتا ہے، ایک وہ جو دیکھتا اور سوچتا ہے۔ لیکن ایک تیسرا انسان بھی ہے جو کعبۃ اللہ میں آکر کھو جاتا ہے اس سحر وسرور میں فصاحت و بلاغت بے بس ہوجاتی ہے یہ وہ سرحد ہے جہاں الفاظ ومعانی اپنا سفر ختم کردیتے ہیں اس سے آگے کی زبان ابھی آوازوں میں نہیں ڈھلی ہے لیکن محسوس ہوتا ہے کہ بیت اللہ ہم کلام ہو رہا ہے اور طواف میں اللہ کا فرشتے ہم رکاب ہیں۔ دن کے چوبیس گھنٹوں میں تقریبا اٹھارہ یا بیس گھنٹے کعبۃ اللہ میں گزرتے رہے، طبعیت تھی کہ سیر نہ ہوتی، فجر کی اذان سے پہلے اٹھ کر بیت اللہ چلا جاتا، پھر دن میں کئی مرتبہ حاضر ہوتا۔ رات کا بیشتر حصہ وہیں گزارتا، بار بار طواف کرتا، سنگِ اسود کو بوسہ دیتا، ملتزم سے لپٹ کے روتا، احساس کی دولت کو سمیٹتا، بیسیوں دفعہ آبِ زمزم پیتا، اپنے تئیں بھگولیتا، سبحان اللہ زمزم ہے کہ طلب گاروں کا چوبیس گھنٹے سیراب کر رہا ہے، کوئی ساعت خالی نہیں، لوگ پلاسٹک کے ڈبے، مٹی کے گھڑے، تانبے کے ڈول، بھر بھر کے لیے پیتے ہیں، بیت اللہ میں مخروطی صراحیاں پڑی رہتی ہیں۔ لوگ پیتے اور بھی بھر کے پیتے جاتے ہیں، شاید دنیا کی کسی قوم کے حصے میں اتنی عبادت نہیں آتی جتنی عبادت کہ مسلمانوں پر فرض کی گئی، مسلمانوں کی ہر سانس ایک عبادت ہے ان کی زندگی بسم اللہ سے شروع ہوکر اناللہ پر ختم ہوتی ہے۔ مہد سے لحد تک اللہ ہی اللہ ہے وہ ہر حال میں اللہ کے سامنے جوابدہ ہیں۔