سید نا حنظلہبن عامرؒ

302

طالب ہاشمی

راس المنافقین عبداللہ بن ابی کا بہنوئی ابوعامر اگرچہ ایک زاہد مرتاض تھا اور اس نے حق کی تلاش میں گوشہ عزلت اختیار کرلیا تھا۔ لیکن جب خورشید اسلام فاران کی چوٹیوں سے طلوع ہوا اورمدینہ منورہ کے درد دیوار سید المرسلینؐ کی طلعت اقدس سے جگمگائے تو ابو عامر کی عقل پر پتھر پڑگئے اور اس نے اسلام اور داعی اسلامؐ کی دشمنی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا۔ خدا کی شان اسی ابو عامر کے فرزند کو اللہ تعالیٰ نے نور بصیرت عطا کیا اور اس نے کسی تامل کے بغیر دعوت حق پر لبیک کہا اور رحمت عالمؐ کے جاں نثاروں میں شامل ہوگیا۔ جب اس کے باپ کی اسلام دشمنی اور شرانگیز ی انتہا کی پہنچ گئی تواس کی غیرت ایمانی کو تاب ضبط نہ رہی۔ ایک دن بارگاہ رسالت میں حاضر ہوکر عرض کی یارسول اللہ! اگر اجازت ہو تو اپنے باپ کا سر اتار لاؤں۔
رحمت عالمؐ نے فرمایا نہیں، ہم ان سے براسلوک نہیں کریں گے۔
ابی عامر کا یہ سعادت مند فرزند جو اللہ اور اللہ کے رسولؐ کی خاطر اپنے دشمن حق باپ کا قصہ پاک کرنے پر تیار ہوگئے تھے سیدنا حنظلہؓ تھے، جو تاریخ میں تقی اور غسیل الملائکہ کے القاب سے مشہور ہیں۔
ابو عامر جوش حسد میں مدینہ کی سکونت ترک کرکے مکہ چلا گیا اور غزوہ احد میں مشرکین کے ساتھ مل کر اہل حق سے لڑنے آیا۔ اس کی ہی حق دشمنی تھی جس کی بنا پر نبیؐ نے اس کے لیے فاسق کا لقب تجویز فرمایا۔ اس کے بعد وہ پھر مکہ واپس چلا گیا۔ سن 8ھ میں مکہ پر پرچم اسلام بلند ہوا تو وہ ہرقل شاہ روم کے پاس قسطنطیہ چلا گیا اور وہیں سن 9ھ یا 10ھ میں مرگیا۔
سیدنا حنظلہؓ نہایت مخلص مسلمان تھے اور بارگاہ رسالت سے تقی کا خطاب پایا تھا۔ غزوہ بدر میں کسی وجہ سے شریک نہ ہوسکے۔ غزوہ احد کے بیوی کے پاس خلوت میں تھے کہ منادی کی آواز سنی جو مسلمانوں کو جہا د کے لیے پکار رہا تھا۔ اسی وقت اٹھ کھڑے ہوئے غسل کا خیال ہی نہ رہا اور مسلح ہوکر میدان جنگ میں جا پہنچے۔ اس وقت لڑائی شروع ہوچکی تھی۔ جاتے ہی ان کا سامنا ابو سفیان سپہ سالار قریش سے ہوگیا۔ انہوں نے ابو سفیان کے گھوڑے کے پاؤں کاٹ ڈالے اور ان کو اپنی تلوار کی زد میں لے لیا کہ شداد بن اسود لیثی نے آگے بڑھ کر حنظلہؓ پر تلوار کا ایسا وار کیا کہ وہ شہید ہو کر فرش خاک پر گر پڑے۔
لڑائی بعد سرور عالمؐ نے میدان جنگ کی طرف نظر کرکے فرمایا: حنظلہ کو فرشتے غسل دے رہے ہیں۔
ابو اسید ساعدیؓ سے روایت ہے کہ میں نبیؐ کا ارشاد سن کر حنظلہ کی لاش کے قریب گیا تو دیکھا کہ ان سر سے پانی ٹپک رہا ہے میں الٹے پاؤں نبیؐ کے پاس پہنچا، آپؐ نے حنظلہ کی اہلیہ کے پاس کسی کو بھیج کر دریافت فرمایا کہ حنظلہ کس حال میں جہاد کے لیے روانہ ہوئے تھے؟ انہوں نے بتایا کہ ان کو غسل کی حاجت تھی۔ نبیؐ نے فرمایا: اس لیے اس کو فرشتے غسل دے رہے تھے۔ اسی دن سے وہ غسیل الملائکہ کے لقب سے مشہور ہوگئے۔
قبیلہ اوس کے لیے حنظلہؓ کی شخصیت ہمیشہ وجہ افتخار بن گئی۔ بعض اہل سیر نے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ اوس وخزرج اپنے اپنے فضائل فخریہ بیان کررہے تھے۔ فریقین نے اس موقع پر اپنے جلیل القدر اصحاب کو پیش کیا تھا۔ اوس نے اپنے اصحاب کا نام لیا، ان میں سیدنا حنظلہؓ کا نام سرفہرست تھا۔