عالمی عدالت میں پاکستان کی فتح

275

عالمی عدالت نے بھارتی جاسوس کلبھوشن کی بریت و رہائی کے لیے بھارتی درخواست کو مسترد کرکے پاکستانی موقف کو درست تسلیم کرلیا ہے ۔ عالمی عدالت کے اس فیصلے کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے ۔ سب سے پہلی بات تو یہی ہے کہ بھارت نے ایک بین الاقوامی فورم پر کلبھوشن کو اپنا شہری تسلیم کرلیا ہے ۔ اس سے پہلے بھارت کلبھوشن کو بھارتی باشندہ تسلیم کرنے پر ہی تیار نہیں تھا اور اس کا کہنا تھا کہ پاکستان نے بھارت کے خلاف الزام تراشی شروع کردی ہے ۔ دوسری اہم ترین بات یہ ہے کہ کلبھوشن کو بھارتی جاسوس بھی تسلیم کرلیا گیا ہے ۔ کلبھوشن کو بھارتی جاسوس تسلیم کرنے اور اس کی پاکستانی سرزمین سے گرفتاری یہ بات ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کی پشت پر بھارت ہے اور وہ اپنے مذموم مقاصد کے لیے ایران اور افغانستان کی سرزمین استعمال کررہا ہے ۔ جہاں تک کلبھوشن تک بھارتی قونصلر کی رسائی دینے کا معاملہ ہے ، پاکستان نے پہلے بھی اس سے انکار نہیں کیا ہے مگر پاکستان کا یہ اصولی موقف رہا ہے کہ بھارت کلبھوشن کے اعترافات کو تسلیم کرے ۔بھارت پہلے تو کلبھوشن کو اپنا شہری ماننے سے ہی انکار کرتا رہا اور جب پاکستان نے ناقابل تردید ثبوت پیش کیے تو کہا گیا کہ کلبھوشن بھارتی بحریہ سے ریٹائر ہوچکا تھا اور جو کچھ بھی اس نے کیا وہ اس کا انفرادی فعل تھا ۔ یہ امر قابل تشویش ہے کہ عالمی عدالت نے بھارت کے اس موقف کو تسلیم کرلیا ہے کہ کلبھوشن ریاستی مشن پر نہیں تھا بلکہ یہ اس کا انفرادی فعل تھا لیکن بھارت نے اپنی بحریہ کے کاکمانڈر کی ریٹائرمنٹ کا کوئی ثبوت پیش نہیں ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ غلطی پر ہونے کے باوجود بھی بھارت نے زبردست سفارتکاری دکھائی اور اپنے خلاف کسی سخت فیصلے سے اپنے آپ کو محفوظ رکھا ۔ اب یہ پاکستان کی سفارتکاری پر منحصر ہے کہ وہ اس فیصلے کو کس طرح سے پوری دنیا تک پہنچا کر بھارتی چہرہ بے نقاب کرتا ہے ۔ عالمی عدالت نے کلبھوشن کو دی جانے والی موت کی سزا کو ختم تو نہیں کیا مگر اس کی سزا پر عملدرآمد کو ضرور معطل رکھا ہے ۔ بھارت سزا کی معطلی کو بھی اپنی کامیابی قرار دے رہا ہے ۔ بھارتی سرکار کے مطابق ان کی پہلی کوشش تھی کہ کلبھوشن کو بھارتی ریاست کا نمائندہ نہ قرار دیا جائے اور دوسری کوشش تھی کہ کلبھوشن کی سزائے موت پر فوری عملدرآمد کو روکا جائے ۔ ان معنوں میں بھارتی کامیاب رہے ہیں ۔ بھارتی سرکار کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ جیسے ہی کلبھوشن تک بھارتی قونصلر کو رسائی ملی وہ عالمی عدالت میں نظر ثانی کی درخواست دائر کردیں گے اور اس میں ان کا ہدف کلبھوشن کی رہائی ہوگی ۔ بھارتی دعووں سے قطع نظر ، پاکستان اب تک بہت کچھ خیر سگالی کے نام پر کرتا رہا ہے ۔ پاکستان میں دراندازی کرنے والے بھارتی پائلٹ ابھے نندن کو پاکستان نے جذبہ خیر سگالی کے طور پر رہا کردیا تھا مگر بھارت نے ا س کا مثبت جواب دینے کے بجائے اسے اپنی ثبوت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان ابھے نندن کو رہا نہیں کرتا تو وہ پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجادیتا ۔ اسی طرح کشمیر سنگھ کو بھی پاکستان نے جاسوس ہونے کے باوجود خیر سگالی کے جذبے کے تحت رہا کیا تھا اور اس نے بھارت پہنچتے ہی میڈیا پر برملا اس امر کا اعتراف کیا تھا کہ وہ بھارت سرکار کی جانب سے پاکستان میں جاسوسی کرتا رہا تھا ۔ پاکستان میں ارباب اختیار کو اب اس امر کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ جذبہ خیر سگالی کا یکطرفہ اظہار کمزوری کے زمرے میں آتا ہے ۔ اب تک پاکستان یکطرفہ طور پر ہی جذبہ خیر سگالی کا اظہار کرتا رہا ہے جس کا جواب بھارت نے ایک مرتبہ بھی مثبت پیرائے میں نہیں دیا ہے ۔ تعلقات برابری کی بنیاد پر ہی ہوتے ہیں ۔ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان بھی اپنی یکطرفہ خیر سگالی کی پالیسی کو تبدیل کرے اور برابری کی بنیاد پر معاملات کو طے کرے ۔ پاکستان کو سفارتکاری کے محاذ پر جس صورت حال کا سامنا کرنا پڑا ہے ، پاکستان کو اسے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ سفارتکاری کا محاذ انتہائی اہم ہے اور پاکستان اس محاذ پر ہر دفعہ بھارت سے شکست کھا جاتا ہے ۔