پاکستان اور جماعت اسلامی (۱۹۵۱ء تا ۱۹۵۵ء) ( باب نہم)

225

میجر اے اے گیلانی مارشل لا عدالت کے سربراہ تھے۔ جبکہ مولانا کے وکیل صفائی چودھری نذیر احمد خان تھے۔ چند سال بعد فوجی عدالت کا ایک رکن اپنی فوجی ملازمت سے سبکدوشی کے بعد مولانا سے ملنے آیا‘ اور قسم کھا کر کہا کہ یہ فیصلہ ہم پر سے مسلط کیا گیا تھا۔
حکومت وقت کی ناانصافی اور اسلام دشمنی
مولانا مودودیؒ اور جماعت اسلامی کے رفقاء کو اس سے پہلے بھی سیفٹی ایکٹ اور ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ کھلی عدالت میں مقدمہ چلانے کے بجائے مارشل لا لگا کر فوجی عدالت میں مقدمہ چلایاگیا۔ ایک ایسے کتابچے کی تصنیف پر پھانسی کی سزاسنائی گئی‘ جس کو ضبط تک نہیں کیا گیا اور وہ شائع ہوتا رہا۔ آئینی اور قانونی حلقوں کے نزدیک یہ انصاف کا گلا گھونٹنے کے مترادف اور بعید از قیاس اور انتہائی احمقانہ فیصلہ تھا۔ قانون کی نظر میں یہ کوئی فیصلہ نہیں تھا‘ بلکہ انصاف اور قانون کا قتل تھا۔
مسلم لیگ کی حکومت‘ جس کی قیادت نے تحریک پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ اور اسلامی اقدار کے تحفظ کی خاطر علیحدہ مملکت کے جواز کی دلیل دی تھی۔ قیام پاکستان اور خصوصاً بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کی وفات کے بعد اسلامی شعائرکے خلاف لادینی‘ اشتراکی اور قادیانی لابی کے زیر اثرانتہائی ڈھٹائی کے ساتھ حق و انصاف اور اسلامی اقدار سے کھلم کھلامنحرف ہوتی جارہی تھی۔ قائداعظمؒ کی وفات کے کچھ دنوں کے بعد ہی اسلامی دستور کے مطالبے پر جماعت اسلامی کے اکابرین کی گرفتاری‘ وزیراعظم کی شہادت‘ نوکر شاہی اور افواج میں کلیدی عہدوں پر قادیانی افراد کی موجودگی‘ لادینی اور اشتراکی عناصر کی پزیرائی (پاکستان میں کانگریس اور کمیونسٹ پارٹیوں کا قیام اور ان کی سرپرستی) حکومت اور مسلم لیگ پر قابض بدعنوان عمال کی نظریہ پاکستان سے بے وفائی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔
مولانا مودودیؒ کی استقامت اور سیاسی بصیرت
مولانا مودودیؒ کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر اتنا کامل اور غیر متزلزل ایمان تھا کہ وہ پھانسی کی سزا سن کر مطلق پریشان یا ہراساں نہ ہوئے۔ بلکہ رحم کی اپیل کرنے اور معافی مانگنے سے بالکل انکار کردیا‘ اور ایک مومنانہ شان سے شہادت کی آرزو لیے مقتل کی طرف جانے سے بھی نہ گھبرائے۔
مولانا مودودیؒ پھانسی کی کوٹھڑی میں نماز عشاء کی ادائیگی کے بعد ایسے بے خبر سوئے کہ گویا سزائے موت کوئی بات نہیں۔ اس کے برعکس پھانسی وارڈ کے قیدی رات بھر آہ و زاری اور چیخ و پکار اور اپنے گناہوں پر پشیمانی یا موت کے خوف سے جاگتے ہیں اور تلاوت کرتے رہتے ہیں۔ آس پاس کے سزائے موت کے قیدی اور وارڈن اس قیدی کی بے خوفی اور استغنا سے حیران وششدر رہ گئے۔ پوری جیل میں دہشت اور خاموشی طاری تھی مولانا مودودیؒ کے پھانسی کی کوٹھڑی میں جانے کے بعد دیوانی گھر وارڈ میں مولانا امین احسن اصلاحیؒ، چودھری محمد اکبر اور میاں طفیل محمد ہی رہ گئے تھی۔ میاں طفیل محمد رقم طراز ہیں مولانا مودودیؒ ہم لوگوں سے گلے مل کر پھانسی کی کوٹھڑی کی طرف رواں ہوگئے کہ گویا کوئی بات ہی نہیں۔ معمولاً ایک احاطے سے دوسرے احاطہ کی طرف جا رہے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد ایک وارڈ بوائے آیا اور وہ مولانا کی ٹوپی‘ قمیص‘ پاجامہ اور جوتا سب کپڑے واپس دے گیا۔ مولانا مودودیؒ کے ان کپڑوں کا آنا تھا کہ ان کو دیکھتے ہی مولانا اصلاحیؒ پر عجیب کیفیت طاری ہوگئی۔ وہ ان کو کبھی آنکھوں سے لگاتے کبھی سینے سے اور کبھی سر پر رکھتے۔ زارو قطار روتے ہوئے فرمایا مودودیؒ کو میں بہت بڑا آدمی سمجھتا تھا لیکن مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ خدا کے یہاں اس کا اس قدر بلند مرتبہ ہے۔ ان کو دیکھ کر چودھری محمد اکبر بھی دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ مجھے بھی یہ احساس ہوا کہ پھانسی کے بعد اپیل کی پیشکش کو مسترد کردینے کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں۔ یہ احساس ہوتے ہی میں بیرک سے نکل کر صحن کے ایک کونے میں چلا گیا اور پھر ہچکی بندھ گئی۔ رات کا بیش تر حصہ اسی حالت میں کٹ گیا جبکہ مولانا مودودیؒ عشاء کی نماز پڑھ کر ٹاٹ کے بستر پر ایسے سوئے کے رات بھر پہرے دار ان کے خراٹے سن سن کر حیرت میں ڈو بے رہے کہ یا اللہ عجیب شخص ہے جو پھانسی کا حکم پاکر ایسا مدہوش ہوکے سویا ہے گویا اس کے سارے فکر اور تردد دور ہو گئے۔
(جاری ہے)