بادِ نوبہار ’’ٹِڑنگ‘‘

871

آج پھر دل میں کوئی کھوئی ہوئی یاد آئی!
ٹیلی فون کی گھنٹی بڑی دیر سے بج رہی ہے۔ یہ اُس دور کے سب سے بڑے کالم نگار کا گھر ہے۔ بہت دیر بعد رسیور اُٹھانے کی آواز آتی ہے۔ سو، رسیور اُٹھانے کی آواز آتے ہی سلام میں پہل کرنے کی سعادت حاصل کی:
’’السلامُ علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ‘‘
دوسری طرف سے بھی بڑی پُرتپاک، لہکتی اور لہراتی ہوئی آوازآئی:
’’وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ، جی فرمائیے!‘‘
فرمانے کی اجازت ملتے ہی فرمایا:
’’نصراللہ خاں صاحب تشریف رکھتے ہیں؟‘‘
مثبت جواب آیا:
’’جی ہاں! جی ہاں!… تشریف رکھتے ہیں‘‘۔
پوچھا:
’’کیا اِس وقت اُن سے بات ہوسکتی ہے؟‘‘
جواب ملا:
’’ہوسکتی ہے کیا معنی؟ بھائی اِس وقت آپ کی اُن سے بات ہو رہی ہے‘‘۔
ہمارا قہقہہ نکل گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب ہم نے ’آوارہ نویسی‘ چھوڑکر (جنوری 1984ء سے) ’’جسارت‘‘ میں مستقل اور روزمرہ کالم نگاری کا آغاز کر دیا تھا۔ مگر دریا میں کودنے کے بعد پتا چلا کہ یہ کام بسیار ’اوکھا‘ کام ہے۔ سو، اُس وقت کے بابائے ظرافت بابا نصراللہ خاں سے درخواست کی:
’’یہ حقیر آپ سے ملنا چاہتا ہے!‘‘
فرمایا:
’’میاں ہم سے ملنے کے بعد تو تم مزید حقیر ہوجاؤگے، آخرکیوں ملنا چاہتے ہو؟‘‘
عرض کیا کہ:
’’وہ جو آپ کے پاس ایک فن ہے، بس اُسی فن کے …‘‘
بات سمجھ گئے۔ کہنے لگے:
’’فن کہاں؟ میاں! ہمارے پاس تو بس ایک ’’پھن‘‘ ہے سو پھنکارتے رہتے ہیں… چلو اچھا! آجاؤ‘‘۔
اُس زمانے میں اُن کا کالم ’آداب عرض‘ روزنامہ ’حریت‘ (مرحوم) میں بلاناغہ چھپا کرتا تھا۔ روتے ہوئے قارئین کو ’مُسکروانا‘ اور مسکروانے کے بعد قہقہے لگوانا اُنھی کا کام تھا۔ سو، یارِ عزیز سلیم فاروقی کے ساتھ اُن کے گھر پہنچے۔ پہنچتے ہی پہلا سوال یہ کیا:
’’مرغی بھی انڈا روز نہیں دیتی… مگر آپ کا کالم ہر روز ناشتے کی میز پر دھرا ہوتا ہے… آخر آپ روزانہ کالم کیسے لکھ لیتے ہیں؟‘‘
مسکرا دیے اور کہا:
’’میاں! ہر صبح اخبار اُٹھانے سے پہلے ہاتھ اُٹھاتا ہوں اور دُعا کرتا ہوں کہ یا اللہ! آج کسی بڑے آدمی نے کوئی حماقت کی بات کہی ہو۔ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو جس دن یہ دُعا قبول نہ ہوئی ہو‘‘۔
یوں تو اُسی دن سے ہم بھی مرشد کی بتائی ہوئی دُعا کو وظیفہ بنائے ہوئے ہیں، مگر اُس وقت اپنی اُلجھن دُور کرنے کے لیے احتیاطاً پوچھ لیا:
’’اگر کسی دن بڑے آدمیوں سے یہ حماقت سرزد ہوجائے کہ وہ حماقت کی کوئی بات کہنا بھول جائیں تو اُس روز؟‘‘
جھٹ جواب ملا:
’’اُس روز مجبوراً اپنی ہی حماقتوں پر لکھتے ہیں!‘‘
یاد آیا کہ ایک روز اُنہوں نے (غالباً کوئی موضوع نہ پاکر) ’ٹِڑنگ‘ کی معنویت پر ایک کالم لکھا تھا۔ یہ وہ آواز تھی جو ’ریڈیو پاکستان‘ اپنی ’کمرشل سروس‘ میں اپنے دو اشتہارات کے درمیان نکالا کرتا تھا تاکہ سب کو معلوم ہوجائے کہ ایک اشتہار ختم ہوا، دوسرا شروع ہوتا ہے۔ کرتے کرتے ’ٹڑنگ‘ میں اس قدر معنویت پیدا کردی تھی کہ لطف آنے لگا۔ حتیٰ کہ فرمایا:
’’ اگر یہ لفظ فیض کے اشعار میں ڈال دیا جائے تو مزید معنی خیز ہوجاتا ہے:
گلوں میں رنگ بھرے، بادِ نوبہار ’’ٹِڑنگ‘‘
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار ’’ٹِڑنگ‘‘
مقام، فیضؔ، کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار ’’ٹِڑنگ‘‘
فیضؔ اُس وقت زندہ تھے۔ یقینا لطف اندوز ہوئے ہوں گے۔ ظرافت اگر حاضر جوابی کے ساتھ ہو تو کیا ہی قہقہہ بار ہوتی ہے۔ پر یہ کم ہی ہوتا ہے۔ 1965ء کی جنگ میں پوری قوم یکایک پاکستانی بھی ہوگئی تھی، مسلمان بھی اور مجاہد بھی۔ پھر ویسے دن کبھی نہیں آئے۔ دوبارہ ویسے دن کیسے آئیں گے؟ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ مگر یاد آتا ہے کہ ہم پانچویں جماعت پاس کر چکے تھے چھٹی جماعت میں داخلہ ہونے والا تھا۔ اب ہم بچے نہیں رہے تھے، ’بڑے‘ ہوگئے تھے۔ اخبار پڑھنا شروع کردیا تھا۔ گھر میں ’حریت‘ آتا تھا۔ ایک روز ’آداب عرض‘ میں بھارتی وزیر اعظم کا ایک فرضی انٹرویو پڑھا اور ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئے۔ دو مکالمے اب تک یاد ہیں:
کالم نگار: ’’آپ کا شُبھ نام کیا ہے؟‘‘
بھارتی وزیر اعظم: ’’لال بہادُر شاستری!‘‘
کالم نگار: ’’جی؟ کیا کہا؟ … شکستِ فاشتری؟‘‘
اس پر پردھان منتری نے تلملا کر کالم نگار سے پوچھا: ’’آپ کا شُبھ نام کیا ہے؟‘‘
کالم نگارنے بڑی قرأت سے جواب دیا: ’’نصرٌ من اللہ و فتحٌ قریب‘‘۔
قصے تو ابھی بہت سے رہے جاتے ہیں مگر کالم تمام ہورہا ہے۔ آخر میں خود اُنھی کا سنایا ہوا ایک قصہ سنا کر بس کرتے ہیں۔ ایک روزفرمایا کہ ’بھٹو صاحب کے دور میں ایک بار بحیثیت کالم نگار مجھے بھی وزیراعظم ہاؤس بلایا گیا۔ فون ہی نہیں، محکمہ اطلاعات و نشریات سے ٹکٹ بھی آگیا۔ میں حیران و پریشان۔ میں نے پی آئی ڈی والوں کو فون کر کے کہا:
’’بھائی! وہ حقے والے نصراللہ خان ہوں گے جن کو بلایا گیا ہوگا، میں تو ایک گمنام آدمی ہوں‘‘۔
یہ سن کر وہ ہنسے اور بولے کہ آپ ہی کو بُلایا گیا ہے۔ خیر دعوت قبول کر لی۔ مگر وہاں تو میاں!… ’بڑے بڑے نامور صحافی اور کالم نگار‘ … (خاںصاحب نے ہمیں ان کے نام بتائے تھے) … کشکول پھیلائے خیرات مانگ رہے تھے۔ کوئی پلاٹ مانگ رہا ہے… کوئی پرمٹ مانگ رہا ہے … کوئی لائسنس مانگ رہا ہے … کوئی کسی بھانجے، بھتیجے، بیٹے، داماد کے لیے ملازمت مانگ رہا ہے… میں درویش آدمی، میرے پاس تو اپنا مکان تک نہیں، کرائے کے مکان میں مجھے کیا ہوس ہوتی؟ سو، میں نے کہہ دیا:
’’آپ کا بہت بہت شکریہ! میرے پاس اللہ کا دیا بہت کچھ ہے۔ اللہ نے بہت دیا ہے‘‘۔
یہ کہہ کر وہاں سے ہاتھ اور دامن جھاڑ کر چلاآیا۔ میرے وہاں چلے جانے پر تمہارے اخبار کے کالم نگار اور تمہارے ممدوح ’غریبِ شہر‘ (مشفق خواجہ) نے مزے لے لے کر اپنے کالم میں لکھا تھا کہ:
’’باقی جو ادیب، صحافی اور کالم نگار گئے ہیں انہیں تو ہم جانتے ہیں کہ چھٹے ہوئے ادبی بد معاش اور مانے ہوئے صحافتی غنڈے ہیں، ہمیشہ کے بکاؤمال ہیں۔ مگر یہ سفید بالوں اور سفید کرتے پاجامے والے نصراللہ خاں وہاں کس چکر میں چلے گئے؟ یہ وہاں سے کچھ لے کے تو نہیں آ سکتے، کچھ دے ہی آئیں گے۔ یا تو اپنا سفید کرتا دے آئیں گے یا پاجامہ‘‘۔
مگر وہ سفید کرتے پاجامے والے لوگ اب کہاں؟