حکومت اور اپوزیشن …… دونوں ناکام

442

پاکستان پر کیسا مشکل وقت آگیا ہے کہ پوری ’’قومی قیادت‘‘ کہ جس میں حکومت اور اپوزیشن دونوں شامل ہیں دونوں ہی کو ناکامی اور بدنامی کا سامنا ہے۔ حکومت مکمل طور پر ناکام ہے کیوں کہ کرپشن کے خلاف کریک ڈائون یا یہ کہ کرپٹ عناصر کی محض گرفتاریاں اچھی خبر تو نہیں مگر اِس اچھی خبر سے لوگوں کا پیٹ نہیں بھرے گا، چولہا اور بلب نہیں جلے گا… لہٰذا اگر وزیراعظم عمران خان سے درج ذیل چند سوالات پوچھ لیے جائیں تو ان کا جواب کیا ہوگا؟۔ آپ نے الیکشن مہم کے دوران مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف جو باتیں کیں اور جس طرح کا ردعمل اور لائحہ عمل دیا ان کے مطابق بجٹ (2019-20) کیوں نہ بن سکا۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے عالمی مالیاتی ادارے عالمی سامراجی قوتوں کے وہ حربے ہیں جن کے ذریعے آزاد اقوام کو محتاج اور غلام بنانے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ’’آئی ایم ایف‘‘ کے ساتھ معاہدہ کیوں کیا گیا؟ سعودی عرب، یو اے ای، چین (سی پیک) ترکی، ملائیشیا اور قطر وغیرہ کے ساتھ سرمایہ کاری اور امداد کے جو اربوں ڈالر کے معاہدے ہوئے ان کے نتیجے میں پاکستان کے عوام کو کوئی براہ راست ریلیف کیوں نہیں مل رہا، اگر تحریک انصاف کی حکومت عوام کو ترقی و خوشحالی کی طرف لے جانے والے پیسے کو محض عالمی مالیاتی اداروں کے بیرونی قرضے اُتارنے پر صرف کررہی ہے تو پھر عوام کے مصائب اور مشکلات کو کم کرنے کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا اور مزید یہ کہ کیا وزیراعظم عمران خان صاحب نے عوام سے ووٹ لیتے وقت یہی کچھ کہا تھا جو اب کررہے ہیں۔ کیا محض بدعنوان عناصر کی گرفتاریوں ہی کو خوشخبری بنا کر عوام کو مطمئن کیا جاسکتا ہے، کیا عوام کی تلاشی لے کر ’’آئی ایم ایف‘‘ کی تجوریاں بھرنے والی حکومت کو ’’عوام دوست حکومت‘‘ کہا جاسکتا ہے؟۔
آپ کہتے ہیں کہ مہنگائی ابھی دو سال باقی رہے گی اگر ایسا ہے تو پھر اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ آپ دو سال گزرنے کے بعد مہنگائی کی مدت میں مزید اضافہ کرنے کی بات نہیں کریں گے؟۔ یوٹرن لینے میں ویسے بھی آپ کافی شہرت رکھتے ہیں اور شاید آپ یہ بات بھول رہے ہیں کہ ’’یوٹرن‘‘ ہی سب سے بڑا دھوکا اور جھوٹ ہے کہ جس کا آپ زیادہ سے زیادہ استعمال کررہے ہیں۔ پاکستان کی ترقی، خوشحالی اور امن کے لیے اب تک آپ نے جو بھی اقدامات اُٹھائے اُن میں سے کوئی بھی قابل ذکر نہیں۔ بھارت، امریکا، اسرائیل گٹھ جوڑ سے پاکستان کی سلامتی کو جو خطرات لاحق ہیں اُن پر بھی آپ کی پالیسی اور مزاحمت واضح نظر نہیں آتی۔ آپ بھارت سے جنگ کرتے ہوئے ڈرتے ہیں، مذاکرات کی بھیک مانگنے سے پاک بھارت کشیدگی دور نہیں ہوگی اور نہ ہی یکطرفہ جذبہ خیرسگالی کے تحت ’’مسئلہ کشمیر‘‘ حل ہوگا۔ ’’افغان جنگ‘‘ میں امریکا کے تھپڑ بھی کھا رہے ہیں اور شاباش بھی۔ امریکا افغان جنگ کے بعد اب ایران پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کررہا ہے تاہم آپ کی خارجہ پالیسی میں کسی بھی مسلم ملک پر بیرونی جارحیت میں کوئی مدد شامل نہیں۔ شہید بابری مسجد سے لے کر مقبوضہ بیت المقدس تک اور مقبوضہ کشمیر سے لے کر فلسطین تک آپ کی حکومت کا کردار جرأت مندانہ اور قابل تقلید نہیں کہ جس پر تحسین کی جائے۔ لہٰذا اس صورت حال میں اگر ’’تحریک انصاف‘‘ کی حکومت کو ایک ناکام حکومت کہا جائے تو کیسے اور کیونکر غلط ہوگا؟۔
حکومت جس کی بھی ہو اور جہاں بھی ہو ہمیشہ طاقت کے نشے میں لڑکھڑاتی اور لہکتی رہتی ہے، حکمران اکثر غرور و تکبر کا شکار رہتے ہیں، وہ خود کو عقل کل اور سیاہ و سفید کا مالک سمجھتے ہیں تاہم یہ اپوزیشن ہی ہوتی ہے جو حکومت کے قبلہ کو درست سمت پر رکھنے کے لیے اُس کا جبڑا پکڑ کر بار بار اُسے سیدھا کرتی رہتی ہے۔ اپوزیشن کی مخالفت اور ردعمل ہی حکومت کی گاڑی کو پٹڑی پر چلنے پر مجبور کرتی ہے ورنہ حکومت تو ایک بار نہیں کئی بار پٹڑی سے اُتر اُتر جاتی ہے، کسی بھی جمہوری ملک کی کامیاب حکومت کو دانشمند اپوزیشن کی ضرورت
ہوتی ہے جس کی مدد و رہنمائی سے حکومت اپنی آئینی مدت کو باعزت اور احسن طریقے سے مکمل کرتی ہے، مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان کی جمہوری و سیاسی تاریخ میں پہلی ’’اپوزیشن‘‘ ایسی آئی ہے جس کو حکومت کا گھیرائو کرنے اور گرانے کے مواقعے ملے مگر وہ حکومت کے ناک پر بیٹھی مکھی تک نہ اُڑا سکی۔ ویسے بھی اپوزیشن کی یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ قومی خزانے کے تمام چور تقریباً اپوزیشن ہی کی صفوں سے گرفتار ہورہے ہیں، تاہم اپوزیشن جماعتوں کی وہ قیادت جو بدعنوانی کے الزامات سے بری الذمہ تھی اگر اُس میں بھی کوئی سیاسی بصیرت ہوتی تو وہ حکومت کو ٹف ٹائم دے سکتی تھی کیوں کہ مقدمات اور گرفتاریوں سے تمام آپشن ختم نہیں ہوجاتے کہ جن کے ذریعے حکومت پر دبائو نہ ڈالا جاسکتا ہو۔ مولانا فضل الرحمن صاحب کی ’’اے پی سی‘‘ کی ناکامی محض مولانا کی کوئی ذاتی ناکامی نہیں بلکہ پوری اپوزیشن کی بدنامی ہے کہ جو جلسوں سے لے کر جلوسوں تک ہر جگہ موجود ہونے کے باوجود حکومت کے دروازے تک نہ پہنچ سکی۔ جلسے کرنے اور جلوس نکالنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیوں کہ پاکستان کی سڑکیں کافی لمبی اور پارک بہت بڑے ہیں، نعرے لگانے اور بھنگڑا ڈالنے پر کوئی پابندی نہیں، چیخ چیخ کر تقریریں کرنے کی بھی اجازت ہے، رائے عامہ ہموار کرنے کے بہانے اسلام آباد کو پیٹھ دے کر دوسرے شہروں کا رُخ کرنا بھی آسان ہے، 25 جولائی کا یوم سیاہ بھی ہوجائے گا تاہم عوام کے سروں پر پانچ سال تک ایک ناکام حکومت کے مسلط رہنے کا جو آئینی فیصلہ ہوچکا ہے اُس کو منسوخ یا تبدیل کرانے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کی گئی؟ حیرت ہے کہ اپوزیشن کو وزیراعظم ہٹانے پر اتفاق کرنا چاہیے تھا جب کہ اُس نے چیئرمین سینیٹ ہٹانے پر اتفاق کرلیا۔ ’’اے پی سی‘‘ کے مشترکہ اعلامیے میں حکومت کو ملکی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دینے کے باوجود اس خطرے سے نمٹنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ اپوزیشن رہنما اگر پوری ذمے داری کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ حکومت ملکی سلامتی کے لیے خطرہ بن چکی ہے تو اس کے ردعمل میں اپوزیشن کوئی لائحہ عمل کیوں نہ دے سکی۔ مشترکہ اعلامیے میں حکومت پر سنگین الزامات لگائے گئے تاہم ایسی حکومت سے نجات حاصل کرنے کے لیے کوئی موثر منصوبہ بندی سامنے نہ آسکی۔ حالاں کہ غربت، افلاس کی بڑھتی ہوئی صورت حال اور عوام دشمن بجٹ پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا جو بالکل بجا تھا مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپوزیشن کی دوبڑی جماعتیں اپنی داخلی کمزوریوں اور کرپشن مقدمات کی وجہ سے اس قدر خوفزدہ اور پسپا ہوچکی ہیں کہ وہ وزیراعظم عمران خان سے براہ راست استعفے لینے کا مطالبہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر یہ بات بھی سمجھ لی جائے کہ عمران خان صاحب کی ناکام حکومت پاکستان کی ترقی، خوشحالی اور محفوظ مستقبل کو جس حد تک نقصان پہنچائے گی اس کی ایک ذمے داری براہ راست موجودہ اپوزیشن پر بھی عائد ہوگی جن کی بروقت گرفت نہ کرنے سے ایک ناکام حکومت کو مزید کام کرنے کا موقع ملا۔ یہاں تک کہ پاکستان کے دشمنوں کا کام آسان ہوگیا۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن صاحب کی ’’اے پی سی‘‘ نے مایوسی میں مزید اضافہ کیا۔ امریکا اور اُس کے غلام عالمی مالیاتی اداروں نے جس طرح سے وزیراعظم عمران اور ان کی حکومت کو ٹریپ کرلیا ہے اُس سے کہیں زیادہ اپوزیشن رہنمائوں نے عوام کو دھوکا دیا اور مایوس کیا، کیوں کہ یہ عوام کی مدد سے عوام ہی کے لیے بہت کچھ کرسکتے تھے مگر ایسا لگتا ہے کہ کرپشن مقدمات اور الزامات میں ڈوبے اپوزیشن رہنما بھی بیرونی آقائوں کے ایجنڈے پر عمل درآمد کے لیے راستہ کھلا رکھنا چاہتے ہیں۔ بہرحال پاکستان کی حکومت اور اپوزیشن دونوں کو یہ معلوم رہنا چاہیے کہ آپ دونوں ہی ناکام ہیں اور آپ دونوں کی ناکام پالیسیاں پاکستان کو جس راستے پر لے جارہی ہیں ممکن ہے آگے چل کر ایک ایسا ہی ’’پُرتشدد عوامی انقلاب‘‘ انتظار کررہا ہو جس کے بعد حکومت اور اپوزیشن دونوں سے ایک ہی ’’وصیت نامے‘‘ پر دستخط لیے جائیں۔ اللہ رب العزت سے دُعا ہے کہ وہ پاکستان کی حفاظت اور قیادت کو ہدایت فرمائے۔ آمین ثم آمین۔