کلبھوشن جاسوس ہے سزائے موت برقرار قونصلر رسائی دی جائے،عالمی عدالت

910
دی ہیگ: عالمی عدالت انصاف کے صدر جج عبدالقوی احمد یوسف بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کیس کا فیصلہ سنا رہے ہیں
دی ہیگ: عالمی عدالت انصاف کے صدر جج عبدالقوی احمد یوسف بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کیس کا فیصلہ سنا رہے ہیں

دی ہیگ ( خبرایجنسیاں)عالمی عدالت انصاف نے کلبھوشن یادیوکی رہائی اورحوالگی سے متعلق بھارتی درخواست مسترد کرتے ہوئے پاکستان سے کہا کہ کلبھوشنکی سزائے موت پر نظر ثانی کرے اور قونصلر رسائی دے ۔عدالت نے بھارت کی اپیل کے قابل سماعت ہونے پر پاکستان کے تینوں اعتراضات بھی مسترد کردیے ہیں۔فیصلے کے مطابق اس کیس پر ویانا کنونشن کا اطلاق ہوتا ہے اور ویانا کنونشن جاسوسی کرنے والے قیدیوں کو قونصلر رسائی سے محروم نہیں کرتا، پاکستان نے قونصلر رسائی نہ دے کر ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کی،بھارت کی دیگر عالمی قوانین کی مبینہ خلاف ورزی کا یہ مطلب نہیں کہ قونصلر رسائی روک دی جائے،پاکستان نے بھارتی حکام کو وقت پر گرفتاری کی اطلاع نہیں دی۔عالمی عدالت نے پاکستان کی فوجی عدالت سے کلبھوشن کو ملنے والی سزا کو چیلنج کرنے کی بھارتی استدعا کو بھی ردکردیا۔بدھ کو ہالینڈ کے دارالحکومت دی ہیگ میں عالمی عدالت انصاف کے صدر اور جج عبدالقوی احمد یوسف نے 42صفحات پر مشتمل فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ عدالت کے 15 رکنی بینچ میں پاکستان کا ایک ایڈ ہاک جج اور بھارت کا ایک مستقل جج بھی شامل تھا۔فیصلہ سننے کے لیے پاکستان کی جانب سے اٹارنی جنرل انور منصور خان، ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل اور دیگر افراد موجود تھے۔عالمی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ کلبھوشن یادیو پاکستان کی تحویل میں ہی رہے گا۔ عدالتنے حسین مبارک پٹیل کے نام سے پاسپورٹ کو اصلی قرار دیا ۔فیصلے میں کہا گیاکہ پاکستان اور بھارت ویانا کنونشن کے رکن ہیں اور دونوں ممالک پورے کیس میں ایک بات پر متفق رہے کہ کلبھوشن بھارتی شہری ہے۔عدالت نے کہا کہ پاکستان کلبھوشن کو اس کے حقوق بتانے میں ناکام رہا اور اس نے بھارتی قونصل خانے کو کلبھوشن کی گرفتاری کی اطلاع بروقت نہیں دی۔جج یوسف نے کہا کہ عدالت سمجھتی ہے کہ بھارت کی طرف سے اس کیس میں تعاون نہ کرنے کی بنیاد پر پاکستان کو یہ حق نہیں ملتا کہ وہ یادیو کو قونصلر تک رسائی نہ دے۔ پاکستان فوری طور پر کلبھوشن کو اس کے بنیادی حقوق کے بارے میں مطلع کرے جو ویانا کنونشن کے آرٹیکل 36 میں بیان کیے گئے ہیں۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ کلبھوشن نے پاکستان کے آرمی چیف کو رحم کی اپیل دے رکھی ہے اس لیے اس کی سزا پر عمل درآمد نہ کیا جائے اور کہا کہ پاکستان خود اپنے ذرائع استعمال کرتے ہوئے ان کی اپیل پر نظر ثانی کرے۔عدالت کلبھوشن جادیو کی سزائے موت پر حکم امتناعی کے تسلسل کو نظر ثانی کا اہم حصہ سمجھے گی،پاکستان کو کلبھوشن کے خلاف فیصلے کی اپیل کا راستہ فراہم کرنا چاہیے۔ عدالت نے قرار دیا کہ صدر یا آرمی چیف کے سامنے معافی کی اپیلیں نظر ثانی کا موثر طریقہ نہیںہے،مؤثر تلافی کیس پر نظر ثانی ہوگی۔عدالت نے کہا کہ پاکستان کا عالمی عدالت انصاف کے دائرہ اختیار پر اعتراض مسترد کیا جاتا ہے۔فیصلے میں کہا گیا کہ پاکستان نے کہا کہ گرفتاری کے وقت کلبھوشنکے پاس بھارتی پاسپورٹ تھا جس پر اس کا نام حسین مبارک لکھا ہوا تھا۔ عدالت یہ سمجھتی ہے کہ اس وقت یادیو کو گرفتار کرنے کے لیے کافی ثبوت موجود تھے۔عالمی عدالت کا فیصلہ صرف رائے کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے پاس اس پر عمل کروانے کے اختیارات نہیں ہیں۔علاوہ ازیں عالمی عدالت انصاف میں پاکستانی ایڈہاک جج جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی نے کلبھوشن یادیو کیس کے فیصلے میں اختلافی نوٹ میں لکھا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ویانا کنونشن کسی صورت میں جاسوسوں یا پاکستانی سالمیت کو نقصان پہنچانے والوں پر لاگو نہیں ہوتا، ویانا کنونشن لکھنے والوں نے جاسوسوں کو شامل کرنے کا سوچا بھی نہیں ہوگا۔ جسٹس تصدق جیلانی نے کہا کہ بھارتی جاسوس کے پاس اصلی بھارتی پاسپورٹ پر غلط نام حسین مبارک پٹیل درج تھا، اور اس نے عدالت میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے اور را کا ایجنٹ ہونے کا اعتراف کیا تھا، عالمی عدالت کو بھارتی درخواست کو قابل سماعت قرار دینا ہی نہیں چاہیے تھی، بھارت مقدمے میں حقوق سے ناجائز فائدہ اٹھانے کا مرتکب ہوا ہے۔