ذکر کمسن ڈرائیور بے بی خورشید کا

630

آپ ذرا تصور کیجیے کہ آٹھ دس سال کی بچی کراچی کی سڑکوں پر واٹر ٹینکر چلانے پر مجبور ہوئی ہے تو کیوں؟ اور پھر آپ یہ بھی غور کیجیے کہ اس کمسن ٹینکر ڈرائیور کے خلاف ڈی آئی جی ٹریفک نے کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو وہ خود کس قدر سخت ہوگا؟۔ نہیں معلوم کہ وہ سخت قانون پسند ہیں یا معصوم کو مجبوراً ٹینکر چلاتے دیکھ کر انہیں قانون پرستی یاد آئی ہے؟۔ بہتر ہوتا کہ پولیس افسر اس بچی کی مجبوری کے بارے میں بھی معلومات کرتے جس کی وجہ سے وہ واٹر ٹینکر ڈرائیور بننے پر مجبور ہوئی۔ پولیس سڑکوں پر کیا کرتی ہے اور کس طرح قوانین پر عمل کراتی ہے اس حوالے سے ایک واقعہ سنیے۔ یہ بات تقریباً 25 سال پرانی ہوگی۔ ایم اے جناح روڈ پر تبت سینٹر کے قریب ایک مزدا منی بس کو صبح تقریباً نو بجے ٹریفک پولیس اہلکار روکتے ہیں اور ڈرائیور سے بس کی چابیاں لیکر اس سے کچھ باتیں کرنے لگتے ہیں۔ بس کے مسافر سمجھ جاتے ہیں کہ یہ کوئی بھتے کا چکر ہے۔ کنڈکٹر سے پوچھنے پر وہ انگلیوں کے اشارے سے بتاتا ہے کہ ٹریفک پولیس اہلکار ’’ہفتہ‘‘ مانگ رہے ہیں۔ ڈرائیور کا اصرار تھا کہ وہ معمول کے مطابق اڈے والے کو بھتا دے چکا ہے مگر یہ اہلکار مصر تھے کہ انہیں پیسے دیے جائیں۔ اس منی بس میں اتفاق سے ایک ایڈیشنل جج بھی سفر کررہے تھے۔ دیگر مسافروں کی طرح جج صاحب کو بھی وقت پر دفتر پہنچنے کی جلدی تھی۔ تاخیر ہونے پر انہوں نے کنڈکٹر کو بلایا اور اس سے کہا پولیس اہلکاروں کو ان کی کھڑکی کے پاس لیکر آئو، کنڈکٹر نے ایسا ہی کیا اور دونوں پولیس اہلکاروں سے کہا کہ وہ انہیں اس سیٹ پر بیٹھا مسافر بلارہا ہے، جس پر ایک کانسٹیبل اپنے مخصوص لہجے میں کہا کہ ’’جی جناب آپ کا کیا مسئلہ ہے؟‘‘ جج صاحب نے کہا کہ مسئلہ تو میں پوچھنا چاہتا ہوں مگر اس سے قبل تم مزید بدتمیزی پر اتر آئو، میں اپنا تعارف کرادوں، یہ کہتے ہوئے جیب سے اپنا کارڈ نکال کر کانسٹیبل کو دیا، کانسٹبل نے کارڈ دیکھتے ہی اپنے ساتھی پولیس اہلکار سے مخاطب ہوا اور کہا کہ ’’ابے اوئے اللہ دتہ گڈی میں جج صاحب بیٹھے ہیں تو ہٹ پرے گڈی جانے دے‘‘۔ یہ منظر دیکھ کر مسافروں کے قہقہے نکل آئے۔
ننھی خورشید اس عمر میں واٹر ٹینکر چلانے پر کیوں مجبور ہوئی؟ میں نے اس سوال کے جواب کے لیے جب بے بی خورشید سے رابطہ کیا تو وہ بہت اطمینان اور اعتماد کے ساتھ مجھے بتارہی تھی کہ ’’انکل مشکلات تو آتی رہتی ہے، مگر مشکلات سے لڑکر انہیں آسان بنانا اصل کام ہوتا ہے، میرے ابو کو فالج کا مرض لاحق ہے اس بیماری کی وجہ سے ان کا ایک پاؤں اور ہاتھ ٹھیک نہیں۔ جس کی وجہ سے میں ابو کے ساتھ جاتی ہوں، وہ میرے کلینر کے طور پر میرے ساتھ گاڑی میں ہوتے ہیں، ٹینکر کے ذریعے پانی ضرورت مندوں تک پہنچاتی ہوں اس طرح اللہ ہماری ضروریات بھی پوری کرررہا ہے‘‘۔ بے بی خورشید کا کہنا تھا کہ عمران خان کی حکومت آنے کے بعد مہنگائی نے مشکلات میں اضافہ کردیا ہے۔ مجھے خورشید ’’خورشید اثر‘‘ دکھائی دے رہی تھی، اسے دیکھ کر اس کی باتیں سن کر بے اختیار دعا نکل رہی تھی کہ اللہ اسے نظر بد سے بچاکر ہمیشہ خوش و خرم رکھے اور اس کی نیک خواہشات پوری کرے، آمین۔
اپنی ذات میں ’’بے نظیر‘‘ بن جانے والی خورشید کی خواہش ہے کہ وہ پڑھ لکھ کر پاک فوج میں شامل ہو اور ملک کی خدمت کرے۔ اس قدر باہمت اور حوصلہ مند بچی کے لیے ضرورت تو اس بات کی ہے کہ اس کو مزید ہمت دلائی جائے، اس کی بہتر تعلیم اور گھر کی ضروریات کے لیے انتظامات کیے جائیں۔ بدقسمتی سے خورشید اس ملک سے تعلق رکھتی ہے جس کا ہر پیدا ہونے والا بچہ ایک لاکھ 20 ہزار روپے کا مقروض ہوتا ہے۔ ملک میں 75 ہزار سے زائد فعال این جی اوز ہیں جن کی سالانہ آمدنی اور اخراجات ہزاروں ڈالر سے کم نہیں ہے۔ مگر پھر بھی انہیں خورشید جیسی بیٹیاں نظر نہیں آتیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ معصوم مجبور ٹینکر ڈرائیور کی غیر معمولی مدد اور حوصلہ افزائی کی جائے مگر اس معاشرے میں کسی بھی طرح افسر بن کر لوگوں پر مسلط کردیے جانے والے کم ازکم پولیس افسران کبھی بھی اس طرح مثبت سوچ ہی نہیں سکتے کیوںکہ ان کا کام ’’قانون‘‘ کی حفاظت کرنا ہے۔ اس قانون کی جس کی وہ خود صبح سے شام تک دھجیاں اڑتے ہیں۔ اس قدر باہمت بیٹی واٹر ٹینکر چلا کراپنی گھر والوں کی کفالت کر رہی ہے ڈی آئی جی ٹریفک کی جانب سے آنے والے ردعمل پر مجھے افسوس ہوا۔ ڈی آئی جی کا کہنا ہے کہ ’’کم عمری میں ڈرائیوری کرنے پر بچی کے خلاف قانون کے تحت کارروائی کی جائے گی‘‘۔
شاباش ڈی آئی جی صاحب، آپ اس شہر کے ڈی آئی جی پولیس ہیں جہاں ہر قدم پر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیاں کی جاتی ہیں، جہاں پولیس اہلکار خود ٹریفک قوانین کیا کسی بھی قانون پر عمل کرنے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ یہ اہلکار جو وردی میں شراب پی کر سرعام مست ہوجاتے ہیں مگر کوئی ان کے خلاف فوری ایکشن نہیں لیتا۔ جناب ڈی آئی جی آپ اس صوبے کے پولیس افسر ہیں جہاں ڈسپلین کی خلاف ورزی کرنے والے ماتحت اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرنے پر آپ ہی کی طرح کے ڈی آئی جی کو عہدے سے برطرف کیا جاچکا ہے۔ ڈی آئی جی صاحب دنیا کے بیش تر ممالک میں ’’ٹیلنٹ ہنٹنگ‘‘ پر لاکھوں ڈالر خرچ کرکے باصلاحیت بچوں کو سامنے لانے کا کام کیا جارہا ہے۔ مگر ہمارے ملک میں صلاحیتوں کو دبانے اور ان کی حوصلہ شکنی کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ یہاں پولیس افسران کے کم عمر بیٹے سرکاری و نجی گاڑیاں سڑکوں پر دوڑا سکتے ہیں مگر کوئی مجبور بیٹی اپنے خاندان کی کفالت کے لیے ڈرائیوری کرے تو اس کے لیے قانون زندہ ہوجاتا ہے۔ اس شہر میں پولیس افسران اور اہم شخصیات کے بیٹے اسلحہ لے کر نہ صرف گھومتے رہتے ہیں بلکہ اسے استعمال بھی کرجاتے ہیں۔ مگر ایسے بااثر بچوں اور بڑوں کی لاقانونیت پر قانون ’’مردہ‘‘ ہی نظر آتا ہے۔
جب میں یہ لکھ رہا تھا اس وقت تک بے بی خورشید کے خلاف ٹریفک پولیس نے کسی قسم کی کارروائی نہیں کی تھی ممکن ہے کہ بچی خود ڈی آئی جی کے بیان کے بعد خوفزدہ ہوکر ٹینکر چلانے سے انکار کرچکی ہو، ہوسکتا ہے کہ اس کے والدین نے اسے ڈرائیوری کرنے سے روک دیا ہو، چاہے ان کے گھر فاقے ہی ہورہے ہوں۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر اس بچی کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی جس سے اس میں خوف پیدا ہو اور اس کی حوصلہ شکنی ہو تو یہ بہت تکلیف دہ امر ہوگا۔ ایسی صورت میں مذکورہ ڈی آئی جی اس کی صلاحیتوں اور گھر کے لیے کی جانے والی کوشش میں رکاوٹ بننے کا ذمے دار ہوگا۔ حالاںکہ اس بچی کو ’’خصوصی بچہ‘‘ قرار دے کر اسے ڈرائیونگ لائسنس بھی جاری کیا جاسکتا ہے۔ مگر مجھے یاد آیا کہ یہاں تو صرف معذوروں کو ’’اسپیشل‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔ یہاں باصلاحیت بچے بھلا کیسے ’’اسپیشل‘‘ کہلا سکتے ہیں۔
کراچی میں تو نابینا ڈرائیور کو بھی ڈرائیونگ لائسنس جاری کیا جاچکا تھا جو بعد میں منسوخ کیا گیا۔ معصوم و مجبور ٹینکر ڈرائیور خورشید کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا اشارہ دینے والا پولیس افسر اگر خورشید کے حالات کو انسانیت کے پیرائے میں جانچ لیتا تو شاید وہ اپنا ردعمل میڈیا کو جاری نہیں کرتا۔ مگر بدقسمتی یہ ہے کہ سرکاری افسران کے پاس عام افراد کی طرف توجہ دینے کا وقت کہاں ہوتا ہے۔ میں جس پولیس افسر کی بات کررہا ہوں، ان سے بے بی خورشید کے حوالے سے قانونی چارہ جوئی کے بارے میں موقف لینے کے لیے جب میں نے ہفتہ 13 جولائی کی شب 10 بجکر 52 اور 10 بجکر 59 منٹ پر کال کرکے رابطہ کی کوشش کی تو انہوں نے کال ریسو کرنے سے گریز کیا۔ اس دوران 10 بجکر 55 منٹ پر ایس ایم ایس بھی کیا۔ لیکن مصروف ڈی آئی جی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ البتہ اتوار کی شام انہوں نے مجھے کال کی میں نے کال ریسیو کی اور پوچھا ’’آپ کون‘‘ جواب میں انہوں نے اپنا تعارف کرانے کے بجائے کہا کہ آپ کل رات مجھے کال کررہے تھے، میں نے کہا مجھے یاد نہیں آرہا ہے آپ مجھے اپنا تعارف کرادیں گے، اس پر ڈی ائی جی نے یہ کہہ کر فون منقطع کردیا کہ کوئی بات نہیں۔ چوںکہ موصوف کا نمبر میرے موبائل میں محفوظ نہیں تھا اسی وجہ سے میں نے ان سے تعارف کی درخواست کی تھی۔ بعد میں جب میں نے کال لاگ میں چیک کیا کہ گزشتہ رات میں نے کس کس کو کال کی تھی تو یہ بات سامنے آئی کہ ایک کال ڈی آئی جی ٹریفک کو کی تھی۔ جس پر میں نے دوبارہ ان کے اسی نمبر پر کال کی مگر انہوں نے فون ریسیو نہیں کیا۔ یہ ہوتا ہے ہمارے خدمت گار پولیس افسران کا رویہ۔
میری آرمی چیف قمر باجوہ سے درخواست ہے کہ اس بچی کی حوصلہ افزائی کے لیے اسے آرمی ہیڈ کوارٹر میں بلائیں تاکہ اسے حوصلہ ہو اور وہ فوج میں شامل ہونے کے لیے اپنی تعلیم مکمل کرکے خواب پورا کرسکے۔ جنرل صاحب سے میں یہ درخواست اس لیے کررہا ہوں کہ پاک آرمی مختلف جان لیوا امراض میں مبتلا اسپیشل بچوں کو یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ ایک دن آرمی کے ساتھ گزاریں۔ جناب جنرل باجوہ صاحب بے بی خورشید معذور نہیں مگر اپنی صلاحیت اور ہمت کے لحاظ سے اسپیشل ہے۔