پاکستان اور جماعت اسلامی (۱۹۵۱ء تا ۱۹۵۵ء) ( باب نہم)

266

مولانا مودودیؒ نے ۵؍ مارچ کو ایک اور ٹیلی گرام دیا‘ لیکن وزیراعظم کی طرف سے کوئی جواب نہ ملا۔ اسی شام کو گورنر پنجاب مسٹر آئی آئی چندریگر نے ایک کانفرنس بلای‘ جس میں مولانا مودودیؒ کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ اس موقع پر مولانا نے اپنے خطاب میں یہ کہا کہ: ’’امن دو ہی طریقوں سے قائم ہوسکتا ہے۔ آپ کی حکومت نے عوامی مطالبات کو وجہ بتائے بغیر ٹھکرا دیا ہے جو جمہوری نظام کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ اس لیے یا تو آپ فوج اور پولیس کے ذریعے قوم کو زبردستی دبا دیجیے یا پھر قوم کو راضی کرکے امن قائم کیا جائے۔ اس کے لیے ریڈیو پاکستان پر اعلان کریں کہ وزیراعظم عوامی مطالبات پر گفتگو کے لیے تیار ہیں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ۲۴ گھنٹے میں امن قائم ہوجائے گا‘‘۔ مولانا کی اس تجویز کو گورنر نے پسند کیا اور ریڈیو پر نشر کرنے کے لیے اعلان کا ایک مسودہ بھی تیارکرلیا گیا‘ لیکن چند گھنٹے بعد اس تجویز پر عمل درآمد کرنے کے بجائے عوام کے خلاف طاقت استعمال کرتے ہوئے سیکرٹری دفاع جنرل اسکندر مرزا نے گورنر جنرل غلام محمد کے مشورے سے ۶؍ مارچ ۱۹۵۳ء کو لاہور میں مارشل لا نافذ کردیا۔
مولانا مودودیؒ اور رفقاء کی گرفتاری
۲۷ اور ۲۸؍ مارچ ۱۹۵۳ء کی درمیانی شب کو مولانا مودودیؒ‘ میاں طفیل محمد‘ مولانا امین احسن اصلاحیؒ، مولانا محمد عبدالجبارؒ غازی‘ مولانا مسعود عالم ؒندوی‘ ملک نصراللہ خان عزیز‘ سید نقی علی‘ شوریٰ اور بعض ذمے دار کارکنوں سمیت بارہ افراد کو گرفتار کرکے جیل میں بند کردیا۔ ان بارہ مرکزی افرادکے علاوہ پنجاب سے جماعت کے ۵۴ کارکنوں کو مارشل لا اور سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا اور ۳ ؍مئی ۱۹۵۳ء تک قلعہ لاہور میں پوچھ گچھ ہوتی۔
گرفتار شدگان کو مولانا مودودیؒ سمیت کسی الزام کے بغیر‘ ایک ماہ سے زیادہ سے عرصے تک لاہور میں بند رکھا گیا۔ ان سے کسی جرم کی تحقیق و تفتیش کے بجائے جماعت اسلامی کے ذرائع آمدنی اور بیت المال کے حسابات کے بارے میں تفتیش کی جاتی رہی۔ اس کے بعد انہیں لاہور سینٹرل جیل بعدازاں ملتان جیل بھیج دیا گیا۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان مولانا سید ابو الا علیٰ مودودیؒ اور جماعت کے دیگر سرکردہ اراکین کی اچانک اور غیر متوقع گرفتاریوں سے پیدا شدہ صورت حال سے نمٹنے کے لیے جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ کے باقی ماندہ ارکان اور دیگر اہل رائے حضرات ۱۲؍ اپریل ۱۹۵۳ء کو کراچی میں جمع ہوئے اور سب سے پہلے پورے غورو خوض کے بعد شیخ سلطان احمد کو امیر جماعت اسلامی پاکستان منتخب کر لیا گیا اور امیر جماعت نے کراچی جماعت کے رکن چودھری رحمت الٰہی کو جماعت اسلامی پاکستان کا قیم مقرر کیا۔
گورنر جنرل ملک غلام محمد ۳ ؍مئی ۱۹۵۳ء کو لاہور آئے‘ اسکندر مرزا ان کے ساتھ تھے۔ وہ یہاںا علیٰ فوجی افسروں سے بات چیت کے بعد ۵؍ مئی کو واپس چلے گئے۔ ۹ ؍مئی کو حکومت نے ایک آرڈیننس جاری کیا کہ: ’’مارشل لا عدالتیں‘ مارشل لا کے نفاذ سے پہلے سرزد ہونے والے جرائم کی بھی سماعت کرسکتی ہیں‘‘۔
مولانا مودودیؒ اور مولانا عبد الستار خانؒ نیازی کو سزائے موت کا حکم
لاہور میں مارشل لا کے نفاذ سے دو دن پہلے مولانا مودودیؒ کا تحریر کردہ ایک کتابچہ ’’قادیانی مسئلہ‘‘ چھپ کر بازار میں آگیا تھا۔ جس میں مولانا نے کسی بحث میں الجھے بغیر مرزا غلام احمد اور ان کے خلفاء کی تحریروں کے اقتباسات اور حوالوں کے ذریعے ان کے نبوت کے دعووں اور دلال کے بودے پن کی انتہائی عام فہم انداز میں قلعی کھول کر رکھ دی تھی‘ اور وقتاً فوقتاً ان کی بدلتی ہوئی تاویلوں کا غیر منطقی پن ثابت کردیا تھا۔
(جاری ہے)