اب سی این جی مافیا سے بھی ریلیف دلائی جائے

445

عدالت عظمیٰ نے پاکستان میں موبائل فون کمپنیوں کو صارفین سے اضافی ٹیکس وصول کرنے سے روک دیا ہے۔ عدالت کے حکم پر آپریشنل اور سروسز فیس ختم کردی گئی ہے۔ اب سو روپے کے لوڈ پر 88روپے 90 پیسے ملیں گے۔ اس حکم سے صارفین کو 11روپے 95 پیسے کا فائدہ ہوگا۔ اس سے قبل کئی ماہ تک عدالت عظمیٰ ہی کے حکم پر صارفین کو سو روپے پر سو روپے بیلنس مل رہا تھا اس کا سبب یہی تھا کہ ہر کال پر صارف سے ٹیکس الگ وصول کیا جاتا ہے۔ موبائل کمپنیوں نے عدالت عالیہ سے رجوع کر کے سو روپے پر ٹیکس بحال کروالیے اور صارفین کو 100کے چارج پر 76روپے 94 پیسے ملنے لگے۔ اب عدالت عظمیٰ نے موبائل فون کمپنیوں کو آپریشنل چارجز اور سروسز ٹیکس وصول کرنے سے روک دیا ہے۔ صارفین کو تقریباً 12روپے کا فائدہ ہوا ہے لیکن گزشتہ حکم اور نئے حکم کے دوران بہت کچھ گزر چکا ہے۔ جب عدالت نے 100روپے چارج پر 100روپے دینے کا حکم دیا تو موبائل کمپنیوں نے عوام کو لوٹنے کے لیے نئے حربے اختیار کیے اور تمام پیکیجز کی قیمت بڑھا دی اور کال چارجز میں بھی اضافہ کردیا۔ اب نئے حکم کے بعد کال چارجز میں اضافہ برقرار ہے۔ مہنگے پیکیجز بھی برقرار ہیں۔ اس طرح ایک جانب عدالت عظمیٰ کے حکم سے صارفین کو11روپے 95پیسے کا ریلیف ملا ہے اور دوسری جانب موبائل فون کمپنیاں پیکیج اور کال چارجز میں اضافہ کر کے کروڑوں روپے بٹورنے میں مصروف ہیں۔ عدالتوں میں جب مقدمات پیش ہوتے ہیں تو ’’ چور چوری سے جائے ہیرا پھیر سے نہیں ‘‘ کے مصداق ان کمپنیوں نے لوٹ مار کانظام برقرار رکھا۔ ایک سابق چیف جسٹس جناب افتخار محمد چودھری کے سامنے جب سی این جی کی قیمتوں کا کیس آیا تو انہوں نے اس حوالے سے تمام متعلقہ شعبوں کے ماہرین کو طلب کر کے ہر شعبے سے رپورٹ لے کر سی این جی مالکان اور حکومت کا گٹھ جوڑ توڑا اور صارفین کو تقریباً 34 روپے فی کلو کا فائدہ پہنچایا تھا۔ یہ فائدہ کم بیش دس سال تک صارفین کو ملتا رہا۔ افتخار احمد چودھری کے جانے کے بعد سی این جی مالکان اور حکومت نے پھر سازشیں کر کے پانچ پانچ دس دس روپے کر کے سی این جی کی قیمت 120روپے کروائی تھی جس میں کسی فریق کا کوئی نقصان نہیں تھا۔ اب عدالت عظمیٰ افتخار چودھری والے فیصلے کی روشنی میں سی این جی سیکٹر میں ایک بار پھر عوام کو ریلیف دلائے اس موقع پرجو فارمولا وضع کیا گیا تھا وہ مکمل طور پر ہر شعبے کے مفادات کو مد نظر رکھ کر تیار کیا گیا تھا کسی فریق کو بھی اس پر اعتراض نہیں تھا۔ اگر اس پٹاری کو کھولیں گے تو پتا چلے گا کہ عوام کی جیبوں سے کھربوں روپے ناجائز وصول کیے جارہے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ عدالت عظمیٰ فیصلہ کردے اس کے بعد فارمولے بھی بدل جائیں اور اداروں کو من مانی کا موقع مل جائے۔ موبائل فون کمپنیوں کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے انہیں پیکیجز کی قیمت میں اضافے اور کال چارجز میں اضافے سے بھی روکا جائے۔ موجودہ حکمرانوں نے تو انتہا کردی ہے ایک ہی ہلّے میں سی این جی کی قیمتوں میں 22روپے اضافہ کردیا۔ کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں کہ یہ اضافہ کس بنیاد پر کیا گیا ہے۔ اسمبلیوں میں تو یہ اہتمام کرلیا گیا ہے کہ ایسا کوئی رکن نہ پہنچنے پائے جو ایسے معاملات اٹھا سکتا ہو۔ پھر بھی اگر کوئی پہنچ گیا ہو تو اس پر کام کا اتنا دبائو ہوتا ہے کہ اکیلا سارے معاملات اٹھا ہی نہیں سکتا۔ عدالت عظمیٰ میں کبھی ایسے معاملات آتے تھے لیکن عدالتوں میں یا تو سیاسی مقدمات کی بھرمار ہے یا اب ان کے ججوں کو ویڈیو کی مار ہے۔ ایسے میں وہاں فیصلے کیا ہوں گے۔