سندھ اسمبلی:امریکی قونصل خانے کی عمارت بغیر منصوبہ بندی کے بنائی گئی،اپوزیشن

200

کراچی (نمائندہ جسارت)سندھ اسمبلی کے اجلاس کے دوران اپوزیشن کی اتحادی جماعت جی ڈ ی اے کے ر کن عارف مصطفی جتوئی نے کہا ہے کہ امریکی قونصل خانہ کی عمارت بغیر منصوبہ بندی کے بنائی گئی۔پیر کو سندھ اسمبلی کے اجلاس میںمحکمہ بلدیات سے متعلق وقفہ سوالات کے دوران عارف مصطفی جتوئی نے کہا کہ کراچی کاماسٹرپلان کہاں ہے؟ مائی کلاچی روڈ پر ایک قونصل خانے کے لیے عمارت بغیر منصوبہ بندی کے بنائی گئی ہے۔جس پر اسپیکر آغا سراج درانی نے کہا کہ کیا امریکی قونصل خانے سے متعلق پوچھاجارہاہے۔وزیر بلدیات نے وضاحت کی کہ مائی کلاچی روڈ پر قونصل خانے کی عمارت مروجہ قانون کے مطابق بنی ہے۔ عارف مصطفی جتوئی نے کہا کہ سندھ حکومت کی زمین پر قونصل خانے نے اضافی دیوار بنائی ہوئی ہے،کیا بیرون ملک ہمارے سفارت خانے
اس طرح دیوار کھڑی کرسکتے ہیں۔اسپیکر نے کہا کہ مائی کلاچی روڈ پر قائم قونصل خانے کی دیوار فٹ پاتھ پربنائی گئی ہے۔وزیر بلدیات نے ایوان کو بتایا کہ کراچی پورٹ ٹرسٹ نے مائی کلاچی روڈ پر قونصل خانے کے لیے زمین دی ہے۔ عارف مصطفی جتوئی نے اس بات پر سخت برہمی کا اظہار کیا کہ کے ڈی اے نے کلفٹن میں پارکنگ لاٹ کو ہوٹلز میں تبدیل کرادیاہے،پارکنگ کے نام پر جگہ جگہ 100 روپے لیے جاتے ہیں جن میں سے 50 روپے کا حصہ پولیس کا ہوتا ہے۔وزیر بلدیات سعید غنی کا کہنا تھا کہ کراچی میں مختلف ادارے اپنی اپنی حدود میں تجاوزات کے خاتمے کے مجاز ہیں،بلدیاتی اداروں میں اختیارات کا کوئی تنازع نہیں ہے۔شہر کی جن بستیوں میں جہاں جہاں بھی پانی کے غیرقانونی کنکشن موجودہیں ان کو ختم کیا جائے گا اور کسی بھی شخص کو غیر قانونی کام میں نہیں پڑنا چاہیے۔1979ء کا لوکل گورنمنٹ ایکٹ 1972ء کے سندھ پیپلز لوکل ایکٹ کا چربہ ہے اور اس میں زیادہ تر وہی چیزیں شامل ہیں جو 1972 ء کے ایکٹ میں تھی تاہم اب صوبے میں 2013ء کا لوکل گورنمنٹ ایکٹ نافذ ہوچکا ہے، جس میں جماعتی بنیادوں پر الیکشن، یو سی کی سطح پر چیئرمین اور وائس چیئرمین کا انتخاب عوامی ووٹ کے ذریعے سمیت متعدد دیگر تبدیلیاں کی گئی ہیں، 1979 ء کے مقابلے 2013 ء کے لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں اختیارات کم نہیں کیے گئے بلکہ اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کیا گیا ہے، کے ایم سی اور ڈی ایم سیز میں ماضی میں کچھ پارکنگ پلاٹس اور مختلف علاقوں میں رات کو ہوٹلنگ کے اجازت نامے دیے تھے تاہم عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد نہ صرف تمام اجازت نامے منسوخ کردیے ہیں بلکہ مختلف مقامات پر کارروائیاں کرتے ہوئے وہاں سے ان تجاوزات کا خاتمہ بھی کردیا ہے،امریکن قونصلیٹ کی عمارت کی تعمیر کے لیے قانونی طور پر تمام تقاضے پورے کیے گئے تھے، جس کے بعد ہی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے وہاں تعمیرات کی اجازت دی تھی البتہ زمین کی لوکیشن کا سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے، کراچی کے 100 فیصد علاقوں میں پانی کی فراہمی پمپنگ اسٹیشنوں کے ذریعے نہیں ہوتی البتہ جہاں جہاں ضرورت ہوئی وہاں مزید پمپنگ اسٹیشن بنائیں جائیں گے، ایل ڈی اے اسکیم 42 میں 1984ء کے بعد مختلف قرعہ اندازیوں کے ذریعے 46129 پلاٹس عوام کو فراہم کیے گئے ہیں۔وزیر بلدیات سعید غنی نے کہا کہ میں نے کوئی اضافی نفری نہ مانگی تھی اور نہ ہی نفری کی کمی پر کسی سے کوئی شکایت کی ہے۔اجلاس کے دوران دیہی سندھ کے بعض علاقوں میں پانی کی چوری کے معاملے پر پیپلز پارٹی کے رکن میر نادر مگسی بھڑک اٹھے اور انہوں نے اپنی ہی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے حلقوں میں پانی کی چوری پر پیپلزپارٹی کی بدنامی ہورہی ہے ، وزیر اعلیٰ کوچاہیے کہ وہ پانی کی قلت کی سنگینی کانوٹس لیں،لوگ پانی کی قلت کے سبب سڑکوں پر ہیں۔انہوں نے کہا کہ جہاں سے بینظیربھٹو منتخب ہوتی تھیں وہاں پانی کابحران ہے ،میں آپ کی حکومت اور پیپلزپارٹی کا ہوں ،دریاوں میںپانی موجود ہے لیکن پانی کی تقسیم کا بڑا مسئلہ ہے، پیپلزپارٹی کے وڈیروں کے واٹر کورسز ہیں،ہمارے اپنے لوگ پانی کی تقسیم میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں،اگر پانی کی تقسیم اور قلت کامسئلہ حل نہ ہوا تو ہم حلقے میں نہیں جاسکیں گے۔نادر مگسی کی بے باک تقریر پر اپوزیشن ارکان نے ڈیسک بجاکر تعریف کی جب کہ نادر مگسی کی تقریر پر پیپلزپارٹی ارکان سخت حیران و پریشان نظر آئے۔قبل ازیںاسمبلی کی کارروائی کے دوران اپوزیشن لیڈر فردوس شمیم نقوی نے ایوان میں کورم کی نشاندہی کی اور ان کا کہنا تھا کہ اجلاس میں ارکان کی مطلوبہ تعداد موجود نہیں ہے۔جس پر ڈپٹی اسپیکر ریحانہ لغاری نے ایوان کی کارروائی 5 منٹ کے لیے ملتوی کرنا کا اعلان کیا اور کچھ دیر بعد ایوان کی کارروائی دوبارہ شروع ہوئی۔
سندھ اسمبلی