بادشاہ چلا گیا بادشاہت قائم ہے

433

 

 

بہت سی باتیں پتھر پر لکیر کی مانند انمٹ اور ایسی اٹل ہوا کرتی ہیں کہ جن کو جھٹلایا ہی نہیں جاسکتا۔ ان بہت سی باتوں میں ایک چھوٹی سی کہانی میں قارئین کی نذر کرنا چاہتا ہوں۔ کہانی بیان کرنے والا رقم طراز ہے کہ انگریز افسران، جنہوں نے ہندوستان میں ملازمت کی، جب واپس انگلینڈ جاتے تو انہیں وہاں کسی بھی پبلک پوسٹ کی ذمے داری نہیں دی جاتی تھی۔ دلیل یہ تھی کہ تم نے ایک غلام قوم پر حکومت کی ہے جس سے تمہارے اطوار اور رویے میں فرق آیا ہوگا۔ یہاں اگر اس طرح کی کوئی ذمے داری تمہیں دی جائے تو تم آزاد انگریز قوم کو بھی اسی طرح ڈیل کرو گے۔ اس مختصر تعارف کے بعد کہانی بیان کرنے والا لکھتا ہے کہ ایک انگریز خاتون۔ جس کا شوہر برطانوی دور میں برصغیر میں سول سروس کا آفیسر تھا۔ خاتون نے زندگی کے کئی سال ہندوستان کے مختلف علاقوں میں گزارے۔ واپسی پر اپنی یاداشتوں پر مبنی بہت ہی خوبصورت کتاب لکھی۔ خاتون نے لکھا ہے کہ میرا شوہر جب ایک ضلع کا ڈپٹی کمشنر تھا اْس وقت میرا بیٹا تقریباً چار سال کا اور بیٹی ایک سال کی تھی۔ ڈپٹی کمشنر کو ملنے والی کئی ایکڑ پر محیط رہائش گاہ میں ہم رہتے تھے۔ ڈی سی صاحب کے گھر اور خاندان کی خدمت گزاری پر کئی سو افراد مامور تھے۔ روز پارٹیاں ہوتیں، شکار کے پروگرام بنتے ضلع کے بڑے بڑے زمین دار ہمیں اپنے ہاں مدعو کرنا باعث فخر سمجھتے، اور جس کے ہاں ہم چلے جاتے وہ اسے اپنی عزت افزائی سمجھتا۔ ہمارے ٹھاٹ ایسے تھے کہ برطانیہ میں ملکہ اور شاہی خاندان کو بھی مشکل ہی سے میسر تھے۔ ٹرین کے سفر کے دوران نوابی ٹھاٹ سے آراستہ ایک عالیشان ڈبہ ڈپٹی کمشنر صاحب کی فیملی کے لیے مخصوص ہوتا تھا۔ جب ہم ٹرین میں سوار ہوتے تو سفید لباس میں ملبوس ڈرائیور ہمارے سامنے آتا اور دونوں ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو جاتا۔ اور سفر کے آغاز کی اجازت طلب کرتا۔ اجازت ملنے پر ہی ٹرین چلنا شروع ہوتی۔ ایک بار ایسا ہوا کہ ہم سفر کے لیے ٹرین میں بیٹھے تو روایت کے مطابق ڈرائیور نے حاضر ہو کر اجازت طلب کی۔ اس سے پہلے کہ میں بولتی میرا بیٹا بول اٹھا جس کا موڈ کسی وجہ سے خراب تھا۔ اْس نے ڈرائیور سے کہا کہ ٹرین نہیں چلانی۔ ڈرائیور نے حکم بجا لاتے ہوئے کہا کہ جو حکم چھوٹے صاحب۔ کچھ دیر بعد صورتحال یہ تھی کہ اسٹیشن ماسٹر سمیت پورا عملہ جمع ہو کر میرے چار سالہ بیٹے سے درخواست کر رہا تھا، لیکن بیٹا ٹرین چلانے کی اجازت دینے کو تیار نہیں ہوا۔ بالآخر بڑی مشکل سے میں نے کئی چاکلیٹس دینے کے وعدے پر بیٹے سے ٹرین چلوانے کی اجازت دلائی تو سفر کا آغاز ہوا۔
چند ماہ بعد میں دوستوں اور رشتہ داروں سے ملنے واپس برطانیہ آئی۔ ہم بذریعہ بحری جہاز لندن پہنچے، ہماری منزل ویلز کی ایک کاونٹی تھی جس کے لیے ہمیں ٹرین کا سفر کرنا تھا۔ بیٹی اور بیٹے کو اسٹیشن کے ایک بینچ پر بٹھا کر میں ٹکٹ لینے چلی گئی، قطار طویل ہونے کی وجہ سے خاصی دیر ہو گئی، جس پر بیٹے کا موڈ بہت خراب ہو گیا۔ جب ہم ٹرین میں بیٹھے تو عالیشان کمپائونڈ کے بجائے فرسٹ کلاس کی سیٹیں دیکھ کر بیٹا ایک بار پھر ناراضی کا اظہار کرنے لگا۔ وقت پر ٹرین نے وسل دے کر سفر شروع کیا تو بیٹے نے باقاعدہ چیخنا شروع کر دیا۔ وہ زور زور سے کہہ رہا تھا، یہ کیسا الو کا پٹھا ڈرائیور ہے۔ ہم سے اجازت لیے بغیر ہی اس نے ٹرین چلانا شروع کر دی ہے۔ میں پاپا سے کہہ کر اسے جوتے لگواوں گا‘‘۔ میرے لیے اْسے سمجھانا مشکل ہو گیا کہ ’’یہ اْس کے باپ کا ضلع نہیں ایک آزاد ملک ہے۔ یہاں ڈپٹی کمشنر جیسے تیسرے درجہ کے سرکاری ملازم تو کیا وزیر اعظم اور بادشاہ کو بھی یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ اپنی انا کی تسکین کے لیے عوام کو خوار کر سکے۔ (ماخوذ و منقول)۔
کیا پاکستان واقعی ایک آزاد ملک ہے اور کیا سارے پاکستانیوں کی سوچ آزاد ملک میں رہنے والوں کی سوچ کی طرح ہے؟، یہ ہے وہ نکتہ جس پر پاکستان کے ایک ایک فرد کو غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ انگریز نے پورے برصغیر پر 200 سال بادشاہت کی۔ بادشاہت کا دوسرا مطلب بزورِ شمشیر حکومت کرنا ہوتا ہے۔ بادشاہت کی تاریخ میں یہی کچھ درج ہے کہ ایک مضبوط گروہ اٹھتا ہے، خواہ وہ اپنوں میں سے ہو یا پرایوں میں سے، وہ پہلے سے قابض گروہ یا تخت و تاج پر متمکن گروہ پر حملہ آور ہوتا ہے اور اس کو پچھاڑ کر خود تخت و تاج کا مالک بن جاتا ہے۔ اس قتل و غارت گری کا ایک نتیجہ تو یوں نکلتا ہے کہ پہلا والا تاج راہ فرار اختیار کرکے اپنے آپ کو دوبارہ منظم کرتا ہے اور جس گروہ نے اس سے تخت و تاج چھینا ہوتا ہے وہ اس سے اپنا تخت و تاج واپس حاصل کر لیتا ہے اور دوسرا نتیجہ کچھ یوں نکلتا ہے کہ قابض ہوجانے والا گروہ پہلے گروہ کو صفحہ ہستی ہی سے مٹا کر رکھ دیتا ہے۔ یہی بادشاہت کی تاریخ ہے اور آج سے ایک صدی سے بھی کم عرصہ میں سلاطین کی تاریخ یہی کہانی سناتی رہی ہے۔
انگریز کوئی برصغیر کے مکینوں سے پوچھ کر ہندوستان پر قابض نہیں ہوا تھا بلکہ یہاں کے کمزور حکمرانوں نے اسے یہاں قدم جمانے کر بادشاہت نافذ کرنے کا موقع فراہم کیا تھا۔ انگریز کے آنے سے 200 سال قبل بھی اس خطے پر غیروں ہی کی حکومت قائم رہی تھی خواہ وہ غیر مسلمان ہی کیوں نہ رہے ہوں۔ صدیوں سے غلام رہنے والی اس قوم کی غلامانہ ذہنیت آج بھی وہی ہے کہ ہر وہ فرد جو جاہ و جلال رکھتا ہو، خان ہو، ملک ہو، چودھری ہو، سردار ہو، یا وڈیرہ، سب اس کے آگے ہاتھ جوڑ کر نظر آتے ہیں۔ انگریز کے زمانے کے کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز تو پھر بھی اس دور خرابات میں واقعی بڑی خوفناک چیز رہے ہوںگے اس لیے کہ ان کے پاس تلوار ہی نہیں، بڑی بڑی بندوقیں بھی تھیں، یہاں تو کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کا کلرک اور چپڑاسی بھی وزیراعظم ہوتا ہے۔ پاکستان کے اے جی آفس کے ایک منشی کے سامنے بڑے بڑے جغادری آفیسر اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد ہاتھ جوڑے اور سر جھکائے کھڑے نظر آتے ہیں اور بنا ’’لین دین‘‘ طے کیے فائل کلرک کی میز سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔ یہ سب باتیں اس بات کی دلیل ہیں کہ ہم اپنے اندر سے وہ غلامانہ ذہنیت کو نکال باہر نہ کر سکے جو انگریز دور حکومت کے بعد ہمارے اندر سے نکل جانی چاہیے تھی۔
کہتے ہیں انگریز پاکستان سے چلا گیا لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ انگریز نہیں بادشاہ پاکستان سے بے شک چلا گیا لیکن انگریز، اس کی زبان اور اس کا نظام پہلے سے بھی کہیں زیادہ مضبوطی کے ساتھ پاکستان میں موجود ہے اور پاکستان کے عوام اس سے بھی کہیں زیادہ غلامانہ ذہنیت کا شکار ہیں جس طرح انگریز دور میں ہوا کرتے تھے۔ ہم اب بھی طاقت ہی کو اپنے مسائل کا حل مانتے ہیں خواہ وہ طاقت بندوق کی ہو، مال و زر کی ہو، زمینوں اور جائداد کی ہو، جاگیروں کی ہو یا سرکاری عہدوں کی۔
باقی صفحہ7نمبر1
حبیب الرحمن
آج سے ستر سال قبل شاید کمشنر اور ڈپٹی کمشنر ہی ہمارے آقا ہوا کرتے ہوں لیکن اب تو ایک پولیس کانسٹیبل کے سامنے بھی لوگوں کو ہاتھ جوڑتے، کان پکڑتے، مرغا بنتے، سجدہ ریز ہوتے اور ناک سے لکیریں کھینچتے دیکھا گیا ہے۔پہلے تو صرف ایوب خان کی آمد پر ہر دس قدم کے فاصلے پر ایک پولیس والا کھڑا نظر آتا تھا، سڑکیں بند کردی جاتی تھیں، شہر بھر میں ہو کا عالم ہوجایا کرتا تھا لیکن اب تو یہ عالم ہے کہ ایک ایم پی اے اور ایم این اے کے ساتھ بھی درجنوں کاڑیاں ہوتی ہیں اور شاہراہیں بند کردی جاتی ہیں کہ کہیں ان کے شاہی جاہ جلال والی پیشانی پر کوئی بل نہ آجائے۔ کیا یہ بات غلط ہے کہ یہاں سے انگریز نہیں بلکہ صرف بادشاہ چلاگیا ہے باقی سب کچھ وہی ہے۔ وہی طاقت کی حکمرانی ہے، وہی اظہار رائے پر پابندی ہے، وہی بولنے والی زبانیں اور لکھنے والے ہاتھ کاٹ ڈالنے کا رواج ہے اور وہی چینلوں پر صرف اور صرف من پسند باتیں سننے کی عادت پڑی ہوئی ہے۔
میں ان خوش قسمتوں میں سے ہوں جنہوں نے پورا پاکستان دیکھا ہو۔ میں نے پاکستان کے ہر طبقے، قوم اور فرقے کو بہت قریب سے دیکھا اور ان کا مطالعہ کیا ہے۔ کسی ایک میں بھی یہ جرات نہیں دیکھی کہ وہ اپنے بڑے کے خلاف اپنی رائے کو استعمال کر سکے اوراس سے بڑھ ہر قوم کے ہر بڑے کو میں نے ’’طاقت‘‘ کا پجاری دیکھا۔ ہزاروں لاکھوں پر حکومت کرنے والا وڈیرہ، نواب، چودھری، ملک اور خان ’’طاقت‘‘ کے سامنے سجدہ ریز نظر آیا جس کا سب سے بڑا ثبوت پاکستان میں راتوں رات پارٹی وفاداریوں کا تبدیل ہوجانا ہے، ایک لیگ کا بیسیوں لیگوں میں بٹ جانا، چند چہروں کا ہر حکومت میں نظر آنا، اور سر پھری پارٹیوں کی سر گرمیوں کے سارے دروازے بند کردینا اس بات کے ثبوت کے لیے کافی ہے یہاں سے صرف بادشاہ گیا ہے، بادشاہت نہیں۔