آئی ایم ایف۔ کشمیر پالیسی اور قومی سلامتی

437

 

 

موجودہ حکومت کے سربراہ جناب عمران خان کے بارے میں حکومت سنبھالنے سے پہلے عوام کا عمومی تاثر یہ تھا کہ وہ صاف، سیدھے اور کھرے آدمی ہیں، قول کے پکے اور وعدے کے سچے ہیں وہ اقتدار میں آنے سے پہلے جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ اس پر ضرور پورا اتریں گے اور کم از کم اُن حکمرانوں کی روش اختیار نہیں کریں گے جن کی مخالفت ہی ان کا انتخابی منشور تھا اور جن حکمرانوں سے نجات کے لیے ہی عوام نے انہیں ووٹ دیا تھا۔ انہوں نے تبدیلی کا نعرہ لگایا تھا اور عوام تبدیلی کا خواب اپنی آنکھوں میں سجائے ہوئے تھے لیکن ہوا یہ کہ عمران خان کے برسراقتدار آتے ہی یہ خواب بُری طرح بکھر کر رہ گیا۔ وہ نہ اپنے کسی قول پر پورا اُترے، نہ اپنے کسی وعدے کو سچ کر دکھایا۔ وہ کہہ مُکرنی کی چلتی پھرتی تصویر بن گئے اب لوگ کسی کو وعدہ خلافی کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو صاف کہتے ہیں کہ عمران خان نہ بنو اپنا وعدہ پورا کرو۔ عمران خان ہماری قومی زندگی میں وعدہ خلافی کی بدترین مثال بن گئے ہیں۔ ان کا سب سے اہم وعدہ یہ تھا کہ وہ خودکشی کرلیں گے لیکن آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے۔ وہ آئی ایم ایف کو عالمی استعماری قوتوں کا ایجنٹ قرار دیتے تھے جس کے ذریعے وہ مقروض ملکوں کی سیاسی آزادی سلب کرتی اور انہیں اپنا باج گزار بناتی ہیں۔ عمران خان آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بدترین نتیجے کا ادراک رکھتے تھے لیکن محض اپنے اقتدار کی ضمانت حاصل کرنے کے لیے وہ آئی ایم ایف کے پاس گئے اور قومی معیشت کو اس ساہوکار ادارے کے پاس رہن رکھ دیا۔ اب یہ ملک ایک ایسے گڑھے میں گر گیا ہے جس سے نکلنا فی الحال مشکل نظر آتا ہے۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے کے اثرات ہمہ گیر ہیں اور یہ قومی زندگی اور ملکی سلامتی کے تمام اہم امور پر اثر انداز ہورہا ہے۔
پاکستان کی 72 سالہ کشمیر پالیسی درحقیقت مقبوضہ کشمیر کی آزادی اور ملکی سلامتی کے لیے ایک ڈھال کی حیثیت رکھتی ہے۔ پاکستان کا ابتدا ہی سے یہ موقف رہا ہے کہ جو ملک سلامتی کونسل کی قرار دادوں کو تسلیم کرنے کے باوجود ان پر عملدرآمد کرنے کا روادار نہ ہو اسے سلامتی کونسل کی رکنیت کا اعزاز نہیں دیا جاسکتا۔ پاکستان اگرچہ سلامتی کونسل سے کشمیر پر قرارادوں کو عملی جامہ نہ پہنوا سکا لیکن وہ ہمیشہ اس بات پر اصرار کرتا رہا ہے کہ عالمی امن کے ضامن اس ادارے کو کشمیر پر اپنی ذمے داری پوری کرنی چاہیے۔ وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں ہمیشہ مسئلہ کشمیر کا ذکر پوری قوت سے کرتا رہا ہے اور پاکستانی مندوبین نے ہمیشہ بھارت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے لیکن آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان کی کشمیر پالیسی میں بھی تبدیلی آرہی ہے اور اس کا نام ان ملکوں میں شامل کیا گیا ہے جو سلامتی کونسل کی غیر مستقل رکنیت کے لیے بھارت کے حامی ہیں۔ جب یہ خبر آئی تھی تو توقع کی جارہی تھی کہ دفتر خارجہ اس کی تردید کرے گا اور مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے دیرینہ موقف کو دہرائے گا لیکن دفتر خارجہ نے چپ سادھے رکھی اور دفتر خارجہ کے ترجمان جو ہر ہفتے صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہیں اس معاملے پر خاموش رہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ معاملہ دفتر خارجہ یا وزیر خارجہ کے اختیار سے باہر ہے اور اس کا فیصلہ بہت اُوپر کیا گیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان جہاں اور بہت سے معاملات میں بے بس نظر آتے ہیں وہیں اس معاملے میں بھی ان کی بے بسی اور بے اختیاری ظاہر ہورہی ہے۔ انہوں نے اپنے اقتدار پر پاکستان کی کشمیر پالیسی کو قربان کردیا ہے۔ سید علی گیلانی کا یہ گلہ بے سبب نہیں کہ کشمیر کی آزادی کے لیے جان و مال کی قربانی تو کشمیری عوام دے رہے ہیں، پاکستان کم از کم اپنے اصولی موقف پر تو قائم رہے۔ پاکستان کی پسپائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسے اب اپنی کشمیر پالیسی پر بھی اختیار نہیں رہا۔ عمران خان نے بھارتی انتخابات سے قبل توقع ظاہر کی تھی کہ اگر مودی انتخابات میں کامیاب ہوگئے تو ان سے مسئلہ کشمیر پر بامقصد بات چیت ہوسکے گی لیکن نریندر مودی نے کامیابی کے بعد مسئلہ کشمیر پر بامقصد بات چیت تو الگ رہی، وزیراعظم عمران خان کو منہ لگانا بھی گوارا نہ کیا۔ انہوں نے مودی کے وزیراعظم بنتے ہی تہنیت کا پیغام بھیجا اور دوطرفہ مذاکرات کی خواہش ظاہر کی۔ بھارتی وزیراعظم کے آفس سے اس کا سفارتی زبان میں جواب دیا گیا۔ ہمارے ہاں اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ بھارت مذاکرات پر آمادہ ہوگیا ہے، جب میڈیا میں اس کا چرچا ہوا تو بھارت نے فوراً اس کی تردید کردی۔ دیکھا جائے تو مودی حکومت نے پاکستان سے مزاحمت کا اپنا سابقہ رویہ برقرار رکھا ہے بلکہ اس میں مزید شدت پیدا کی ہے لیکن پاکستان اس کے آگے جھکتا چلا جارہا ہے۔ سلامتی کونسل کی رکنیت کے معاملے میں بھارت کی حمایت اس کا بین ثبوت ہے۔ ظاہر ہے کہ کوئی قوت ہے جو پاکستان کو بھارت کے آگے جھکنے پر مجبور کررہی ہے۔ ہمارے نزدیک یہ قوت وہی ہے جو پاکستان کو چند ارب ڈالر دے کر اس سے اپنی باتیں منوارہی ہے۔
بھارت پاکستان کے خلاف شدید جارحانہ عزائم رکھتا ہے۔ وہ اپنے عسکری بجٹ میں مسلسل اضافہ کررہا ہے لیکن یہ بات کوئی راز نہیں کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کے دفاعی بجٹ کو منجمد کرنے پر مجبور کیا ہے۔ وہ پاکستان کے دفاعی منصوبوں کی بھی کھوج کررہا ہے اور اس کا آخری ہدف پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہے۔ ہم بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں کہ عالمی طاقتیں پاکستان کے خلاف جو ’’گریٹ گیم‘‘ کھیل رہی ہیں اس میں آئی ایم ایف کا کتنا اہم کردار ہے۔