پاکستان اور جماعت اسلامی (۱۹۵۱ء تا ۱۹۵۵ء) ( باب نہم)

379

 

 

۱۷ ؍فروری ۱۹۵۳ء کو مولانا مودودیؒ کے مطالبے پر مرکزی مجلس عمل کا ایک اجلاس لاہور میں ہوا‘ جس میں جماعت اسلامی کی طرف سے ملک نصراللہ خاں عزیز‘ اور میاں طفیل محمد شریک ہوئے۔ لیکن اجلاس میں جاتے ہی معلوم ہوا کہ یہ مرکزی مجلس عمل کے اجلاس کے بجائے جماعتِ احرار اور جمعیت علمائے اسلام کے اُن لیڈروں کا اجلاس تھا‘ جو ڈائریکٹ ایکشن کی تیاریاں کررہے تھے۔ جماعت اسلامی کے وفد نے مولانا مودودی کا پیغام ان کے حوالے کیا اور انہیں مطلع کیا کہ وہ کسی ڈائریکٹ ایکشن کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔ بعد میں میاں طفیل محمد نے جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے اخبار ’تسنیم‘ میں یہ اعلان شائع کروایا کہ پنجاب کونسل آف ایکشن‘ ڈائریکٹ ایکشن کے لیے ایک حلف نامے پر دستخطوں کی ایک مہم چلا چکی ہے اور چوںکہ یہ مہم مرکزی مجلس عمل کی طرف سے جاری نہیں ہوئی‘ اس لیے جماعت کے ارکان ان پر دستخط نہ کریں۔
۲۲؍ فروری ۱۹۵۳ء کو مولانا مودودیؒ کو مرکزی مجلس عمل کی طرف سے اس اجلاس میں شرکت کا دعوت نامہ ملا جو ۲۶؍ فروری ۱۹۵۳ء کو کراچی میں منعقد ہونا تھا۔ مولانا مودودیؒ نے شیخ سلطان احمد امیر جماعت اسلامی سندھ کو اپنا نمائندہ مقرر کیا اور تحریری ہدایات دیں کہ وہ ڈائریکٹ ایکشن کے سلسلے میں تمام بے ضابطہ کارروائیوں پر اعتراض کریں اور اس پروگرام کو قطعی طور پر منسوخ کرنے کا مطالبہ کریں۔ اگر وہ یہ مشورہ قبول نہ کریں تو اسی وقت مرکزی مجلس عمل سے جماعت اسلامی کی لاتعلقی کا اعلان کردیں۔ ۲۶؍ فروری کو پروگرام کے مطابق مرکزی مجلس عمل کا اجلاس کراچی میں ہوا۔ شیخ سلطان احمد جماعت اسلامی کے نمائندے کی حیثیت سے اجلاس میں شریک ہوئے۔ جماعت کے موقف کے برخلاف‘ مرکزی مجلس عمل توڑ کر ایک ڈائریکٹ ایکشن کمیٹی بنائی گئی‘ جس نے ۲۷؍ فروری ۱۹۵۳ء سے ڈائریکٹ ایکشن شروع کرنے کا اعلان کردیا۔ جماعت اسلامی کا اس کمیٹی سے کوئی تعلق نہ تھا۔ ۲۶ اور ۲۷ ؍فروری کی شب اس تحریک کے متعدد رہنما گرفتار کرلیے گئے۔ مولانا مودودیؒ اور جماعت اسلامی اس راست اقدام کے حق میں نہ تھے‘ کیوںکہ اس سے حکومت سے ٹکراؤ پیدا ہوتا اور اس کے نتیجے میں علماء کی وہ تمام سفارشات رائیگاں چلی جاتیں‘ جو انہوں نے آئین کو اسلامی بنانے کے سلسلے میں اب تک کی تھیں۔
گرفتاریوں کے نتیجے میں پورے ملک کے طول و عرض میں ہنگامے پھوٹ پڑے اور پنجاب اس سے خاص طور پر متاثر ہوا۔ امیر جماعت اسلامی نے مرکزی مجلس عمل کی طرف سے سر کردہ ڈائریکٹ ایکشن اور گرفتاریوں اور ہنگامی صورت حال پر غور کرنے کے لیے مرکزی مجلس شوریٰ کا ایک غیر معمولی اجلاس مورخہ ۴؍ مارچ ۱۹۵۳ء کو لاہور میں طلب کیا۔ اس دو روزہ اجلاس میں مرکزی مجلس شوریٰ نے مسئلہ قادیانیت کے بارے میں حکومت کے طرز عمل اور مجلس عمل کی پالیسی کا تفصیلی جائزہ لے کر ا پنا موقف اور پروگرام عوام کے سامنے رکھ دیا ور اس فیصلے کا اعلان کیا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے مطالبے کی مکمل حمایت کی ہے لیکن اس مطالبے کو منوانے کے لیے کسی قسم کے غیر آئینی اور غیر اخلاقی طریقہ کو اختیار نہیں کرے گی۔
سنگین حالات اور مارشل لا کا نفاذ
علماء نے ۱۹۴۹ء میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ پیش کیا تھا۔ اگست ۱۹۵۲ء کے ’’ترجمان القرآن‘‘ میں مولانا کا ایک اہم مضمون قادیانیت کے بارے میں شائع ہوا۔ ۴‘ ۵؍ مارچ ۱۹۵۳ء کی درمیانی شب مولانا مودودیؒ نے مفتی محمد حسنؒ اور مولانا سید داؤد غزنویؒ سے مل کر وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو تار دیا اور حالات کی سنگینی سے آگاہ کرتے ہوئے ملاقات کا وقت دینے کو کہا لیکن وزیراعظم کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا۔ ممتاز صحافی شورش کاشمیری بتاتے ہیں کہ اسکندر مرزا اس وقت ڈیفنس سیکرٹری تھے اور جنرل اعظم خاں لاہور کے جنرل آفیسر کمانڈنگ (جی او سی) تھے۔ انہوں نے خود لکھا کہ: ’’اسکندر مرزا گورنمنٹ ہاؤس لاہور میں ایک فوجی افسر پر برس رہے تھے کہ ’’مجھے یہ نہ سنائیے کہ امن ہوگیا۔ مجھے یہ بتائیے کہ اس وقت تک کتنی لاشیں ڈھیر ہوئی ہیں؟ جتنی ڈاڑھیاں نظر آئیں انہیں گولیوں سے بھون دو‘‘۔ ان ہنگاموں میں کئی جگہ قادیانی جیپ میں سوار ہوکر فائرنگ کرتے رہے‘ لیکن انہیں روکنے ٹوکنے والا کوئی نہ تھا‘ بلکہ ان کا تحفظ کیا گیا۔ بلکہ بعض جگہ قادیانی پولیس افسروں نے اپنے علاقوں میں مسلمان نوجوانوں کو بے دریغ شہید کیا۔ مولانا عبدالستارخاںؒ نیازی نے مسجد وزیرخاں‘ اندرون لاہور میں کیمپ قائم کرکے حکومت کو ناک چنے چبوادیے۔ لیکن بالاخر گرفتار ہوئے۔
(جاری ہے)