اب ائرپورٹس بھی قطر کے حوالے

463

عمران خان نے پاکستان کے اہم ائرپورٹوں کو قطر کے حوالے کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ اطلاعات ہیں کہ اس پر جلد ہی وفاقی کابینہ کی منظوری کی مہر لگادی جائے گی جس کے بعد ملک کے شمالی حصہ کے اہم ائرپورٹس جن میں لاہور، اسلام آباد اور پشاور کے ہوائی اڈے شامل ہیں ، قطر کے حوالے کردیے جائیں گے ۔ دلیل یہ دی جارہی ہے کہ قطر کی حکومت ائرپورٹوں کی تزئین و آرائش کرے گی اور سہولتوں میں اضافہ کرے گی جس سے ملک میں سیاحت میں اضافہ ہوگا ۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ ملک کے اہم ترین اثاثہ جات غیر ملکیوں کے حوالے کیے جارہے ہیں ۔ پہلی بات تو یہی ہے کہ لاہور اور اسلام آباد ائرپورٹوں کی تعمیر ہی نئی ہوئی ہے اب اس کی مزید کیا نئی تعمیر کی جائے گی ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ سیاحوں کو ملک میں آنے کے لیے آمادہ کرنے میں ائرپورٹوں کی تعمیر کہیں سے بھی اہم کردار ادا نہیں کرتی ۔ اس کے لیے دیگر لوازمات ضروری ہیں جن میں امن و امان کی صورتحال اہم ترین کردار ادا کرتی ہے ۔ اس کے بعد وہ علاقے جہاں پر سیاحوں کو لے جانا مقصود ہے ، وہاں پر انفرااسٹرکچر کی بہتری اہم ترین ہے ۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اسلام آباد جیسا علاقہ بھی اب رہزنوں، لٹیروں کی زد میں آگیا ہے ۔ سب سے زیادہ لوگوں کو خوف پولیس اور سرکاری اہلکاروںہی سے آتا ہے ۔ جو علاقے سیاحوں کے لیے پرکشش ہیں ، وہاں پر سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ صفائی ستھرائی کی طرف کوئی توجہ نہیں ہے ۔ ایسے میں کوئی سیاح کیوں پاکستان آئے گا ۔ اندرون ملک سیاحت اگر کوئی کرنا چاہے تو سب سے پہلے سفری سہولیات ہی موجود نہیں ہیں ۔ کراچی تا لاہور یا کراچی تا اسلام آباددو طرفہ فضائی کرایہ 60 ہزار روپے تک وصول کیا جارہا ہے مگر حکومت یا اس کے ریگولیٹر سول ایوی ایشن اتھارٹی کی اس طرف کوئی توجہ ہی نہیں ۔ پے درپے ریلوے حادثات کے باعث لوگ ٹرین کے سفر سے خوفزدہ ہوگئے ہیں ۔ اس پر بھی ٹرینوں میں کوئی سہولت موجود نہیں ہے ۔ بھاری کرایہ وصول کرنے کے باوجود روز ٹرینیں کئی کئی گھنٹے تاخیر کا شکار ہیں یا پھر ان کے انجن بیچ راستے میں خرابی کا شکار ہوجاتے ہیں اور وزیر ریلوے شیخ رشید اپنے ضمیر کے جاگنے کے منتظر ہیں۔ اب بس کا سفر ہی بچتا ہے اورکوئی بھی کئی دن بس کا تکلیف دہ سفر کرکے سیاحت نہیں کرسکتا ۔ کسی طرح یہ سیاح کراچی یا ملک کے دیگر علاقوں سے مری ، ناران ، کاغان یا دیگر پرکشش علاقوں میں پہنچ جائیں تو ان کو لوٹنے کے لیے ہر کوئی سرگرم عمل ہوتا ہے مگر سیاحوں کے تحفظ کے لیے کوئی کارروائی نہیں ۔ اکثر واقعات رپورٹ ہوتے ہیں کہ خواتین اور بچوں سمیت سیاحوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔ تو عمران خان بتائیں کہ ایسے میں سیاحت کس طرح فروغ پاسکتی ہے ۔ یہ ضرور ہوگا کہ نو تعمیر شدہ ائرپورٹوں کی دوبارہ تعمیر کے لیے اربوں ڈالر کے قرض کی دستاویزات پر دستخط کردیے جائیں گے ۔ ان قرضوں کی وصولی کے لیے مسافروں پر نئے ٹیکس عاید کردیے جائیں گے ۔ جب نیا عاید کردہ ٹیکس مطلوبہ ہدف کے مطابق وصول نہیں ہوگا تو پھر نادہندگی کے جرم میں گروی رکھی گئی جائیداد قرق کی جائے گی ۔ اگر عدالت میں گئے تو ریکوڈک کی طرح کا نتیجہ سامنے آئے گا ۔ پاکستان کو ایک طے شدہ منصوبے کے تحت غیر ملکی ایجنسیوں اور اداروں کے پاس گروی رکھاجارہا ہے جس کے نتائج 2022 سے سامنے آئیں گے ۔ خاکم بہ دہن ، نادہندگی کی صورت میں اس کے نتائج وہی ہوں گے جو ایسٹ انڈیاکمپنی کے برصغیر پر قبضے کی صورت میں سامنے آئے تھے ۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستان میں جو بھی برسراقتدار آتا ہے وہ ملک دشمن اقدامات کرگزرتا ہے ۔ اس کی ایک مثال ریکوڈک بھی ہے اور بجلی پیدا کرنے والے نجی بجلی گھر بھی ہیں ۔ ان نجی بجلی گھروں کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کے مطابق انہیں ادائیگی ڈالروں میں کی جائے گی اور حکومت بجلی لے یا نہ لے لیکن ان بجلی گھروں کو طے کردہ رقم کی ڈالر میں ادائیگی ضرور کی جائے گی۔ اب اگر یہ معاہدے ختم کردیے جائیں تویہ ادارے فوری طور پر عدالت سے ریکوڈک قسم کا فیصلہ لے آئیں گے ۔ ابھی تو سی پیک ہی پاکستان کے گلے کا پھندا بننے جارہا ہے ۔سی پیک کے نام پر بھاری سود پر جو قرض لیے گئے ہیں ، اس کے عوض اندیشے ہیں کہ نادہندگی کے بعد گوادر اور گلگت بلتستان پر چینی قبضہ تسلیم کرلیا جائے گا ۔ سمجھ میںنہ آنے والی بات یہ ہے کہ ائرپورٹوں پر مزید سرمایہ کاری سے حاصل کیا ہوگا ۔ اب تک ایسے ہی فیصلے کیے جارہے ہیں جن سے ملک میں معاشی و سیاسی افراتفری پھیلی ہوئی ہے ۔ بینک دولت پاکستان کا سربراہ آئی ایم ایف کے حاضر سروس افسر کو لگانے سے کا ملک کو جو نقصان ہوا ہے ، اس کے مضر اثرات پاکستان آئندہ کئی دہائیوں تک بھگتے گا ۔ صرف ڈالر کے مقابلے میں روپے کی شرح تبادلہ کو گرانے سے ہی ملک کی معاشی بنیادیں ہل کر رہ گئی ہیں مگر اس کے ازالے کے لیے کسی طرف کوئی سنجیدہ پیش رفت نہیں ہے ۔ ایسا معلو م ہوتا ہے کہ حکومت میں سیاستداں ہوں یا دیگر عمال ، ان کا صرف اور صرف ایک ہی کام ہے کہ وہ غیر ملکی آقاؤں کے حکم کے مطابق اپنی ہی قوم پر غلامی کی شرائط مزید سخت کرتے جائیں ۔ اس پر مزید افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ اس طرف کسی کی کوئی توجہ ہی نہیں ہے ۔ نہ ہی ارکان اسمبلی کی اور نہ ہی تکنیکی طور پر ماہر محب وطن افراد کی ۔ ہر طرف لوگوں کو غیر متعلقہ مسائل میں الجھا دیا گیا ہے جس کی آڑ میں ملک کو غلامی کی طرف دھکیلا جارہا ہے ۔