بالآخر انگلینڈ چیمپئن بن گیا

388

کرکٹ کی دنیا میں اتوار کے روز نئی تاریخ رقم ہو گئی۔ کرکٹ کے گھر انگلینڈ نے پہلی مرتبہ ورلڈکپ جیت لیا۔ یہ کہا جارہا تھا کہ اب میزبان ملک کو چیمپئن بنانے کی روایت چل پڑی ہے اس لیے انگلینڈ ہی چیمپئن بنے گا ۔کھیل کے اعتبار سے ورلڈکپ کا فائنل زبردست تھا۔ شائقین کو بہترین کھیل دیکھنے کا موقع ملا۔ لیکن نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کی ٹیموں کے مقابلے کی صلاحیت اور جان توڑ محنت نے یہ ثابت کیا کہ کرکٹ میں کامیابی کے لیے کس طرح محنت کرنی پڑتی ہے۔ یہ سوالات اٹھائے جارہے ہیں کہ انگلینڈ کو غیر ضروری طور پر انتظامی فیور ملی یا یہ اصول کیوں اختیار کیا گیا کہ زیادہ بائونڈریز کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے گا۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو فائنل کھیلنے والی دونوں ٹیمیں فائنل سے قبل معیارات کے سانچوں پر جس مقام پر تھیں اس سے قطع نظر دونوں ٹیموں نے فائنل کی سطح کا کھیل پیش کیا۔ پاکستان میں تجربے کرنے والے پاکستان کرکٹ کے ذمے داروں کے لیے سوچنے کا مقام ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی کرکٹ ٹیم کپتان اورسینیر کھلاڑیوں کے لیے بھی یہ لمحہ فکر ہے کہ جو انداز نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے کھلاڑیوں کا تھا وہ پاکستانی کھلاڑیوں کا کیوں نہیں تھا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ فائنل تھا لیکن کرکٹ میںیا کسی ایسے مقابلے میں تو ہر میچ کو فائنل کی طرح کھیلنے کی ضرورت ہے۔ بات اب اگلے چار سال پر جا پڑی ہے لیکن فی الحال پاکستانی ٹیم میں ایسے قد آور اور جان لڑانے والے کھلاڑی نظر نہیں آرہے جو میچ کو لے کر چلیں اور آخر تک میدان میں ڈٹے رہیں۔ کرکٹ کے ذمے داروں کو اس جانب توجہ دینی پڑے گی۔ ایسے کھلاڑیوں کی مثال، آصف اقبال، جاوید میانداد، مشتاق محمد، وسیم راجا اور سکندر بخت وغیرہ ہیں جو میچ پلٹ کر رکھ دیتے تھے۔ اصل چیز ملک کے نام کی لاج بھی ہے، پاکستان کرکٹ بورڈ کو مجموعی طور پر جس چیز پر توجہ دینی ہے وہ قومی ساکھ ہے۔ غیر ملکی کوچز کا بھوت سر سے اتارا پھینکنا ہے۔ یہ کوچز ہو بھی سکتے ہیں اور نہیں بھی۔ لیکن لازمی نہیں ہونے چاہییں۔ ٹیم میں مقابلے کا جذبہ روح اور رگوں میں بسا دینا ہوگا پھر کوئی ہارے یا جیتے فرق نہیں پڑتا، کم از کم اتوار کے میچ کو سٹہ، فکس میچ یا بکیوں کا میچ نہیں کہا جا سکتا۔اس موقع پر ہارنے والی ٹیم نیوزی لینڈ کا جذبہ بھی قابل قدر ہے کہ کچھ مشکوک فیصلوں کے باوجود کوئی اعتراض نہیں کیا گیا یہی اسپورٹس مین اسپرٹ ہے۔