سہ فریقی ویلفیئر اداروں کی کارکردگی؟

295

قموس گل خٹک

تمام لبرل اور ترقی پسند نظریات کے حامل لوگ خصوصاً مزدور رہنما ہمیشہ صوبائی خودمختیاری کیلئے سیاسی جدوجہد میں پیش پیش رہے تھے اس وقت ہم سب کی رائے یہ تھی کہ اسلام آباد سفید ہاتھی ہے اور عوامی مسائل کے سلسلے میں اسلام آباد میں قائم اتھارٹی سے رجوع کرنا عام آدمی یا مزدور طبقے کے بس کی بات نہیں ہے اسلئے صوبائی خودمختاری ملنے کے بعد اس سلسلے میں آسانیاں پیدا ہوجائے گی پھر وہ وقت آگیا جب اس ملک کے سیاسی جماعتوں نے اتفاق رائے سے اٹھارویں آئینی ترامیم کے ذریعہ صوبائی خودمختاری کا دیرینہ سیاسی مطالبہ حل کردیا۔ کہا جاتا ہے کہ ہمارے ملک کی یہ روایت بنتی جارہی ہے کہ ہم تمام معاملات کے سلسلے میں گزرے اوقات کو بہتر اور موجودہ حالات کو بدتر کہنے کے عادی ہوگئے ہیں یہ سلسلہ اس حدتک بڑھ گیا ہے کہ آج ہم میرٹ کی بنیاد پر منتخب سویلین تبدیلی حکومت کے مقابلے میں جنرل پرویز مشرف کے آمرانہ دور کو دوسوگناہ زیادہ بہتر کہنے پر مجبور ہیں ۔مگر پھر بھی یہ کہتے ہیں کہ جمہوریت کتنی ہی بری ہو پھر بھی اچھی آمرانہ دور کے مقابلے میں بہتر ہوتی ہے ۔اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عوام کی نظر میں میرٹ کی کوئی حیثیت نہیںسسٹم کی ہوتی ہے میں نے کچھ دن پہلے روزنامہ جسارت میں لکھا تھا کہ ملک میں جمہوریت اورآمریت کافرق صرف وردی کی حدتک رہ گیا ہے جب ہم انگریزیوں کے غلام تھے تو اس وقت کا ٹریڈ یونین ایکٹ آج آزادی کے تمام لیبر قوانین سے زیادہ بہتر اور مزدوروں کے مفاد میں تھا ۔ آزادی کے بعد ملک میں آدھے سے بھی کم ملازم پیشہ لوگوں کو ٹریڈ یونین سازی کا حق رہ گیا ہے اور جن کو ملکی آئین اور مروجہ لیبر قوانین میں یہ حق حاصل ہے وہ بھی عملاً استعمال میں نہیں لاسکتے ابھی حال میں بلوچستان ہائی کورٹ کا ایک فیصلہ سامنے آیا ہے جس کے تحت کئی اداروں کے ملازمین ٹریڈ یونین کے حق سے محروم ہوگئے ہیں۔اس سے پہلے مختلف طریقوں سے سرکاری ملازمین ، ریلوے کے بعض ملازمین ، مالیاتی ، تعلیمی ہسپتالوں کے ملازمین کو ٹریڈ یونین
سازی یا اجتماعی سودا کاری کے حق سے محروم کیا جاچکاہے ۔ جس کے نتیجے میں کہا جاتا ہے کہ آج ملک کے 2 فیصد محنت کشوں کو ٹریڈ یونین سازی کا حق حاصل رہ گیا ہے اور اس میں بھی آدھے سے زیادہ ٹریڈ یونین خود صنعت کاروں نے محکمہ لیبر کی سرپرستی میں بنائی ہیں اور کاغذوں میں ریفرنڈم کرواکر سی بی اے بھی بنوارکھی ہے اورٹریڈ یونین کی بڑی تعداد کارخانے داروں کے رحم وکرم پر اپنا وجود برقرار رکھنے پر مجبور ہے کیونکہ ہر حکمران اس ملک میں صرف سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے اور لیبر عدلیہ سے عام طورپر مزدوروں کو ریلیف نہیں ملتا اعلیٰ عدلیہ تک رسائی اور وکیلوں کی فیس ادا کرنا مزدور طبقے کی بس میں نہیں اور نہ دوسری نسل تک محنت کش اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کا انتظار کرسکتے ہیں اس ملک میں غریب اور مزدوروں کیلئے حالات تبدیل ہونے والے نہیں موجودہ حکومت تو جھوٹے بولنے کو عقلمندی کہتی ہے اور کشکول گلے میں ڈال کر سودی قرضہ لینے کو اپنی کامیابی سے تعبیر کرتی ہے ایسی حکومت سے عوامی فلاح وبہبود کی توقع رکھنا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے جوسیاستدان مزدور دوستی کے بلند بانگ دعوے کرتے تھے یا کرتے ہیں وہ صرف دعووں کی حدتک محدود اس کے آگے کچھ کرنے کوتیار نہیں اور نہ عملی طورپر اپنی حکومت میں مزدوروں کو ان سہ فریقی ویلفیئر اداروں سے بھی ریلیف دینے کوتیار ہیں جن کے فنڈز مزدوروںکی فلاح وبہبود کے لیے صنعتی اداروں سے جمع کیے جاتے ہیں اور اس میں ایک روپیہ بھی حکومتی خزانے سے شامل نہیں کیا جاتا ۔البتہ حکمران اپنے سیاسی حمایتوں اور کرپٹ بیورو کریٹ کے ذریعے اس بہتی گنگا میں ہاتھ ضرور دھوتے ہونگے؟وہ بھی کوئی مخفی نہیں اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد جیسے ہی حکومت سندھ نے وفاقی سسٹم سے خود کو الگ کرکے سندھ ورکرز ویلفیئر بورڈ کا انتظام سنبھالا ہے اس اہم سہ فریقی ویلفیئر ادارے میں مزدوروں کی غیر جانبدار نمائندگی ختم کی گئی اور تمام قانونی و منصفانہ طریقوں کو بلائے طاق رکھ کر اپنے سیاسی حامیوں کو صنعت کاروں اور محنت کشوں کی نمائندگی کے نام پر سہ فریقی ویلفیئر اداروں میں نامزد کرنا شروع کیا تاکہ مزدوروں کی فلاح وبہبود کے نام پر صنعت کاروں سے وصول کردہ فنڈز کو اپنی سیاسی منصوبہ بندی کے تحت خرچ کرسکیں ۔آپ حیران ہونگے کہ سال 2010میں ملازمتوں کے دوران فوت ہونے والے مزدوروں کے لواحقین کو آج تک ڈیتھ گرانٹ نہیں دی گئی جبکہ سکھر ریجن میں جعلی مزدوروں کے نام پر کروڑوں روپیہ کے چیک تقسیم ہونے کا اسکینڈل سامنے آیا ہے۔جس کی تصدیق سرکاری افسران پر مشتمل ایک انکوائری کمیٹی نے کی ہے ۔مگر مزدوروں کے ویلفیئر فنڈ میں کرپشن کے ذمہ دار آج بھی اس ادارے کے سیاہ اور سفید کے مالک بنے بیٹھے ہیں کیونکہ وہ اوپر والوں کو خوش رکھنے کے ماہر ہیں ؟حکومت سندھ کی اس پالیسی اور طرز عمل کے نتیجے میں سوشل سیکورٹی کے بارے میں مزدوروں کی شکایت روزبروز بڑھتی جارہی ہے ۔اکثر مزدوررہنماوں کا خیال ہے کہ سوشل سیکورٹی کو عملاً کاروباری ادارہ بنادیا گیا ہے پہلے تو اس ادارے کی جانب سے صنعتی مزدوروں کی رجسٹریشن 25%سے زیادہ نہیں ہے اسطرح مزدوروں کی بہت بڑی تعداد بمعہ فیملی رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ سے علاج کے حق سے محروم ہے اس کے بعد ہسپتالوں میں میڈیسن کا نہ ہونا یا دونمبر ادویات کی خریداری سے مریض
مزدوروں کا ٹھیک نہ ہونا بنیادی مسئلہ ہے مائینز لیبر ویلفیئر آگنائزیشن کے ویلفیئر بورڈ کو دس سال سے معطل رکھ کر جواب دہی کے نظام کو ختم کرنا اور کانکنوں کو اس ادارے کے بجٹ سے ایک روپیہ کا ریلیف نہ ملنا حیران کن ہے ۔ ورکرز ویلفیئر بورڈ سندھ کی جانب سے سب سے زیادہ صنعتی مزدوروں کو مالی ریلیف ملتا تھا جس کے حصول کیلئے مسلسل ایسے ناقابل عمل شرائط عائد کیے گئے کہ صنعتی مزدوروں کے لئے اس ادارے سے مالی سہولیات حاسل کرنا ممکن نہیں رہا۔ جہیز گرانٹ ، اسکالر شپ، سیونگ مشینوں کی اسکیمیں تو مزدور بھول گئے مگر گھر کے سربراہ اور کمانے والے کی موت کو اس کے وارث کیسے بھول جائیں؟ اٹھارویں ترمیم کے بعد ڈیتھ گرانٹ کی ریلیف بھی عنقا ہوچکی ہے۔ سال 2010 میں وفات پانے والے صنعتی مزدوروں کی بیواؤں اور قانونی وارثوں کو ابھی تک ڈیتھ گرانٹ نہیں ملی ہزاروں ڈیتھ گرانٹ کیس سرخ فیتے کی نذر پینڈنگ پڑے ہیں اور مرنے والوں کی بیوائیں ایڑھی رگڑ رگڑ کر پھر رہی ہیں۔ ابھی حال ہی میں محمد آصف میمن صاحب نے سیکرٹری بورڈ کا دوبارہ چارج سنبھالا ہے ان سے توقع کی جارہی ہے کہ وہ ڈیتھ گرانٹ کے اہم انسانی مسئلے پر خصوصی توجہ دے کر مزدور طبقے کے اس حساس مسئلے کو حل کرسکتے ہیں ۔لیکن پورے پرانے سسٹم کو بحال کرکے ہی اس مسئلے کا حل نکالا جاسکتا ہے جب تک ریجنل سطح پر سیکروٹنی کمیٹیز کے سابقہ کامیاب طریقہ کار کو بحال نہیں کیا جاتا اس وقت تک ڈیتھ گرانٹ اور دیگر ویلفیئر اسکیموں کے مسئلے حل نہیں کیے جاسکتے یاتو مزدوروں کے مسائل حل کرانے ہونگے یا پھر اپنے سیاسی حامیوں کو نواز نے کیلئے ون یونٹ کے طرز پر کراچی کے چند لوگوں کو ہر جگہ مسلط رکھنا ہوگا ۔ امید ہے کہ مجاز اتھارٹی خصوصاً سیکرٹری ورکرز ویلفیئر بورڈ سندھ اس پالیسی کوتبدیل کریں گے ۔جس سے نہ تو ادارے کو اورنہ صنعتی مزدوروں کو کسی قسم کا فائدہ ہے اور نہ حکومت کو سیاسی فائدہ مل رہا ہے ۔۔۔!