بھارت: ہندو دیوتا کا نعرہ  مسلمانوں کی موت کا پیغام بن گیا

431

بی بی سی

بھارت میں ہندو دیوتا رام کا نام گزشتہ کچھ برس سے انتہا پسند گروہوں کی جانب سے قتل غارت گری کے طور پر استعمال ہونا شروع ہوگیا ہے۔ گزشتہ ماہ ہی ملک کی مشرقی ریاست جھاڑکھنڈ کی ایک وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں ایک سہمے ہوئے مسلمان کو بجلی کے کھمبے کے ساتھ باندھ کر مشتعل ہندو انتہا پسند اس پر تشدد کرتے اور ہندو دیوتا کے نعرے لگانے پر مجبور کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ وڈیو میں 24 سالہ تبریز انصاری اپنی جان کے لیے بھیک مانگ رہا ہے جبکہ اس کے چہرے پر آنسو اور خون بہتا نظر آ رہا ہے۔ اس پر حملہ کرنے والے باربار اُسے جے شری رام کا نعرہ لگانے پر مجبور کر رہے ہیں اور تبریز وہی کرتا ہیں جو اُسے کہا جاتا ہے اور پھر موت کے قریب پہنچنے کے بعد اسے پولیس کے حوالے کردیا گیا۔
پولیس نے تبریز کو حوالات میں بند کر دیا اور اس کے اہلخانہ کو ملنے بھی نہیں دیا گیا۔ 4 روز بعد تبریز زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہوگیا، تاہم یہ واقعہ اپنی نوعیت کا واحد واقعہ نہیں ہے۔ بھارت کے مسلمانوں کے لیے جون کا مہینہ بہت خونیں رہا جس میں انہیں کئی مرتبہ ایسے حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ شمال مشرقی ریاست آسام کے برپیٹا ضلع میں چند نوجوان مسلمانوں کے ایک گروہ پر حملہ ہوا اور انہیں مجبور کیا گیا کہ وہ جے شری رام، بھارت ماتا کی جے اور پاکستان کے خلاف نعرے لگائیں۔
بھارت کے تجارتی مرکز ممبئی میں ایک گروہ نے 25 سالہ مسلمان ٹیکسی ڈرائیور کو تشدد کا نشانہ بنایا اور اسے جے شری رام کے نعرے لگانے پر مجبور کیا۔ ٹیکسی ڈرائیور فیصل عثمان خان کہتے ہیں کہ اس پر حملہ تب کیا گیا جب اس کی ٹیکسی خراب ہو گئی اور وہ اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہا تھا، تاہم حملہ آور اُس وقت فرار ہوگئے، جب ایک مسافر نے پولیس کو اطلاع کی۔ ان ہی دنوں میں مشرقی شہر کولکتہ میں مدرسے کے 26 سالہ استاد حافظ محمد شاہ رخ ہلدر کو جے شری رام کے نعرے لگاتے ہوئے انتہا پسند ہندوؤں کے ایک گروہ نے ہراساں کیا۔ حافظ محمد شاہ رخ نے صحافیوں کو بتایا کہ اِن لوگوں نے لباس اور ڈاڑھی کا مذاق اڑایا اور پھر زور دیا کہ وہ بھی ہندو دیوتا کے نعرے لگائے، تاہم جب اُس نے ایسا کرنے سے انکار کیا تو اُسے چلتی ٹرین سے دھکا دے دیا گیا۔ شاہ رخ اس واقع کے نتیجے میں زخمی ہوئے، تاہم ان کی جان بچ گئی۔
افسوس کی بات صرف یہ ہی نہیں کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعوے دار ملک میں ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں اپنے دیوتا کے نعرے لگوانا اور ہراساں کرنا اب ہجوم اور سڑکوں تک محدود نہیں رہا بلکہ فکر کی بات یہ بھی ہے کہ یہ رجحان اب پارلیمان تک پہنچ گیا ہے۔
17 جون کو جب پہلی مرتبہ نئے ایوان زیریں کا اجلاس شروع ہوا تو حلف برداری کے دوران حزب اختلاف اور مسلمان اراکین کو وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومتی جماعت کے اراکین نے ہراساں کیا۔ مسلمان اقلیت پر حملوں کی حزب اختلاف کے سیاستدانوں نے شدید مذمت کی ہے۔ کانگریس پارٹی کی صدارت سے مستعفی ہونے سے پہلے راہول گاندھی نے تبریز انصاری پر ہونے والے حملے کو انسانیت پر سیاہ دھبہ قرار دیا۔ اسی دوران کئی ناقدین اور ایک کارٹونسٹ نے ہندو انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
‘جے شری رام اب حملے کا نعرہ بن گيا ہے، جس کا مقصد ایسے لوگوں کو ڈرانا ہے جو مختلف طریقے سے عبادت کرتے ہیں۔ اس طریقۂ تخاطب کو پہلی مرتبہ بی جے پی نے 1980ء کی دہائی میں ہندؤں کو ایودھیا میں متنازع جگہ پر رام مندر بنانے کے لیے متحرک کرنے کے لیے بطور سیاسی نعرہ استعمال کیا تھا۔ اس وقت بی جے پی کے رہنما ایل کے اڈوانی نے مندر کی حمایت میں رتھ یاترا نکالی اور دسمبر 1992ء میں جے شری رام کا نعرہ لگاتے ہجوموں نے شمالی علاقے کا رخ کیا اور 16ویں صدی کی بابری مسجد کو مسمار کر دیا۔
بی جے پی کا موقف ہے کہ مسجد کو دیوتا رام کے مندر کو توڑ کر بنایا گیا تھا۔ ان کے مطابق اس مقام پر کبھی مندر ہوا کرتا تھا۔ اس مہم نے ہندو ووٹروں کو بی جے پی کے حق میں یکجا کیا۔اس وقت سے بھارتیہ جنتا پارٹی نے انتخابات میں مسلسل رام کے نام کا استعمال کیا اور 2019ء کے انتخابات بھی کچھ مختلف نہیں تھے۔
ناقدین کا کہنا ہے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اقلیتوں کو ہراساں کرنے والے لوگ بی جے پی کی اپریل/مئی کی زبردست کامیابی کو اپنے رویے کی سرکاری سطح پر پزیرائی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ بی جے پی نے ایوان زیریں میں 543 میں سے 300 سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کی، جس کی وجہ سے وزیر اعظم مودی کو دوسری مرتبہ وزارت اعظمیٰ کا منصب ملا۔ مودی کے پہلے دور حکومت میں اقلیتوں کے خلاف تشدد کے واقعات ہوئے تھے۔ کئی ایسے واقعات بھی تھے جن میں نام نہاد گئو رکھشک یعنی گائے کے محافظوں نے گائے کا کوشت کھانے یا اسے لانے لے جانے کی افواہوں کو بنیاد بنا کر مسلمانوں پر حملہ کیا۔ مودی نے ان حملوں کی حمایت تو نہیں کی لیکن ان پر تنقید نہ کرنے پر ان پر تنقید کی گئی جبکہ بی جے پی کے کئی دیگر رہنما قاتلوں کی کھلم کھلا حمایت کرتے رہے۔
مئی میں بی جے پی کی حیران کن فتح کے بعد وزیر اعظم مودی نے اپنے نعرے سب کا ساتھ سب کا وکاس یعنی سب کے لیے ترقی کو بڑھاتے ہوئے اس میں سب کا وشواس یعنی سب کا اعتبار حاصل کرنا بھی شامل کر لیا، جس کی وجہ سے لوگوں میں یہ امید بڑھی ہے کہ نریندر مودی کا یہ دور مختلف ہو گا، تاہم ہندو انتہا پسندی کے تحت اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں پر حملوں کے بڑھتے واقعات اس توقع کی نفی کررہے ہیں۔ تبریز انصاری کی موت کے کچھ دن بعد ہی وزیر اعظم نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ اس واقعے سے انہیں تکلیف ہوئی اور مجرموں کو سخت سزا ملنی چاہیے، تاہم بہت سے لوگوں کو یہ یقین نہیں ہے کہ حملہ آوروں کے خلاف کوئی سنجیدہ کارروائی کی جائے گی، کیونکہ ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ہے اور موجودہ حکومت سمیت حکمراں جماعت کے رہنماؤں سے ایسی کوئی توقع بھی نہیں ہے۔
2014ء سے انتہا پسند ہندوؤں کے حملوں میں درجنوں لوگ ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہو چکے ہیں لیکن سزا گنتی کے مقدموں ہی میں سنائی گئی ہے۔ باقی مقدمات میں اکثر ملزمان شواہد کی کمی اور وزیر اعظم مودی کی پارٹی میں موجود اپنے ساتھیوں کی پشت پناہی کی وجہ سے آزاد ہیں۔ بی جے پی کے رہنما اکثر ان واقعات کو اہمیت نہیں دیتے اور انہیں معمول قرار دیتے ہیں۔ یہ رہنما میڈیا پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ حکومت کو بدنام کرتا ہے۔ بی جے پی کے ایک رکن پارلیمان نے ایک نیوز ویب سائٹ کو بتایا کہ جے شری رام نعرے کی مقبولیت ایک قسم کا ہندوؤں کا ریاست کی مخصوص جانبداری اور اقلیت کی طرف جھکاؤ کے خلاف احتجاج ہے۔