میڈیاپرمغرب کی قدغنیں

292

سمیع اللہ ملک
صحافت کی آزادی کے حوالے سے امریکا قائدانہ کردارکاحامل نہیں رہا۔ دنیابھرمیں جمہوری اقدارکوپروان چڑھانے کے حوالے سے امریکانے پریس کی آزادی سے متعلق قائدانہ کرداراداکرنے میں عشروں تک دلچسپی لی مگراب ایسالگتاہے کہ وہ اس کردارمیں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہا۔ اس حوالے سے یورپ کو آگے بڑھ کراپنی ذمے داری اداکرنی ہے۔ امریکی صدرصحافیوں کوعوام دشمن قراردینے میں تساہل سے کام لیتے ہیں نہ بخل سے اوراس کانتیجہ یہ برآمدہواہے کہ دنیابھرمیں آمرانہ حکومتیں پریس کی آزادی پر قدغن لگانے میں پھر غیر معمولی دلچسپی لینے لگی ہیں۔ ٹرمپ نے مین اسٹریم میڈیاکوزیادہ سے زیادہ پابند کرنے کی اپنی سی کوشش کی ہے، جو دنیا بھرمیں اظہارِرائے کی آزادی پرقدغن لگانے والوں کی غیرمعمولی حوصلہ افزائی کاذریعہ ثابت ہوئی ہے۔
رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز (آرڈبلیوبی)کے شائع کردہ دی ورلڈ فریڈم انڈیکس کے مطابق اِس دقت دنیابھر میں پابندِ سلاسل صحافیوں کی تعداد250سے زائدہے ۔ دنیا بھرمیں ان صحافیوں کوزیادہ مشکلات کا سامنا کرناپڑتاہے جواپنی حکومتوں کی کرپشن بے نقاب کرنے کے حوالے سے کلیدی کردارادا کرتے ہیں۔ آذربائیجان سے مصراور وینزویلا تک ایسے تمام صحافی حکومتوں کی ہٹ لسٹ پررہتے ہیں جوکرپشن کوبے نقاب کرنے کے ساتھ عوام کو ان کے حقوق کے حوالے سے باشعورکرنے کی اپنی کوشش بھی کرتے ہیں۔
امریکا کے پریس کی آزادی کو یقینی بنانے کے حوالے سے نام نہاد قائدانہ کردار کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ امریکادنیابھرمیں لبرل ڈیموکریسی کو پروان چڑھاناچاہتاتھا۔وہ چاہتاتھاکہ دنیابھرکی حکومتیں اپنے صحافیوں کوکھل کرلکھنے اوربولنے کی اجازت دیں، مگر اب ٹرمپ اوران کے ساتھیوں نے روش بدل دی ہے۔انہوں نے مین اسٹریم میڈیاکے خلاف جاتے ہوئے اظہارِرائے کی آزادی پرقدغن لگانے کے حوالے سے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔اس کا نتیجہ یہ برآمدہواہے کہ اظہارِرائے کی آزادی کے حوالے سے قیادت کاخلاپیداہوگیاہے۔یہ خلا فی الحال اگرکوئی پرکرسکتاہے تووہ یورپ ہے۔یورپی حکومتیں اس حوالے سے اب تک تذبذب کاشکاررہی ہیں۔صرف جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے سعودی صحافی جمال خاشق جی کے قتل کی مذمت کرنے میں دیرنہیں لگائی۔ دیگر یورپی قائدین سفارتی مصلحتوں کے تحت کسی بھی معاملے میں کھل کرکچھ کہنے سے واضح طور پرگریزکرتے آرہے ہیں۔
دنیا بھرمیں صحافیوں پرعائد کی جانے والی پابندیوں کے خلاف بولنے کے معاملے میں دی کاؤنسل آف یورپ بہت نمایاں رہی ہے۔اس نے صحافت کی آزادی پر لگائی جانے والی ہرقدغن کی مذمت کی ہے تاہم افسوس ناک امریہ ہے کہ یورپی یونین کے کمیشن پراس حوالے سے کچھ زیادہ اثرات مرتب نہیں ہوئے ہیں۔ وہ اس سلسلے میں قائدانہ کرداراداکرنے سے اب تک گریزکررہاہے۔
4مئی کونیویارک ٹائمز میں نصف صفحے کا اشتہار شائع ہواجواسٹاک ہوم سینٹرفارفریڈم کی طرف سے تھا۔اس میں بتایاگیاتھاکہ191ترک صحافی جیلوں میں ہیں،167 جلا وطنی کی زندگی بسرکررہے ہیں اوران کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے جاچکے ہیں جبکہ 34غیر ملکی صحافیوں کو انتقامی کارروائی کانشانہ بنایا جارہاہے۔
رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز کے چیف ایگزیکٹو کرسٹوف ڈیلوئرکہتے ہیں کہ یورپی پارلیمان کے انتخابات کے بعدپریس یاصحافت کی آزادی پرلگائی جانے والی ہرقدغن کے خلاف بھرپورصدائے احتجاج بلند کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یورپی قائدین اِس حوالے سے اپنی ذمے داری محسوس کرتے ہوئے عالمی سطح پر کردار ادا کرنے کی تیاری کریں۔ کرسٹوف ڈیلوئرکے مطابق اب لازم ہوگیاہے کہ یورپی پارلیمنٹ میں پریس کی آزادی کو ترجیحی حیثیت کے طورپر شامل کیاجائے۔ کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے ٹام گبسن ایک قدم آگے جانے کی بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یورپی کمیشن کی نئی قیادت کے لیے صحافت کی آزادی ایک بڑی ذمے داری ہونی چاہیے اوراسے دنیابھرمیں کرپشن اوردیگربے قاعدگیوں کے خلاف کام کرنے والے صحافیوں کاتحفظ یقینی بنانے کے لیے بھرپور کرداراداکرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ٹام گبسن کہتے ہیں کہ یورپی کمیشن کوایساماحول یقینی بناناچاہیے،جس میں صحافی اپناکام پوری آزادی، ایمان داری اورغیرجانب داری سے کرسکیں۔
ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ یورپی یونین کے ارکان کے ہاں صحافت کی آزادی پرقدغن کے حوالے سے چند ایک معاملات پربھی یورپی کمیشن کاردعمل زیادہ حوصلہ افزانہیں رہا۔اس حوالے سے بھی صدائے احتجاج بلندکی جاتی رہی ہے، مثلاً اکتوبر2017ء میں مالٹامیں ڈیفنی غالیزیاکوقتل کردیاگیاتھا۔ڈیفنی اپنی حکومت کی غیر معمولی کرپشن کے حوالے سے تحقیقات کررہی تھی اوربہت سے ملزمان کوبے نقاب بھی کرچکی تھی۔ کاؤنسل آف یورپ نے چند ہفتے قبل مالٹاکے حوالے سے ایک رپورٹ میں بتایاہے کہ پرمیننٹ کمیشن اگینسٹ کرپشن اورایسے ہی چنددوسرے ادارے اپنے قیام کے 30 سال مکمل ہونے پربھی کوئی قابلِ ذکرکام کرنے کے قابل نہیں ہوسکے ہیں۔ہوسکتاہے کہ سلوواکیہ کی نئی صدرزوزانہ کاپوتوواصحافت کی آزادی کے حوالے سے کوئی قابلِ ذکرکلیدی کردارادا کرسکیں۔ انہوں نے صدرکاعہدہ ایک ایسی انتخابی مہم کے نتیجے میں حاصل کیاہے،جس میں کرپشن اورصحافت پرلگائی جانے والی ہرقدغن کے خلاف احتجاج کوبنیادی حیثیت حاصل تھی۔ اشتراکیت کے خاتمے کے بعدسے سلوواکیہ میں کرپشن کے خلاف بڑے پیمانے پراحتجاج کیاجاتارہاہے۔27سالہ تفتیشی رپورٹر ژاں کشیاک اوراس کی منگیتر مارٹینا کشنیرو واکوملک کی چندبااثرکاروباری شخصیات اورریاستی اداروں کی کرپشن بے نقاب کرنے پرقتل کردیاگیاتھا۔
یورپین گرین پارٹی کی صدارت مونیکافراسونی اور رائن ہارڈ بیوٹیکوفر کے ہاتھ میں ہے۔ ان دونوں کاکہناہے کہ کرپشن اوراختیارات کے ناجائزاستعمال کوروکنے کے حوالے سے بنیادی انسانی اورشہری حقوق کامکمل تحفظ یقینی بنانے کے لیے ہمیں ہرقیمت پرآزادی صحافت کاتحفظ یقینی بنانا ہوگا۔ دنیابھرمیں حکومتیں شدیدکرپشن میں مبتلا ہیں۔ ان کاایک بنیادی وتیرہ یہ ہے کہ جو بھی کرپشن کے خلاف آوازاٹھائے اس کا گلا دبا دیا جائے۔ ایشیا، افریقا اور بحرالکاہل میں ایسے بہت سے صحافی ہیں جنہیں کرپشن کے خلاف آوازاٹھانے پرقید وبند کی صعوبتوں یاپھرموت کاسامنا کرنا پڑاہے۔ آذربائیجان کاصحافی امین حسینوف اس وقت سوئٹزرلینڈمیں پناہ لیے ہوئے ہے۔حکومتی کرپشن بے نقاب کرنے پراسے انتقامی کاروائی کاسامناتھا،جس سے بچنے کے لیے وہ ملک سے نکلنے پرمجبورہوا۔ اس کابھائی مہمن حسینوف اب بھی باکوکی جیل میں ہے۔اس کی رہائی کے لیے یامین حسینوف نے اچھی خاصی کوشش کی مگرتاحال کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ بہر کیف،دوسال مکمل ہونے پرآذربائیجان کی حکومت نے مہمن حسینوف اورچنددوسرے صحافیوں کورہاتوکردیامگروہ ملک نہیں چھوڑسکتااور کسی بھی وقت گرفتار بھی کیاجاسکتاہے۔
ایران میں نیوزویب سائٹس انار پریس اور عبن پریس کے ایڈیٹرانچیف محمدرضانسب عبداللہی کو 2018ء میں اس الزام کی بنیادپرگرفتارکیاگیاکہ وہ غلط بیانی پرمبنی خبریں پھیلارہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل انہیں دوبارہ گرفتارکرلیاگیا، ان کی ویب سائٹس بندکردی گئیں اور تہران حکومت نے اس اقدام کی کوئی وضاحت بھی نہیں کی۔