افغانستان میں امریکی شکست عالم اسلام کو اتحاد کا پیغام

377

محمد عنصر عثمانی
ایک 4 سالہ افغان بچی کو فرانس سے برطانیہ اسمگل کرنے کی کوشش میں 3 برس قبل سابق برطانوی فوجی رابرٹ لاری کو برطانوی پولیس نے گرفتار کیا۔ بچی کو برطانوی فوجی کی گاڑی کی ڈگی سے برآمد کیا گیا۔ یہ افغان بچی جس کا نام بہار احمدی ہے، فرانس کے مہاجر کیمپ کیلے میں اپنے والدین کے ساتھ رہتی تھی۔ بہار احمدی کی ا سمگلنگ میں ملوث برطانوی فوجی کا یہ عمل انتہائی شرمناک اور قابل مذمت ہے۔ اس سے افغان مہاجرین کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کی تصویر واضح طور پر سامنے آ جاتی ہے۔ افغانستان پر مسلط طاغوتی طاقتیں سمجھتی ہیں کہ جنگ زدہ افغان مہاجرین، بچے، عورتیں ان کی جاگیر ہیں، لہٰذا اُن پر انسانی حقوق کا کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا۔ 2001ء میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد سے دنیا بھر میں موجودافغان مہاجرین سے نیٹو ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے چشم پوشی کررکھی ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ یہ لوگ ایسے ملک سے تعلق رکھتے ہیں جس پر الزام ہے کہ اس نے امریکا کو خون کے آنسو رلایاہے۔
امریکا اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان کو جنگ میں مبتلا کرکے کھنڈر بنادیا۔ وہاں کے قبرستانوں میں دفن نفوس کی تعداد ناقابل شمار ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ڈیڑھ عشرے تک بے ہتھیار افغانوں پرامریکا اندوہ ناک ظلم کرتارہا اور نام نہاد انسانی حقوق کا راگ الاپنے والی تنظیموں کی زبانوں پر تالے لگے ر ہے۔ کابل کئی مرتبہ بم دھماکوں سے لرزا۔ اُس کے درو دیوار امریکا کے انسانیت پر مظالم دیکھ کر دید کھو بیٹھے۔ یہ مہاجرین جب افغانستان اور اپنے اوپر بیتے وقت کا آنکھوں دیکھا حال سناتے ہیں تو عالمی برادری امریکا کی شکل دیکھ کرآنکھیں موند لیتی ہے کیوں کہ سچائی کے آئینے میں امریکا کا مکروہ چہرہ واضح ہوچکا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ جوش میں ہوش کھو بیٹھنے والا امریکا افغان جنگ میں سب کچھ ملیا میٹ کرکے اپنی ہار کو جیت میں بدلنا چاہتا ہے۔ اِسے اب معلوم ہورہا ہے کہ سویت یونین کو شکست فاش دینے والے ان ملاؤں کے سینے چٹانوں سے زیادہ سخت ہیں۔
افغان طالبان اور امریکا کے درمیان جاری مذاکرات سے واشنگٹن کا دماغ مزید ٹھکانے آنے کی اُمید کی جاسکتی ہے کیونکہ اسے اب یقین ہو چلا ہے کہ افغان فریق کو نہ تو پہلے کسی ایٹمی قوت کاخوف تھا اور نہ ہی اب کوئی فرعون انہیں ڈرا سکتا ہے، وہ اپنے دو ٹوک موقف پر پہلے بھی قائم تھے اب بھی ان کے مطالبات وہی ہیں۔ ایسے میں امریکا کو ادراک ہو چکا ہے کہ عافیت کا واحد راستہ افغانستا ن سے مکمل فوجی انخلا ہے۔ دنیا مان چکی ہے کہ افغان جنگ خودغرضانہ تھی جس میں امریکا کو عبرت ناک شکست ہو چکی ہے۔ یہ لاحاصل کی جستجو تھی جس میں اپنے اور اتحادی ممالک کے کئی فوجیوں کو مروانے اور بڑا مالی نقصان اٹھانے کے بعد ناکامی کا سہرا سجا کر امریکا مکمل فوجی انخلا پر راضی ہو گیا ہے، تاہم افغان مہاجرین کے ساتھ برسوں سے جاری زیادتیوں پر پراسرار عالمی خاموشی باعث حیرت ہے۔ دنیا امریکی بدمعاشی پر خاموش اس لیے ہے کہ ان کے کئی معاملات کی ڈوری واشنگتن کے ہاتھ میں ہے، مقصد غالباً طاقت اور دولت کا حصول ہے، خواہ اس کے لیے کوئی کتنا ہی لہو بہاتا پھرے۔ عالمی برادری خصوصاً اسلامی ممالک کی خاموشی اور لاپروائی سے سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں اور اسلام ہی کا ہورہا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان صدیوں سے صرف دفاع کی خاطرمزاحمت کررہے ہیں۔ کبھی بھی مذہب کی آڑ میں انسانی تذلیل کا راستہ نہیں اپنایا گیا۔ مغرب نے ایک سازش کے تحت پہلے تومسلمانوں کے اسی نظریہ احترام انسانیت کو دہشت گردی سے نتھی کیا، پھربڑی عیاری سے اسلام کے تصور عالمگیریت کے آگے روڑے اٹکائے۔ اسلامی دنیا میں اگر کسی نے اسلام کی عالمگیریت کاپرچارکیا تو اس کے خلاف عالم کفر متحد ہوکر کھڑاہوگیا۔ اس کو جیل کی سلاخوں میں موت کی نیند سلایاگیا یا انہیں سبق سکھانے کے لیے آمریت کے راستے ہموار کیے گئے۔ کہیں غداران ملت اسلامیہ کو زر خرید غلام بنا لیاگیا، تاکہ اسلام کاعالمگیر تصور دنیا میں نہ پھیلے۔
مسلمان آج دنیا بھر میں جہاں کہیں بحیثیت مہاجر ہیں یا مقیم، ہدف تنقید و تضحیک ہیں۔ یہ قتل کا آسان ٹارگٹ ہیں اور ان کے بچے، عورتیں عالم کفر کے رحم پر ہیں۔ کہیں مذہب کے نام پر گورے ان کی عبادت گاہوں میں مسلح ہو کر گھس جاتے ہیں تو کہیں ان پر منوں،ٹنوں بم برسائے جاتے ہیں۔ اس کے باوجود امریکا اپنی شکست کو سات پردوں میں بھی نہیں چھپا سکتا۔ اسلامی دنیا کو بھی یہ بات سمجھنا ہوگی کہ جب تک آپس میں آفاقی رشتہ اخوت کو مضبوط نہیں کیاجاتا، تب تک احساس کا تعلق قائم نہیں ہوگا۔ عالم اسلام کواسلام کے تصور عالمگیریت کے لیے ایک پیج پر جمع ہونا ہوگا۔ انہیں چاہیے کہ اپنی سنہری تاریخ دہرائیں تاکہ مسلمانوں کو زمین پر چین و سکون میسر ہو ورنہ تاریخ کے اوراق پر مسلمانوں کے خونِ ارزاں کی داستانیں لکھی جاتی رہیں گی۔