کراچی کا نوحہ

648

حسن افضال
’’کے الیکٹرک کی دہشت گردی‘‘ اِس عنوان کے تحت روزنامہ جسارت کا 7 جولائی کا مُد لّل اور مبنی بر حقائق اداریہ نظر سے گزرا۔ یہ اداریہ اہلِ کراچی کے دل کی آواز اور اُن کی طرف سے کے الیکٹرک کو ایک چارج شیٹ دینے کے مُترادف ہے۔ کے الیکٹرک کو ایک عذاب مسلسل کی شکل میں کراچی کے باسیوں پر مسلط کردیا گیا ہے اور وہ عرصہ دراز سے زائد بلنگ، لوڈ شیڈنگ اور بریک ڈاونز کے عذاب کو جھیل رہے ہیں۔
بے نظیر حکومت نے کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کو نجی مِلکیت میں دے کر ایک طرف کراچی کے شہریوں پر ظلم کی ابتداء کی تو دوسری طرف اُن کے شوہر نامداد مسٹر ٹین پرسنٹ (جو بعد میں ترقی کرکے مسٹر ہنڈریڈ پرسنٹ بن گئے تھے) اور اُن کی ہمشیرہ فریال تالپور نے اِس ادارے کے کثیر تعداد میں شیرز حاصل کرکے اہلِ کراچی کو دونوں ہاتھوں سے خوب لُوٹا۔ نواز حکومت کے آخری دور میں اِس ادارے کی زمام کن ہاتھوں میں رہی اِس ضمن میں میری معلومات مفروضوں پر مبنی ہیں لیکن یہ مفروضہ نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ اُس دور میں ایم کیو ایم نے اِس بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے۔ میں خود اِس بات کا شاید ہوں کہ نواز شریف کی پچھلی حکومت کے دور میں اِس ادارے پر ایم کیو ایم کا تسلط قائم تھا، ادارے کے ہر دفتر میں اِس تنظیم کے بدتمیز کارکن نہایت فعال تھے اور اُنہیں زائد بلنگ اور لا متناہی لوڈ شیڈنگ کی شکایت لیکر آنے والے صارفین سے نمٹنے کا ٹاسک دیا جاتا تھا۔ آج زرداری اور اُن کی ہمشیرہ کا اِس ادارے سے کوئی تعلق نہیں، ایم کیو ایم کے غبارے سے بھی ہوا نکل چکی ہے لیکن کے الیکٹرک کو آج بھی کوئی پوچھنے والا نہیں بلکہ اِس مرکھنے سانڈ کو کُھلا چھوڑدیا گیا ہے۔ اِس کی چیرہ دستیاں بڑھتی جارہی ہیں جن کا ذکر جسارت کے مذکورہ اداریے میں تفصیل سے کیا گیا ہے۔ سوائے جماعت ِ اسلامی کوئی اِس ظلم پر آواز اُٹھانے والا نہیں سندھ حکومت نے نہ پہلے کراچی کے لیے کچھ کیا اور نہ اب کرنا چاہتی ہے جبکہ مرکزی حکومت کا کردار بھی اِس سلسلہ میں محض ایک تماشائی کا سا ہے۔
کراچی کا انفرا اسٹرکچر تباہ ہوچکا ہے، جگہ جگہ کچرے اور گندگی کے ڈھیر، بند سیوریج لائنوں سے رستا ہو غلیظ پانی، بے ہنگم ٹریفک، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، رہزنی، پانی کی عدم فراہمی، وقت بے وقت کی غیر اعلانیہ طویل لوڈشیڈنگ، سرکاری دفاتر میں راشی عملہ، ٹیکسوں کی بھر مار اور اِسی نوعیت کے دیگر مسائل کی دلدل میں کراچی دھنستا جارہا ہے اور اربابِ اختیار و اقتدار آنکھیں رکھتے ہوئے بھی اندھے بنے ہوئے ہیں اور اِس شہر ستم رسیدہ کو اپنے مفادات کی کُنجی کے طور پر استعمال کرتے چلے آرہے ہیں۔ یہ شہر جو ساٹھ فی صد سے زائد محصول حکومت کو ادا کرتا ہے آج نوحہ کناں ہے کہ اُس کی ساکھ، اُس کی خوبصورتی اور اُس کا تشخص برباد کردیا گیا ہے۔ یہ شہر جس نے ہر آنے والے کے لیے اپنے بازو کشادہ کیے، ہر کس و ناکس کے لیے وسعت قلبی کا مظاہرہ کیا اُس کی بہتری اور اُس کے گمبھیر مسائل کے حل کے لیے کسی کے پاس وقت نہیں، کسی کے دل میں کوئی نرم گوشہ نہیں۔ بے حس اور بے غیرت حکمرانوں نے روشنیوں کے اِس شہر کو موہنجوداڑو بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اِس شہر کا میئر بے اختیار ہونے کا رونا روتا رہتا ہے لیکن اِس کے باوجود کرسی سے چپکا ہوا ہے۔ کراچی کے باسیوں اپنے شہر کو صرف تم ہی بچاسکتے ہو۔ ہمت کرو، باہر نکلو اور اپنے شہر کے حقوق کی بحالی کے لیے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے بھر پور جدوجہد کرو، اپنے حقوق کے لیے اتنی شدت سے آواز بلند کرو کہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں کے کانوں کے پردے پھٹ جائیں اور اُن کے پاس تمہارے مسائل حل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہے۔