نئے پاکستان کا نظامِ اہلیت

339

ماریہ سلیم
’’نیا پاکستان کرپشن سے پاک، میرٹ اور انصاف پر مبنی‘‘۔ ماضی پر تنقیدیں، حال پر تاویلیں، مستقبل کے وعدے، بل کھاتے فیصلے اور سر چکراتے اعداد و شمار، یہی اندازِ حکومت رہا دہائیوں سے ہمارے ملک کا۔ ہر دور میں میرٹ کے نظام کا سرِعام مذاق بنتا رہا۔ خاندان پرستی کے ذریعے میرٹ کا یہ مذاق اب ہر ادارے کی ہر سطح پر دکھائی دیتا ہے۔ میرٹ کی دھجیاں اڑنا معمول کی بات ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا یہ قانون ملک کے ہر ادارے کا قصہ ہے۔ ہر دور میں میرٹ کا وعدہ ہوا مگر وفا نہ ہوسکا۔ آج سے تقریباً سال پہلے میرٹ کا نام لینے والے آج میرٹ کے نظام سے دور ہوگئے۔ وزیر اعظم کے مشن میں سب سے اہم مشن کرپشن کے علاوہ میرٹ کا نظام تھا۔ لیکن کیا کرپشن کی طرح یہ مشن کامیاب ہوا؟
8 فروری 2019 اسلام آباد میں وزیر اعظم کی زیرِ صدارت سول سروس اصلاحات کے لیے ٹاسک فورس کا اجلاس ہوا تھا، جس میں وزیراعظم نے کہا تھا کہ ’’ہمارا مشن ہے کہ بیوروکریسی کو سیاسی مداخلت سے بچایا جائے اور ہر تقرر صرف میرٹ کی بنیاد پر کیا جائے کیوںکہ احتساب اور میرٹ ہی نظام میں بہتری کے رہنما اصول ہیں، موجودہ دور مہارت کا دور ہے، ہر شعبے میں ماہر افراد ہی کام کرسکتے ہیں، دنیا کے تمام ترقی پزیر ممالک میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ ماہر افراد کی میرٹ پر بھرتی ہے‘‘۔ (نوائے وقت 8 فروری 2019) وزیر اعظم صاحب نے 15 جنوری 2016 کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ: ’’میرٹ اور جمہوریت ایک دوسرے کے ساتھ چلتے ہیں‘‘۔ 29 اپریل 2018 کو وزیراعظم نے مینارِ پاکستان میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے نئے پاکستان کے لیے گیارہ نکات پیش کیے جن میں سے ایک نظامِ میرٹ تھا، ان کا کہنا تھا: ’’یہ ملک بننا تھا مدینہ کی ریاست کے ماڈل پر۔ مدینہ میں غیر مسلم برابر کے شہری تھے۔ نبی کریم ؐ نے فرمایا تھا بڑی قومیں برباد ہوئیں جہاں امیر کا قانون اور تھا، غریب کا قانون اور تھا۔ مدینہ کی ریاست میں یہ ہوتا تھا کہ رسول ؐکی بیٹی بھی اگر چوری کرتی تو اسے سزا دی جاتی۔ نبی کریم ؐ نے میرٹ قائم کیا جو بھی اس میرٹ پر پورا اترتا تھا اسے عہدہ دیا جاتا تھا۔ مدینہ کی ریاست دنیا کی تاریخ کی پہلی فلاحی ریاست تھی۔ تعلیم حاصل کر کے مسلمان قوم عظیم بن گئی۔ ہم نے امیر اور غریب کے پاکستان کو ایک بنانا ہے جہاں میرٹ سے اوپر کوئی نہ ہو۔ مسلمانوں پر بادشاہت آتے ہی مسلمانوں کا زوال آگیا۔ اس مدینہ کی ریاست میں جو مسلمان بنے وہ 700 سال تک دنیا کی سپرپاور رہے‘‘۔ (24 نیوز ایچ ڈی)
میرٹ کا نظام ہر پاکستانی کے لیے لازم ہے۔ کئی سال سے میرٹ پاکستان میں نظرانداز ہو رہا ہے۔ 70 برس سے پاکستانی عوام میرٹ کی راہ تاک رہے تھے۔ ایک نئی امید کی کرن لے کر وزیراعظم نے میرٹ کی یقین دہانی کروائی، تو عوام خوشی سے جھوم اٹھے اختلاف کرنے والے بھی تبدیلی کے گیت گانے لگے۔ ہر طرف ایک ہی آواز تھی کہ اب ہوگا انصاف، اب آئیگا میرٹ کا نظام۔ اب پاکستان میں قابل لوگ دکھائی دیں گے۔ ہر انسان ہاتھ میں ڈگری لے کر اپنے مستقبل کے خواب سجانے لگے تھے۔ عوام کے مطابق ان کی جیت کا وقت آگیا تھا لیکن ایسا نہ ہوا۔ یکم جون 2019 میں ایک خبر نے اس امید کے جنازے نکال دیے۔ جس کے مطابق وفاقی وزیرِ ماحولیات زرتاج گل کی بہن شبنم گل کو قومی ادارہ برائے دہشت گردی (نیکٹا) کا ڈائریکٹر مقرر کر دیا گیا۔ نیکٹا کی جانب سے نوٹیفیکیشن جاری ہوا جس کے مطابق لاہور کالج برائے خواتین میں اسسٹنٹ پروفیسر شبنم گل کو بطور ڈائریکٹر نیکٹا تعینات کرنے کا ذکر کیا گیا۔ میرٹ کی بات یہاں دم توڑ گئی جب یہ اطلاع ملی کہ شبنم گل بین الاقوامی تعلقات میں اسسٹنٹ پروفیسر تعینات تھیں۔ وہ گریڈ 18 میں ہیں تاہم یونیورسٹی نے انہیں اعزازی طور پر گریڈ 19 دے رکھا ہے۔ یاد رہے شبنم گل صاحبہ نے 2010 میں پولیٹیکل سائنس میں پی ایچ ڈی میں داخلہ لیا تھا 9 سال گزرنے کے باوجود ان کی ڈگری مکمل نہ ہوسکی۔ ابھی یہ زخم بھرا نہ تھا کہ وزیراعظم کی اہلیہ کے داماد کو حکومتی ادارے میں بڑا عہدہ مل گیا۔ ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل ٹریننگ (ٹیوٹا) میں وزیراعظم کی اہلیہ کے داماد حافظ فرحت عباس کو نامزد کیا گیا۔ اس خبر کو مسترد بھی کیا گیا، لیکن منگل کے روز حافظ فرحت عباس نے چئیرمین ٹیوٹا کا عہدہ سنبھال کر خبر کی یقین دہانی کرادی۔
70 سال کے بعد ایک امید کی کرن عوام میں جاگی لیکن جاگتے ہی سو ہوگئی۔ یہ کوئی تاریخ کا پہلا واقعہ نہیں ہے کہ کسی کی سفارش کی گئی ہو۔ اندھا بانٹے ریوڑیاں اپنوں اپنوں کو دے کا یہ عمل ہر سطح پر دیکھا جاتا ہے۔ میرٹ کا قتل قیامِ پاکستان سے چلتا آرہا ہے، ہر دور میں میرٹ کا قتل ہوتا ہے۔ نئے پاکستان سے عوام بہت امیدیں رکھتے ہیں خاص طور پر میرٹ پر انصاف کی امید، جس کی کشتی اب ڈوبتی دکھائی دے رہی ہے۔ ان خبروں کی وجہ سے عوام کے چہرے مایوسی کے مارے پھیکے پڑھ گئے ہیں۔ اس ڈوبتی امید کی کشتی کو سنبھالنا حکومت کی اولین ذمے داری ہے۔ میرٹ کے قتل کو ختم کرنے کے لیے حکومت کے جانب سے اہم اقدامات اٹھانا لازم ہے۔ یہ مذاق برسوں سے عوام کے ساتھ چلتا آرہا ہے۔ اس مذاق نے عوام کی محنت کا بھی مذاق بنا دیا ہے۔ کسی بھی مقام میں ریفرنس کا نظام بھی میرٹ کے لیے اور ادارے کی ترقی کے لیے تباہ کن ہے۔
آخر کب تک عوام میرٹ کی جنگ میں خاندان پرستی کو برداشت کریں گے؟ کب تک عوام کی امیدوں پر پانی پھرتا رہے گا؟ کب تک عوام اپنے حق کو حاصل کرنے کی خواہش کو گہری نیند سلاتے رہیں گے؟ یہ نا امیدی کے بادل کب چھٹیں گے؟ کب عوام کی توقعات پوری ہوںگی؟ اس مذاق کا اختتام کب ہوگا؟