………وہ عجیب لوگ

993

ایک زمانہ تھا کہ ہم قارئین کو برق رفتاری سے کالم سپلائی کرنے کے بجائے صارفین کو برقی رَو سپلائی کرنے والے ایک ادارے میں ملازم تھے۔ ’الیکٹریکل انسٹرومنٹ مکینک‘۔ یقینا یہ نسبتاً مفید کام تھا۔ جس ادارے میں ہم کام کرتے تھے،اُس کے 100سال پورے ہونے پر اس کا نام بدل کر ’کراچی الیکٹرک‘ رکھ دیا گیا۔ اب صرف ’’کے الیکٹرک‘‘ کہلاتا ہے۔ ایک زمانے میں اس ادارے کا نام ہماری قومی زبان میں بھی تھا ’’ادارۂ فراہمی ٔ برق کراچی‘‘ مگرمدتوں سے شاید یہ نام خود ’کے الیکٹرک‘ کے وابستگان نے بھی نہیں سنا ہوگا۔
کراچی کی ابراہیم اسماعیل چند ریگر روڈ سے نکل کر (جسے مخفف پسند حضرات آئی آئی چند ریگر روڈ کہتے ہیں) ایک گلی نما سڑک اندر جاتی ہے۔ اس سڑک کا نام ’ایلینڈر روڈ‘ ہے۔ یہ وہی گلی ہے جس کے کونے پر تاریخی ’خیر آباد کافی ہاؤس‘ مدتوں سے موجود ہے۔ اگر آپ اِس گلی میں داخل ہو جائیں تو گلی کے اختتام سے پہلے ہی ’کے الیکٹرک‘ کے دفتر شکایات سمیت، اس ادارے کے متعدد دفاتر نظر آئیں گے۔ اسی گلی میں ’کے الیکٹرک‘ کی ’میٹر ٹسٹنگ لیبارٹری‘ سمیت متعدد ورکشاپس اور ایک ’لوڈ ڈسپیچ سینٹر‘ بھی موجود ہے۔ ان تمام دفاتر کے مجموعے کو ’کے الیکٹرک‘ والے آج بھی ’ایلینڈر روڈ پاور ہاؤس‘ کہتے ہیں۔ ’پاور ہاؤس‘ وہاں اب نہیں رہا۔ مگر قیام پاکستان سے قبل کے ای ایس سی کا قدیم ترین پاور ہاؤس یہی تھا۔یہ ’ڈیزل اسٹیشن‘ تھا۔ فرسودہ ہونے پر بند کر دیا گیا۔ ’کے الیکٹرک‘ کی اس جائداد کواب جدید اور خود کار مشینوں نے سنبھال لیا ہے۔ بہرحال، کہنا یہ تھا کہ کبھی اسی گلی کے خرمن میں بجلیاں بھی آسودہ ہوا کرتی تھیں۔
قیامِ پاکستان سے قبل کراچی شہر تھا ہی کتنا بڑا؟ پورے شہر کو بجلی اسی پاور ہاؤس سے فراہم کی جاتی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب آج کے دور کی طرح بجلی ’’گردشی برقی رو‘‘ (Alternating Current=A.C) کے ذریعے سے نہیں فراہم کی جاتی تھی۔ تمام صارفین کو ’’راست برقی رو‘‘ (Direct Current=D.C.) سے فراہم کی جاتی تھی۔ ہر دو، برقی رو کے جھٹکوں میں جو فرق ہے اُسے سمجھنے کے لیے پہلے پبلک ٹرانسپورٹ پر ’متحرک ادب‘ سے منتخب کیے گئے ایک شعر کا جھٹکا سہ لیجیے:
رفیقوں سے رقیب اچھے، جو جل کر نام لیتے ہیں
گلوں سے خار بہتر ہیں، جو دامن تھام لیتے ہیں
یعنی دونوں برقی صدموں میں فرق وہی ہے جو رفیقوں، رقیبوں، گلوں اور خاروں کے مابین بیان کیا گیا ہے۔ آلٹر نیٹنگ کرنٹ کو ہاتھ چھو جائے تو وہ واقعی عام اصطلاح میں ’کرنٹ مارتا‘ ہے۔ یعنی ’کرنٹ خور‘ کے ہاتھ کو جھٹک کر دور پھینک دیتا ہے۔ (محبوب والا سلوک کرتا ہے)۔ یوں ’کرنٹ خوردہ‘ شخص کے زندہ بچ جانے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ مگر ڈائرکٹ کرنٹ جس پر مرتا ہے، اُس کو مار رکھتا ہے۔ اگر ڈی سی کے تار کو ہاتھ چھو جائے تو وہ کھینچ کر بھینچ لیتا ہے اور اُس وقت تک کلیجے سے چمٹائے رکھتا ہے جب تک دم نہ نکل جائے۔ دم نکلنے کے بعد بھی چھوڑتا نہیں۔ چُھڑایا جاتا ہے، بجلی بند کرکے۔
جب انگریزوں کے دور میں ’’کیسکو‘‘ (KESCO) یعنی ’’کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی‘‘ قائم کی گئی تھی (جسے کارپوریشن بن جانے کے بعد کے ای ایس سی کہا جانے لگا) تو اُس وقت’ کیسکو‘ کے عملے میں ایسے لوگ بھی ملازم رکھے گئے تھے جو ہر شام صارفین کے گھر (یعنی گھر گھر) جاکر بجلی کابٹن آن کرتے تھے تاکہ … گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ’ہو‘ روشن … اور ہر صبح اُسے آف کرنے بھی جاتے تھے۔ اُس وقت بڑے بڑے سورما بجلی سے اُسی طرح ڈرتے تھے جس طرح آج کے جری لوگ کسی ’’جیکٹ‘‘ پہنے ہوئے شخص کے ’’نعرۂ تکبیر‘‘ سے ڈرتے ہیں۔ (سمجھ میں نہیں آتا کہ جب وہ نہیں ڈرتا تو آپ کیوں ڈرتے ہیں؟)
آج تو اگر آپ کا … (معاف کیجیے گا) … آپ کے گھر کی بجلی کا… فیوز اُڑ جائے تو شاید آپ کا آٹھ سالہ بیٹا بھی جوڑ لے گا۔ زیادہ تر گھروں میں تو اب ’آٹو میٹک سرکٹ بریکر‘ نصب ہیں۔ کبھی بجھ گئے، کبھی جل اُٹھے۔ اور اب تو بچے بھی ٹسٹر کی مدد سے کرنٹ ٹسٹ کر لیتے ہیں۔ بالائے سر برقی تاروں سے ’’کنڈا‘‘ جوڑ لیتے ہیں اور بہت سی برقی خرابیاں خود (پیدا …یا) دُور کرلیتے ہیں۔ مگر یقین مانیے کہ کراچی کے اسی شہر چراغاںپر ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے جب بڑے بڑے جغادری الیکٹریکل انجینئر بھی برقی تاروں کو ہاتھ لگانے سے پہلے اپنی گھگھی باندھ لینا ضروری سمجھتے تھے۔ گھگھی بندھتی تو بڑی آسانی سے تھی مگر کھلتی بڑی مشکل سے تھی۔ اُسی دور کے ایک مردِ قلندر کا بہت دلچسپ، چٹخارے دار اور کسی قدر سبق آموز قصہ آج ہم آپ کو سناتے ہیں۔
ایلینڈر روڈ پاور ہاؤس کی ’میٹر ٹسٹنگ لیبارٹری‘ میں گزارے ہوئے دن بڑے دلچسپ اور خوشگوار تھے۔ ہم وہاں ’’توانائی پیما‘‘ یعنی انرجی میٹرز کی تصحیح و تصدیق و تنقیح کے کام پر مامور تھے۔ یہ انرجی میٹرز وہی ہوتے ہیں جو آپ کے گھر میں لگے ہوتے ہیں۔ ان کا واحد مقصد ہمیں تو آج بھی یہی نظر آتا ہے کہ میٹر ریڈر آکر اِن کی ریڈنگ لے اور بلنگ ڈپارٹمنٹ والے یہ ریڈنگ پڑھے بغیر ہی آپ کو بھاری بھرکم بل بھیج کر آپ کو بلبلانے اور بلبلاتے ہوئے بلنگ ڈپارٹمنٹ تک بھاگے چلے آنے پر مجبور کردیں۔ وہاں پہنچ کرآپ اُن کی ناخواندگی کا کچھ فدیہ ادا کریں اور بل کو ’’بالاقساط‘‘ کرواکے چلے آئیں۔ جب انہیں یہی کرنا ہے تو میٹر ریڈر کو کیا مار آئی ہوئی ہے کہ وہ یہ لاحاصل ریڈنگ لینے کے لیے گلی گلی اور مارا مارا پھرے؟ اپنی زندگی کی قلیل سی مہلت میں وہ کوئی اور ’’نفع بخش‘‘ کام کیوں نہ کرے؟ سو، کرہی رہا ہے۔ مگر خیر… ہم تو بات کر رہے ہیں سن اکہتر سے شروع ہونے والی دہائی کی۔ برقِ رواں کے جو صارفین اپنے انرجی میٹرز کی برق رفتاری کی شکایت درج کراتے تھے، یا میٹر ریڈرز جن میٹرز کو سست رفتاری کا مریض پاتے تھے، وہ تمام میٹرز ہماری لیبارٹری میں پہنچا دیے جاتے تھے۔ یہاں ایک ’’معیاری میٹر‘‘ سے اُن کے چال چلن کا موازنہ کیا جاتا تھا، جو بڑا دلچسپ کام تھا۔ لوگ بھی بڑے دلچسپ تھے۔ سائنسی تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اعلیٰ ذوقِ ادب کے حامل، عمدہ حسِ مزاح رکھنے والے اور بات بات پر قہقہہ آور مگر شستہ اور شائستہ مذاق کرنے والے۔ جی چاہتا ہے کہ ہر شخص کا خاکہ لکھا جائے۔ (مگر پڑھے گا کون؟)۔ ہر صبح گیارہ بجے ’’ٹی ٹائم‘‘ ہوجاتا اور خیر آباد کافی ہاؤس میں چائے اور سموسوں پر بہت دلکش اور دلدار نشست ہوا کرتی۔ اس نشست میں شرکت کے لیے تمام شرکاء وقت کی مکمل پابندی کیا کرتے۔ وہ بھی جو دفتر پہنچنے کے لیے کبھی وقت کے پابند نہ ہوئے۔
ایک روشن چمکیلی صبح کا ذکر ہے کہ ’’ٹی ٹائم‘‘ میں میٹر ٹسٹنگ لیبارٹری کے احبابِ خوش ذوق، اوپری منزل پر واقع ’’شیشے کے گھر‘‘ سے نیچے اُترے اور اُس طویل صحن سے خراماں خراماں گزرنے لگے جس میں… (درجنوں پھلواریوں اور سرسبز و شاداب پودوں کی کیاریوں سے سجی ہوئی اور زمانۂ قدیم کی بنی ہوئی) … عجیب و غریب عمارتیں کھڑی تھیں۔ ان عمارتوں میں مختلف ورکشاپس تھیں۔ مکینکل شاپ، الیکٹریکل شاپ، مشین شاپ، مولڈنگ شاپ اور لیتھ شاپ وغیرہ وغیرہ۔ جب ہم اس طویل احاطے کے آخر میں واقع صدر دروازے کے قریب پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ مخبوط الحواس قسم کا ایک بوڑھا اس احاطے میں داخل ہورہا ہے۔ پتلون قمیص میں ملبوس، مگر قمیص پتلون سے باہر۔ سر پر سولا ہیٹ رکھے ہوئے اور کوٹ اپنے بائیں بازو پر دھرے ہوئے۔ پاؤں میں دو پٹی والی اسفنجی ہوائی چپل اور چہرے پر ویسے ہی تاثرات جیسے نئی نسل اور نئے زمانے سے شاکی اور نالاں رہنے والے بزرگوں کے چہرے پر اپنے نالائق اور ناخلف جانشینوں کے لیے ہمہ وقت رہا کرتے ہیں۔ موصوف منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑاتے ہوئے آگے بڑھتے چلے آرہے تھے۔ اِدھر اُدھر دیکھے بغیر اور زمین پر نظریں گاڑے ہوئے۔ طول العمری کے سبب اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھنے والے ایسے بوڑھے اکثر شہر بھر میں سڑکیں ناپتے نظر آیا کرتے تھے۔ ہمیں حیرت ہوئی کہ یہ ’’روڈ ماسٹر‘‘ یہاں اندر کیسے چلا آیا؟ ابھی کوئی سیکورٹی گارڈ بھاگا بھاگا آئے گا اور بڑے میاں کو باہر کا راستہ دکھائے گا۔ مگر دیکھا کہ یہ خبطی بزرگ چلتے چلتے ایک ’شاپ‘ کے دروازے کے سامنے جاکر زمین پر اُکڑوں بیٹھ گئے اور مختلف چیزیں چننے لگے۔ جو چیزیں وہ چن رہے تھے اُن میں کیلیں تھیں، نٹ بولٹ تھے، مختلف سائزوں کے کلپ تھے، چھوٹے چھوٹے ٹی-آئرن تھے اور متنوع اقسام کے برقی تار۔ ہمیں تجسس ہوا کہ اب دیکھیے ان بڑے صاحب کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے اور ’متوقع تماشا‘ دیکھنے کو رُک کر کھڑے ہو گئے۔ ہماری توقع کے عین مطابق… بلکہ توقع سے بڑھ کر… تماشا ہوا اور صرف سیکورٹی گارڈز ہی نہیں تقریباً ہر شاپ اور ہر ناپ کے لوگ مختلف سمتوں سے ان کی طرف دوڑ پڑے۔ ہم بھی یہ سوچ کر اُن کی طرف لپکے کہ اب ان کو پکڑ کر ڈانٹ ڈپٹ کی جائے گی۔ ’سرکاری املاک‘ ان سے چھین لی جائیں گی اور انہیں بیک بینی و دوگوش احاطے سے نکال باہرکیا جائے گا … مگر یہ کیا؟ … دوڑنے والے بے شک دوڑے، پر ہماری چشم حیرت نے ایک عجیب تماشا دیکھا۔ ہر سطح کا عملہ اور افسران اُنہیں جھک جھک کر سلام کر رہے ہیں۔ کچھ ندامت سے ان کے ساتھ بیٹھ کر ان کے کام میں ہاتھ بٹا رہے ہیں اور کچھ اُن کا ہاتھ پکڑ کر انہیں اس کام سے باز رکھنے کی کوششِ ناکام فرمارہے ہیں۔ لوگوںکی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ حتیٰ کہ یہ خبر ’پاور ہاؤس‘ کے سربراہ یعنی چیف انجینئر صاحب تک بھی پہنچ گئی۔ وہ بھی اپنے ٹھنڈے ٹھار دفتر سے نکل کر باقاعدہ بھاگتے ہوئے ان کے پاس آن پہنچے اور شرمندگی سے بولے: ’’ارے … ارے … اُستاد آپ یہ کیا کر رہے ہیں؟‘‘
اُستاد نے سوٹڈ بوٹڈ اور سوفیسٹی کیٹیڈ چیف انجینئر صاحب کی طرف ایک حقارت بھری نگاہ کی، غصے میں اُٹھ کر کھڑے ہوگئے اور گویا پھٹ پڑے: ’’ارے بابا! یہ حلال کی کمائی ہے … یہ کارپوریشن ہم نے بڑی محنت سے بنائی ہے … یہ دولت ہے، دولت! … جو تم نے مٹی میں ملا دی ہے کم بختو!‘‘
تمام حاضرین و ناظرین کو نیازمندانہ، تابعدارانہ اور مؤدبانہ نادم ہوتے دیکھا توہم نے قریب ہی کھڑے فورمین صاحب سے پوچھا: ’’یہ وی آئی پی بزرگ کون ہیں؟‘‘
اُنہوں نے ہمیں کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے حیرت سے پوچھا: ’’تم اُستاد حسن علی کو نہیں جانتے؟‘‘
معلوم ہوا کہ یہ بزرگ، بزرگوں کے بزرگ اور اُستادوں کے اُستاد ہیں۔ کے ای ایس سی کے بڑے سے بڑے اور سینئر سے سینئر انجینئرز کے بھی اُستاد۔ پرانے لوگوں میں سے کوئی ڈگری ہولڈر انجینئر ایسا نہ ہوگا جس نے اُستاد حسن علی سے عملی تربیت حاصل نہ کی ہو۔ سب کے سب کسی نہ کسی فیلڈ میں ان کے شاگرد رہے ہیں۔ ہمیں بڑی حیرت ہوئی۔ سو، حیرت سے کہا: ’’مگر یہ خود تو اتنے قابل نظر نہیں آتے‘‘۔
پتا چلا کہ ’’چٹے اَن پڑھ‘‘ ہیں۔ مگر عملی میدان میں ماہر سے ماہر ترین انجینئروں سے زیادہ ماہر ہیں۔ بڑے سے بڑا فالٹ پہلی نظر میں پہچان لیتے ہیں۔ ابھی کچھ ہی برس قبل چالیس سال کی مدتِ ملازمت مکمل کرکے ریٹائر ہوئے ہیں۔ مگر ریٹائر ہونے کے بعد بھی تنخواہ کے لالچ کے بغیر روزانہ ڈیوٹی پر حاضر ہوجاتے تھے۔ انتظامیہ نے ہاتھ پاؤں جوڑ کر انہیں باز رکھا۔ اعزازی ’سب انجینئر‘ کا عہدہ دے کردرخواست کی کہ آپ ہر روز نہ آیا کریں۔ آپ ہمارے ’کنسلٹنٹ‘ رہیں گے۔ جب بھی ہم کسی مشکل میں پڑے تو آپ سے خود رابطہ کریں گے۔
اپنے عہدِ نوجوانی (بلکہ لڑکپن) میں یہ بھی صارفین کے گھر کے بٹن ’آن-آف‘ کرنے پر ملازم رکھے گئے تھے۔ مگر محنتِ شاقّہ سے ہرکام میں مہارت حاصل کر لی۔ دن کو دن سمجھا نہ رات کو رات جانا۔ چالیس برس کی مدت ملازمت میں اُنہوں نے صرف دودن ’آدھی چھٹی‘ کی ہے۔ جس روز اُن کا نکاح تھا اُس روز دوپہر کے بعد چھٹی لے کر اپنی بارات میں شرکت کے لیے روانہ ہوگئے تھے۔ اور جس روز اُن کی لاڈلی بیٹی لحد کی گود میں سوگئی، اُس روز وہ بعد نمازِ ظہر ہونے والی نمازِ جنازہ اور تدفین میں شرکت کے بعد پاور ہاؤس آگئے۔
اب ہمیںاس بات پر قطعاً تعجب نہیں تھا کہ بڑے بڑے افسران اِن کے ہاتھ کیوں چوم رہے ہیں۔ تعجب تو اس بات پر تھا کہ یہ لوگ اِن کی دو پٹی والی اسفنجی ہوائی چپلوں میں پھنسے ہوئے پاؤں کیوں نہیں چومتے؟ مگر خیر، یہ بھی غنیمت تھا کہ لوگوں نے انہیں یاد رکھا:
وہ عجیب لوگ، وہ قافلے
جو نہ رُک سکے نہ بھٹک سکے
جو چمن سجا کے چلے گئے
جو وطن بنا کے چلے گئے
ہمیں یاد ہیں، ہمیں یاد ہیں!