بجٹ سے دھول اڑنے کا سلسلہ کب بند ہوگا؟

413

 

قاضی جاوید
jasarat.qazijavaid@gmail.com

عمران حکومت کا بجٹ12جون کو پیش ہو ا ۔ایک ماہ گزرنے کے باوجودبجٹ دھول اُڑنے کا سلسلہ ختم نہیں ہوا اورعوام تاجر و صنعتکار کی دشواریوں اضافہ کا سلسلہ جاری ہے جس کے بعد ملک میں ہر طرف شور مچا ہو ا ہے ،عمران حکومت کے ارکان بجٹ کو سابقہ حکومت کی اقتصادی ناکامی قرار دے رہے ہیں اس کے بر عکس ملک بھر کے تاجر اور صنعت کاروں کے ان رہنمائوں نے بجٹ کو صنعت وتجارت کو تالا لگانے کی چابی قرار دیا جنھوں نے کبھی کسی حکومت کی مخالفت نہیں کی ،18جون کو یونائٹیڈ بزنس گروپ کے سرپرست اعلیٰ اور ایف پی سی سی آئی کے سابق صدرایس ایم منیر نے کہا کہ بجٹ نہیں چل سکتا، قوم پریشان ہے،پاکستان کی رہی سہی برآمدات کو بچانے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت ٹیکسٹائل کے5سیکٹرز کو زیروریٹیڈ کی سہولت برقرار رکھے،ایف پی سی سی آئی کا وفد اس سلسلے میں20جون کو اسلام آباد میں مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ سے ملاقات کی اور اس ملاقات میں ا ہم اوپن ڈسکس کیا گیا 20 جون ایف پی سی سی آئی ،حکومت پر واضح کردیا ہے کہ یہ بجٹ نہیں چل سکتا،پوری قوم پریشان ہے،ملک کی سب سے زیادہ ایکسپورٹ کرنے والی ٹیکسٹائل انڈسٹری کی بقاء خطرے میں ہے۔لیکن مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے ملاقات میں ایف پی سی سی آئی کو صاف لفظوں میں بتا دیا تھا کہ حکومت ٹیکسٹائل کے5سیکٹرز کو زیروریٹیڈ کی سہولت برقرار نہیں رکھ سکتی ہے ۔ اس دو ٹوک جو اب کے بعد مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ اور ایف پی سی سی آئی کے درمیان مذاکرات کو فوری طور پر ختم کر دیا گیااور ایف پی سی سی آئی کا وفد مذاکرات سے اُٹھ گیالیکن اس کے باوجود حکومت نے ٹیکسٹائل کے5سیکٹرز کو زیروریٹیڈ کی سہولت کو بحال نہیں کیا۔اس وقت صورتحا ل یہ ہے کہ ٹیکسٹائل پروسیسنگ انڈسٹری سے وابستہ صنعتکاروں، مقامی کپڑے کے ہول سیلرزاورریٹیلرز کا کاروبار نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ میں ٹیکسٹائل پر زیروریٹنگ کی سہو لت ختم کیے جانے اور 17اور20فیصد سیلز ٹیکس کے نفاذ سے کاروبار ختم ہوکر رہ گیا ہے،فیکٹریاں بند گئی ہیں جبکہ ہول سیلرز نے فیکٹریوں میں کپٹرے کی پروسیسنگ اور ڈائنگ کرانا بند کردی ہے۔پروسیسنگ انڈسٹری مالکان سیلزٹیکس کی شرح کو 31جولائی تک موخر کرنے اورکپڑے کے تاجران نے فکسڈ ٹیکس کے نفاذ کا مطالبہ کردیا ہے ۔سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری میںآل پاکستان ٹیکسٹائل پروسیسنگ ملز ایسوسی ایشن کے ریجنل چیئرمین محمدعارف لاکھانی کی زیر صدارت ٹیکسٹائل کی پروسیسنگ صنعت کے ہنگامی اجلاس عام میں کے سی سی آئی کے سابق صدورزبیرموتی والا،یونس بشیر، پاکستان ہوزری مینوفیکچررزاینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے مرکزی چیئرمین جاوید بلوانی،اپٹپماکے سابق چیئرمین اقبال لاکھانی،چوہدری ذوالفقار، محمداشرف، اقبال عربی،امجدجلیل،سائٹ ایسوسی ایشن کے قائم مقام صدر نوید واحد،اولڈ سٹی تاجراتحاد کے چیئرمین ایس ایم عالم،لطیف کلاتھ مارکیٹ کے صدرشاہدودود،رضوان امین،ویونگ سیکٹرکے نمائندے جمیل شمسی، سکندر عمران، انورعزیز بالا گام والا، سلیم نگریابھی موجود تھے۔ ٹیکسٹائل پروسیسنگ ایسوسی ایشن کے اجلاس عام میں ایک قرار دادبھی متفقہ طور پر منظور کی گئی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ حکومت شناختی کارڈ کی طرز پرسیلزٹیکس کے نفاذ کو بھی31 جولائی تک موخرکرے، ایس آراو1125 اور زیرو ریٹنگ کو31جولائی تک جاری رکھاجائے،31 جولائی تک ڈائینگ ویونگ ،ہول سیلر،ریٹیلرزکی مشاورت سیلزٹیکس مسائل کاحل نکالاجائے۔اجلاس میں عارف لاکھانی نے کہا کہ حکومت نے یکمشت زیرو ریٹنگ ختم کرکے رجسٹرڈ پر17اور غیررجسٹرڈ پر 20 فیصد ٹیکس کا نفاذ کیا ہے جس پر تمام اسٹیک ہولڈرزکو تحفظات ہیں،ہمارے کسٹمرز نے فیکٹریوں میں کام کرانا بند کردیا ہے ،ہم ہڑتال پر نہیں ہیں مگر کام بند ہونے سے تمام پروسیسنگ انڈسٹریز بند ہوگئی ہیں اور مزدور طبقہ بے روزگار ہوگیا ہے اور سارا نظام منجمد ہوکر رہ گیا ہے،یکدم40 فیصد پیداواری لاگت بڑھ گئی ہے جوکوئی صنعت جذب نہیں کرسکتی ہے۔زبیرموتی والا کا کہنا ہے کہ 17تا20 فیصدسیلزٹیکس،گیس ٹیرف میں31فیصد اضافہ،بجلی کے ٹیرف میں اضافہ، یوٹیلٹی بل اور روپے کی قدر میں کمی جیسے مسائل کا ہمیں سامنا ہے، یکدم ٹیکسوں میں اضافے سے کاروبار کرنا ناممکن ہوگیا ہے، آج تیسرا دن ہے کہ پروسیسنگ انڈسٹری بند ہے۔ انہوں نے حکومت کو مذاکرات کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ اگر زیروریٹنگ سیکٹرپرسیلزٹیکس برقرار رکھاگیاتو برآمدات میں30 فیصد کمی واقع ہوگی،کسی بھی صنعت کا منافع4فیصد سے زائد نہیں ہوتاہے۔ ملک بھر میں چمڑا فیکٹریوں کے مالکان نے بھی کاروبار بند کرنے کا اعلان کردیا ہے، چیئرمین ٹینریز ایسوسی ایشن کے مطابق5جولائی سے تمام فیکٹریاں کھالوں کی خریداری بند کردی گئی ہے اور ان کا کہنا ہے وہ عید قرباں کی کھالوں کی خریداری کے لیے فروخت کر نے والوں سے شناختی کارڈ طلب کریں گے اور شناختی کارڈ کے بغیر کھال کی خریداری نہیں کریں گے ۔چیئرمین ٹینرز ایسوسی ایشن نے بھی ہڑتال کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ملک بھر کی800سے زائد چمڑہ فیکٹریوں میں تالے لگانے کا فیصلہ کیا ہے، جبکہ چمڑہ فیکٹریاںکل5جولائی سے کھالوں کی خریداری بند کردیں گی اور عید قرباں سے حاصل ہونے والی کھالیں بھی نہیں خریدسکیں گے، جس کے باعث اربوں روپے کی کھالیں ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔چیئرمین ٹینرز ایسوسی ایشن آغا سیدین کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیاہے کہ زیروریٹ کی سہولت ختم ہونے کے بعد سرمایہ حکومت کے پاس نہیں پھنساسکتے، بجٹ میں چمڑا سازی کے کیمکلز پر بھی اضافی ڈیوٹی عائد کردی گئی ہے۔اُدھر دوسری جا نب ایمنسٹی اسکیم اور وفاقی اور صوبائی بجٹ میں ٹیکس اقدامات پر تاجر برادری میں تشویش سے دوچار ہے۔ کراچی کے تمام چھوٹے بڑے بازاروں میں ان دنوں صرف ایمنسٹی کی گونج سنائی دے رہے ہیں کاروبار ی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں بازار اور تجارتی مراکز سنسنان پڑے ہیں۔ بڑی تجارتی انجمنوں اور چیمبر آف کامرس کی جانب سے اپنے تحفظات براہ راست حکومت کے اعلیٰ عہدے داروں سے ملاقات میںان کو اپنے مسائل سے آگاہ کیاتاہم چھوٹے تاجروں کے مسائل جوں کے توں برقرار ہیں اور ٹیکس ایمنسٹی اسکیم اور نان فائلرز کے خلا ف تادیبی اقدامات، بینک اکائونٹس کی بائیومیٹرک تصدیق اور بڑی مالیت کے بانڈز کی ملکیت کی منتقلی پر پابندی جیسے اقدامات سے تاجر پریشان ہیں۔ فیڈریشن آف رئلٹرز پاکستان کے مرکزی رہنماء اور اسلام آباد اسٹیٹ ایجنٹس ایسو سی ایشن کے فنانس سیکرٹری سید عمران بخاری نے کہا حکومت رئیل اسٹیٹ کے بزنس پر بلاجواز ٹیکس لگارہی ہے اور ایف بی آر کے علاوہ حکومت کے نمائندوں اور پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹیوں کے اجلاسوں میں رئیل اسٹیٹ کے بزنس کو درپیش مشکلات کے بارے میں متعدد بار حکومت کو آگاہ کیا گیا ہے لیکن ابھی تک ہماری مناسب شنوائی نہیں ہوئی ہمارے ساتھ یہی گلہ کیا جاتا ہے کہ حکومت اس شعبے کے ذریعے بہت کم ٹیکس اکٹھا کر رہی ہے لیکن ہم انہیں کہتے ہیں کہ حکومت اگر ہمارے ساتھ مشاورت کرے اور ہمیں پوری طرح اعتماد میں لے ٹیکس کی شرح لگاتے ہوئے ہم سے لازمی مشورہ کرے تو یہی رئیل اسٹیٹ انڈسٹری حکومت کو ستر ارب سالانہ ٹیکس دے سکتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ حکومت کو ٹیکسوں کی شرح کے لیے ہمارے موقف کی حمایت کرنا ہوگی۔ گڈز ٹرانسپورٹر کی جانب سے احتجاج کا دائرہ کار بڑھا دیا گیا ملک بھر میں اشیا خوردونوش اور ادویات کی ترسیل روک دی تھی اور حکومتی مداخلت پر اس کو بحال کیا گیا۔ جس کے بعد گڈز ٹرانسپورٹرز نے کئی روز سے جاری اپنے احتجاج کے دائرے کو بڑھاتے ہوئے اشیا خور و نوش اور ادویات کی ملک بھر میں ترسیل بند کر نے کی دھمکیاں جاری ہیں۔ ملک میںبے قابو ہوتے ہوئے ڈالر،گیس اوربجلی کے ٹیرف میں اضافے اور پٹرول کی قیمتیں بڑھنے سے عوام کے لیے دال کھانا مشکل ہوگیاہے۔ گزشتہ ایک ماہ میں درآمد شدہ دالوں اور اجناس کی قیمتوں میں 30روپے سے 500روپے تک اضافہ ہو گیا ہے۔گزشتہ ایک ماہ میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں 11سے 13روپے تک کی کمی آئی جس کا براہ راست اثر عام عوام پر پڑا۔ یکم جون سے یکم جولائی تک مختلف ممالک سے برآمد ہونے والی دالوں سے لے کر زیرے اور لونگ تک تمام اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں 30سے لے کر 500روپے تک فی کلو اضافہ ہو گیا ہے۔دال مسور 90روپے فی کلو سے بڑھ کر 120روپے، سرخ مسور 120سے 163،دال چنا 100سے 140،سفید چنے 96سے 130جبکہ کالاچنا100روپے سے بڑھ کر 140روپے فی کلو فروخت ہو رہا ہے۔دوسری جانب امریکی بادام گری جو پہلے ہی عوام کی قوت خرید سے دورتھی وہ اب مزید 1200روپے فی کلو سے بڑھ کر 1800روپے ہوگئی۔ اسی طرح موٹی الائچی 1600روپے سے بڑھ کر 1800روپے فی کلو، سبز الائچی 3400سے 3900،اناردانہ 195سے 265،املی 140سے 165،سوگی میوہ 380سے 560جبکہ خشک آلو بخارہ 360سے بڑھ 450روپے فی کلو ہو گیا ہے۔حیدرآباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹری کے صدر محمد فاروق شیخانی نے کہا کہ امسال بجٹ کے ساتھ منظور شدہ فنانس ایکٹ میں دھاگے کی صنعت پر 17 فیصد ڈیوٹی عائد کردی گئی ہے جس کے سبب دھاگے سے متعلق تمام صنعتیں جن میں ایمبرائیڈی اور کپڑے کی صنعت ہے نے اپنا کاروبار بند کردیا ہے ۔ کیونکہ زیادہ تر دھاگہ باہر سے آتا ہے اور اُس پر 17 فیصد ڈیوٹی عائد کرنے سے اُن کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں جبکہ ملکی عوام اِس قدر قیمت بڑھانے سے خرید پر بالکل تیار نہیں ہے جس کی وجہ سے یہ صنعت تباہ ہو رہی ہے۔ ٹیکسٹائل کی صنعت کو چلانا مہنگی بجلی، مہنگی گیس اور اَب مہنگے میٹریل کے باعث صنعتکاروں کے بس سے باہر ہوتا جارہا ہے اور وہ کوئی دوسرا کام کرنے کی پلاننگ کر رہے ہیں جبکہ اِس سے قبل ٹیکسٹائل کی صنعت نا مساعد حالات میں بھی اپنے پائوں پر کھڑی رہی اور عوام کو نہ صرف لباس کے لیے کپڑا فراہم کرتی رہی بلکہ یہاں سے کپڑا ایکسپورٹ بھی کیا جاتا رہا ہے ، لیکن اَب صنعتکار کی برداشت جواب دے گئی ہے۔آٹو موٹیو ٹریڈرز اینڈ امپورٹرز ایسوسی ایشن نے گاڑیوں کی خریدوفروخت غیرمعینہ مدت کے لیے بند کرنے کا عندیہ دے دیا ہے ۔جمعرات کوپریس کانفرنس کرتے ہوئے کار ڈیلرز ایسوسی ایشن کے رہنما محمد عادل نے کہا کہ کاروں کی درآمد بند ہونے پر احتجاج کررہے ہیں اور ملک گیر سطح پر شوروم بند ہے ۔انہوںنے کہا کہ لوکل گاڑیوں کی قیمت میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے ۔کار ڈیلرز کے ساتھ عوام بھی پریشان ہیں ۔شوروم بند ہورہے ہیں بے روزگاری پھیل رہی ہے ۔ایف بی آر کے ساتھ تنازعے کے بعد سیمنٹ ڈیلرز کی ہڑتال شدت اختیار کرگئی ہے جس کے بعد ملک بھر اور خاص کر پنجاب میںسیمنٹ کی سپلائی شدید متاثر ہوئی ہے ۔سیمنٹ ملک بھر میں سیمنٹ فیکٹریاں یومیہ 140000 سے 150000 ٹن سیمنٹ مارکیٹ میں سپلائی کرتی ہیں جو کہ یکم جولائی کے بعد کم ہو کہ 35 سے 40000 ٹن کی سطح پر آگیا ہے۔سیمنٹ انڈسٹری نے گزشتہ برس قومی خزانے کو 110ارب روپے کا ریونیو دیا تھا ،تاہم حالیہ بحران کے باعث سیمنٹ کی فروخت متاثر ہونے سے حکومت کو یومیہ 30 سے 40 کروڑ روپے کے ریونیو کا نقصان پہنچ رہا ہے یہ ساری صورتحا ل ملکی معیشت کو تالا لگانے کے سوا اور کیا ہے ۔ عوام یہ معلوم کر نا چاہتے ہیں کہ ملک میں اگر سب کچھ بند ہو جائے گا تو پھر عوام کی غربت بے روزگاری میں کس طرح ختم ہو گی،اس سوال کا جواب فوری طور پر حکومت کے پا س نہیں ہے لیکن جواب کے بغیر حکومت کیسے اور کب تک چلے گی ۔ایک ماہ سے جاری بجٹ دھول اُڑنے کا سلسلہ کب بند ہو گا۔ عوام کو کوئی جواب دینے کو تیار نہیں ہے۔