محکمہ ایس جی اینڈ سی اے ڈی میں 1.70 ارب سے زائد کے غیر ضروری اخراجات کا انکشاف

237

 

کراچی ( رپورٹ : محمد انور ) وزیراعلیٰ ہاؤس کے بعد صوبے کے مختلف محکموں میں بھی گزشتہ مالی سال میں اربوں روپے کے بے جا اخراجات کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق صرف محکمہ سروسز جنرل اینڈ کو آردنیشن ڈپارٹمنٹ ( ایس جی اینڈ سی اے ڈی میں ان غیر ضروری اور غیر ترقیاتی امور پر ایک ارب 70 کروڑ 48 لاکھ 30 ہزار 826 روپے سال 2018-19 کے بجٹ سے خرچ کردیے گئے۔دستاویزات کے مطابق افسران سمیت محکمے کے تمام عملے کو بہتر کارکردگی کے نام پر اعزازیہ دیا گیا جس پر مجموعی طور پر 14 کروڑ 85 لاکھ 34 ہزار 980 روپے خرچے کیے گئے۔ حالانکہ مالی بحران کی وجہ سے اس طرح کے مالی انعامات روکے جاسکتے تھے۔ محکمے کی گاڑیوں جس کا کوئی ریکارڈ بھی محفوظ نہیں ہے اور یہ بھی نہیں پتا ہے کہ کونسی گاڑی کس افسر کے
پاس اور کس استعمال میں ہے اس کے باوجود صرف پیٹرولیم مصنوعات کی مد میں 5 کروڑ 97 لاکھ 90 ہزار روپے اخراجات کیے گئے۔ دستاویزات سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ایس جی اینڈ سی اے ڈی میں بھی عدالت عظمیٰ کے حکم کے خلاف کنٹریکٹ پر افسران اور ملازمین خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اور ان کنٹریکٹ افسران پر 4 کروڑ 68 لاکھ 46 ہزار اور کنٹریکٹ پر چھوٹے ملازمین پر 15 لاکھ روپے سالانہ خرچ کیے جارہے ہیں۔ مزکورہ محکمے کے زیراستعمال کاروں کی مرمت و دیکھ بھال پر 8 کروڑ 75 ہزار روپے خرچ کیے گئے جو ایک تشویشناک امر ہے۔ ایس جی اینڈ سی اے ڈی کے محکمے میں نظر نہ آنے والے اخراجات ( ان فورسین ایکسپنڈیچر ) کی مد میں 3 کروڑ 73 لاکھ 9 لاکھ 10 ہزار روپے خرچ کردیے گئے۔ جبکہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ پر نظر نہ آنے والے اخراجات کی مد میں بھی 8 کروڑ 53 لاکھ 64 ہزار روپے خرچ کیے گئے۔ مذکورہ محکمے کے جنریٹر کو چلانے کے لیے پیٹرولیم مصنوعات کی مد میں 2 کروڑ 23 لاکھ 34 ہزار روپے کے اخراجات ظاہر کیے گئے ہیں۔خیال رہے کہ وزیراعلیٰ ہاؤس لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ ہے،اس محکمے نے اخراجات کے لیے ’’ جنرل ادر‘‘ ( General other ) کے نام سے بھی ایک خانہ سامنے آیا ہے جس پر گزشتہ مالی سال میں 66 کروڑ 26 لاکھ 38 ہزار روپے کے اخراجات ظاہر کیے گئے ہیں۔ حکومت سندھ کے ایک سابق بیورو کریٹ نے بتایا ہے کہ ان فورسین اخراجات کا مطلب اس کے مطابق نہیں ہی ہوتا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اخراجات جس کا حساب نہ دیا جاسکے۔ اس افسر کا کہنا ہے کہ ہمارے زمانے میں یہ اخراجات زیادہ سے زیادہ ہزاروں میں ہوا کرتے تھے مگر اب کروڑوں میں ہورہے ہیں تو تشویش کی بات ہے اس پر تحقیقات ہونے چاہیے۔ یادرہے کہ سندھ حکومت گزشتہ 8 سالوں سے مالی بحران کا سامنا کررہی ہے اس کا بجٹ خسارہ 26 ارب روپے سے تجاوز کرچکا ہے۔
محکمہ ایس جی