آئی ایم ایف کے قرضے کی منظوری کے بعد

299

3 جولائی کو آئی ایم ایف کے ایگزیکٹیو بورڈ نے پاکستان کے لیے توسیعی فنڈ سہولت (EFF) کی اسکیم کے تحت توازن ادائیگی کو سہارا دینے کے لیے 3 فی صد سے کم کی شرح سود پر 6 ارب ڈالر کے قرضے کی منظوری دے دی ہے، اِن 6 ارب ڈالر میں سے ایک ارب فوری طور پر جب کہ رواں مالی سال کے اختتام تک مزید ایک ارب ڈالر ملیں گے۔ اس کے علاوہ باقی رقم 39 مہینوں میں قسطوں کی شکل میں ادا کی جائے گی۔ حکومت نے اس قرضے کی منظوری پر اطمینان کا سانس لیا ہے اور عوام کو خوشخبری سنائی ہے کہ اس کے بعد دوسرے بین الاقوامی مالیاتی اداروں مثلاً عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک وغیرہ سے اربوں ڈالر کے رکے ہوئے قرضے ملنا شروع ہوجائیں گے۔
عوام حیران ہیں کہ اسے خوشخبری سمجھیں یا بُری خبر۔ جنہیں مہنگائی کے طوفان کی وجہ سے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہورہا ہے، اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ دکاندار کے لیے دکان کھولنا مشکل، فیکٹری مالکان کے لیے فیکٹری چلانا مشکل، تاجر کے لیے تجارت کرنا مشکل اور کسان کے لیے کاشت کاری مشکل ہوگئی ہے۔ نجی کاروباری اور صنعتی اداروں کے ملازمین کو ہر وقت یہ دھڑکا لگا ہوا ہے کہ کب اُن کی ملازمت ختم ہورہی ہے، کیوں کہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے، ایف بی آر کے نئے قوانین اور ٹیکسوں کی بھرمار کی وجہ سے کارخانے بند ہورہے ہیں۔ کھاد کی بوری پر سبسڈی ختم کردی گئی ہے جس کی وجہ سے قیمت فی بوری 2000 روپے تک پہنچ گئی ہے، اتنی مہنگی کھاد کے ساتھ کاشت کار کیسے فصل لگائے گا اور اگر فصل کاشت ہوگئی تو مہنگی پیداوار کون خریدے گا۔
اب جب کہ آئی ایم ایف کا قرضہ منظور ہوگیا ہے حکومت کو اُن اصل وجوہات پر توجہ دینا ہوگی جو پاکستان کے معاشی مسائل کی جڑ ہیں۔ اِن میں سے ایک بین الاقوامی تجارت میں بہت بڑا خسارہ ہے یعنی ایکسپورٹ کم ہیں اور امپورٹ زیادہ ہیں۔ اس کی وجہ سے پاکستان میں ڈالر کی طلب زیادہ اور رسد (Supply) کم ہے۔ چناں چہ ڈالر پر دبائو بڑھتا ہے اور اس سے ڈالر کی قدر گر جاتی ہے، اس کا حل یہ ہے کہ ایکسپورٹرز کو آسانیاں فراہم کی جائیں، بجلی اور گیس سستی فراہم کی جائے، قرضوں پر شرح سود ختم کی جائے اور ایکسچینج ریٹ میں بے یقینی ختم کی جائے۔ مگر بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت اس معاملے پر کوئی قسم اٹھانے کو تیار نہیں ہے۔ چناں چہ ایکسپورٹ کیسے بڑھیں گی اور اگر نہیں بڑھ سکیں تو تجارتی خسارہ برقرار رہے گا اور ڈالر پر دبائو کم نہیں ہوگا۔
معاشی مسائل کی دوسری وجہ ٹیکس وصولی کا محدود دائرہ ہے، اس وجہ سے ٹیکسوں کی وصولی کم ہوتی ہے، دوسرے الفاظ میں اخراجات زیادہ اور آمدنی کم ہے اور یہ ایک صاف کھلی بات ہے کہ جس گھر، جس کاروبار اور جس ملک کی آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہوں وہ زیادہ عرصے چل نہیں سکتا۔ ٹیکسوں کا بوجھ زیادہ تر کارپوریٹ سیکٹر اور تنخواہ دار طبقے پر ہے پاکستان میں خدمات (Services) کا شعبہ جی ڈی پی میں 60 فی صد ہے جب کہ ٹیکس وصولی میں اس کا حصہ صرف 3 فی صد ہے۔ اس کا مطلب بہت سے ادارے، بہت سے کاروبار اور بہت سے شعبے ٹیکس نیٹ میں شامل ہی نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں ایف بی آر اور دوسرے سرکاری ادارے مختلف اقدامات کررہے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جہاں کاروبار ہی سکڑ رہا ہو، معاشی سرگرمیاں گرتی جارہی ہوں ٹیکس کس طرح جمع ہوگا۔ ساٹھ ستر سال کا بگاڑ کیا ایک سال میں ختم ہوسکتا ہے۔ حکومت نے ٹیکس وصولی میں اضافہ کی کوششوں کے ساتھ سال 2019-20ء کے لیے ہدف 5555 ہزار ارب روپے رکھا ہے جو موجودہ ٹیکس وصولی سے 30 فی صد زیادہ ہے۔ اس سلسلے میں ملک کے نامور اور تجربہ کار ماہرین معیشت متفق ہیں کہ ٹیکسوں کی وصولی کے لیے یہ ہدف غیر حقیقی ہے اور تقریباً ناممکن ہے۔ اس وقت ہم دیکھ رہے ہیں کہ چاہے وہ کارخانے دار ہوں، ٹرانسپورٹرز ہوں، تعمیراتی شعبے سے منسلک افراد ہوں، کار ڈیلرز ہوں یا عام دکاندار سب ہی حکومتی اقدامات کے خلاف احتجاج کرنے اور ہڑتال کرنے کا اعلان کررہے ہیں۔ اس صورت حال میں ٹیکس کس طرح جمع ہوگا۔
اسی طرح حکومت نے بڑے زور و شور سے اعلان کیا تھا کہ دنیا کے مختلف ممالک میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ اکائونٹ ہولڈرز کا ڈیٹا ہمیں مل گیا ہے، یہ وہ لوگ ہیں جن کے ساڑھے سات ارب ڈالر بیرون ملکوں میں جمع ہیں، ہم یہ رقم ملک میں واپس لے کر آئیں گے اور ڈالر کا مسئلہ حل ہوجائے گا مگر حکومت اس اعلان کے بعد کوئی عملی کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ اسی طرح اثاثوں کی ڈیکلریشن پر حکومت نے درخواستیں بھی کیں اور دھمکیاں بھی دیں مگر صرف 70 ارب روپے کا ریونیو حاصل ہوسکا۔ اِن دونوں مثالوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں مہنگائی اور بے روزگاری کا کیا حال ہوگا۔