صنعت و تجارت کے لیے حکومت کوجامع نظام بنانا ہو گا

425

حیدرآباد (کامرس ڈیسک) حیدرآباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹری کے صدر محمد فاروق شیخانی نے کہا ہے کہ امسال بجٹ کے ساتھ منظور شدہ فنانس ایکٹ میں دھاگے کی صنعت پر 17 فیصد ڈیوٹی عائد کردی گئی ہے جس کے سبب دھاگے سے متعلق تمام صنعتیں جن میں ایمبرائیڈی اور کپڑے کی صنعت ہے نے اپنا کاروبار بند کردیا ہے ۔ کیونکہ زیادہ تر دھاگہ باہر سے آتا ہے اور اُس پر 17 فیصد ڈیوٹی عائد کرنے سے اُن کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں جبکہ ملکی عوام اِس قدر قیمت بڑھانے سے خرید پر بالکل تیار نہیں ہے جس کی وجہ سے یہ صنعت تباہ ہو رہی ہے۔ ٹیکسٹائل کی صنعت کو چلانا مہنگی بجلی، مہنگی گیس اور اَب مہنگے میٹریل کے باعث صنعتکاروں کے بس سے باہر ہوتا جارہا ہے اور وہ کوئی دوسرا کام کرنے کی پلاننگ کر رہے ہیں جبکہ اِس سے قبل ٹیکسٹائل کی صنعت نا مساعد حالات میں بھی اپنے پائوں پر کھڑی رہی اور عوام کو نہ صرف لباس کے لیے کپڑا فراہم کرتی رہی بلکہ یہاں سے کپڑا ایکسپورٹ بھی کیا جاتا رہا ہے ، لیکن اَب صنعتکار کی برداشت جواب دے گئی ہے۔ اُنہوں نے وزیر اعظم پاکستان عمران خان، مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ، مشیر صنعت و تجارت عبدالرزاق دائود اور چیئرمین ایف بی آر سے مطالبہ کیا کہ وہ صنعت و تجارت کو بحران سے نکالنے کے لیے ایک مثبت اور جامع پالیسی وضع کرے اور خاص طور پر ٹیکسٹائل کی صنعت کو اپنے پائوں پر کھڑا رہنے کے لیے اُن پر لگائے گئے ٹیکسوں میں کمی لائے، اِس صنعت کے فروغ کے لیے مطلوبہ سہولتیں مہیا کرے اور کپاس کی کاشت بڑھانے کے لیے جنگی بنیادوں پر اقدام کریں اور سُفید کپاس کی زراعت کے لیے ملک میں زمیداروں کو قائل کریں کہ باہر سے سُفید کپاس درآمد نہ کرنی پڑے۔ اُنہوں نے کہا کہ زراعت کے فروغ کے لیے ڈیموں کی تعمیر فوری شروع کی جائے جن سے بھاشاہ ڈیم اور کالا باغ ڈیم ملک و قوم کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔ اِس سلسلے میں تمام صوبوں میں اتفاق رائے کے ذریعے اِس معاملے کو فوری حل کرنے کے اقدام ضروری ہیں یہ مسائل کرپشن سے بھی زیادہ گمبھیر مسائل ہیں جو ہمارا مستقبل ہیں ہماری معاشی ترقی کے لیے ڈیم بنانا زندگی اور موت کا مسئلہ ہے لیکن چند ناعاقبت اندیشوں نے اُسے سیاسی مسئلہ بنا کر نہ جانے ملک سے کیوں بدلا لیا جارہا ہے۔ جبکہ دوسری جانب بھارت ڈیم در ڈیم تعمیر کر رہا ہے ، زراعت میں ترقی پذیر ہوتا جارہا ہے اور صنعت کاری میں بھی بڑھ چکا ہے۔