غزوہ خندق

9139

مفتی تنظیم عالم قاسمی

تا ریخِ اسلام سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ غزوۂ احزاب میں کفار کی مختلف جماعتیں متحد ہوکر مسلمانوں کو ختم کردینے کا معاہدہ کرکے مدینہ پر چڑھ آئی تھیں۔ قرآنِ کریم نے ان متحدہ طاقتوں کی سازشوں کا نقشہ اس طرح کھینچا ہے۔ ترجمہ: ’’دشمن اوپر سے اور نیچے سے تم پر چڑھ آ ئے، جب خوف کے مارے آنکھیں پتھرا گئیں‘ کلیجے منہ کو آگئے اور تم لوگ اللہ کے با رے میں طرح طرح کے گمان کر نے لگے‘‘۔ (الاحزاب: 10)
اس غزوہ کا سبب سیرت نگاروں نے یہ بیان کیا ہے کہ شرارت کی وجہ سے جب نبی کریمؐ نے بنو نضیر کو جلا وطن کردیا اور یہ لوگ مدینہ سے نکل کر خیبر میں قیام پذیر ہوئے تو انھوں نے ایک نہایت مذموم سازش شروع کی، ان کے رؤسا میں سے حُی بن اخطب، سلام بن ابی الحقیق کنانہ بن ربیع وغیرہ 5ھ میں مکہ مکرمہ گئے اور قریش کو مسلمانوں کے استیصال کے لیے جنگ پر آمادہ کیا، دونوں کے آپسی معاہدے کے بعد بنو نضیر کے مذکورہ افراد عرب کے ایک بڑے اور جنگ جْو قبیلے بنو غطفان کے پاس پہنچے اور ان کو خیبر کے نخلستانوں کی نصف پیداوار کی طمع دے کر ہم خیال بنالیا۔ غطفان کے تمام قبائل بھی ساتھ ہوگئے، اس طرح ابو سفیان کم وبیش دس ہزار آدمیوں کی بھاری جمعیت اور وسائل کی فروانی کے ساتھ شوال 5 ہجری میں مدینے کی طرف روانہ ہوا۔ جب نبی کریمؐ کو دشمنوں کی نقل وحرکت کا علم ہوا تو حسبِ معمول آپؐ نے صحابہ کرامؓ سے مشورہ فرمایا، سیدنا سلمان فارسیؓ نے عرض کیا! ہم اہلِ فارس کا دستور یہ ہے کہ ایسے موقع پر خندق کھود کر دشمن سے خود کو محفوظ کرلیتے ہیں اور اس کو مجبور بنا دیتے ہیں۔ نبیِ کریمؐ نے اس مشورے کو قبول فرما کر خندق کھودنے کا حکم دے دیا، مدینہ میں تین جانب سے مکانات اور نخلستان کا سلسلہ تھا جو شہر پناہ کا کام دیتا تھا۔ صرف شامی رخ کھلا ہوا تھا، اس طرف آپؐ نے خود حدود قائم کیں، داغ بیل ڈال کر دس دس آدمیوں پر دس دس گز زمین تقسیم کی گئی، خندق کی کل لمبائی تقریباً ساڑھے تین میل تھی، چوڑائی اتنی تھی کہ ایک تیز رفتار گھوڑا عبور نہ کرسکے اور گہرائی ایک اندازے کے مطابق پانچ گز تھی۔ اس وقت مسلمان فوج کی تعداد کل تین ہزار تھی اور چھتیس گھوڑے تھے، معاملہ بہت سنگین تھا۔ سنگلاخ زمین تھی، موسم سرد تھا، کھانے پینے کے سامان مہیا نہیں تھے، صحابہ کرامؓ نے انتہائی صبر اور استقامت کا ثبوت دیا۔
مسلمان خندق کھود کر فارغ ہوئے تھے کہ ابوسفیان دس ہزار لشکر لے کر احد کے قریب پہنچ گیا، رسولِ اکرمؐ بھی تین ہزار مسلمانوں کے ہمراہ مقابلے کے لیے کوہ سلع کے قریب جاکر ٹھہرے، تمام بچوں اور عورتوں کو مدینہ کے ایک قلعے میں محفوظ کردیا اور مسلمانوں کے درمیان خندق حائل تھی، جب ابو سفیان کو خندق کا علم ہوا تو بے اختیار بول اٹھا۔
’’اللہ کی قسم! یہ ایک زبردست تدبیر ہے جسے عرب نہ جانتے تھے‘‘۔
معاملہ بہت سخت تھا، سامنے سے کفار اور دیگر قبائل کی بھاری فوجیں تھیں اور پیچھے سے بنو قریظہ کا خوف، اس پر منافقین کی سرگرمیاں اور تیز ہوگئیں اور انھوں نے اہل ایمان کے حوصلے پست کرنے کے لیے طرح طرح سے نفسیاتی حملے شروع کیے، اس طرح صورت حال بھیانک ہوچکی تھی۔ شدید آزمائش کا وقت تھا، تقریباً ایک مہینہ گزر گیا نہ کھل کر فیصلہ کن جنگ ہوتی اور نہ کسی وقت بے فکری، شب وروز صحابہ کرامؓ بھوکے پیاسے خندق کی نگرانی کرتے تھے، اگرچہ رسول اکرمؐ بنفسِ نفیس اس محنت ومشقت میں شریک تھے مگر صحابہ کرامؓ کے اضطراب وبے چینی کا آپ کو شدید احساس تھا؛ اس لیے آپؐ نے ایک دن ارادہ کیا کہ بنو غطفان کو مدینہ طیبہ کا ایک تہائی پھل دے کر ان کو میدان سے واپس کردیا جائے، مشورے کے طور پر قبیلہ اوس و خزرج کے دو بزرگ سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہؓ سے اس کا ذکر کیا، تو دونوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! اگر یہ حکم الٰہی ہے تو قبول ہے ورنہ ہمیں ان سے مصالحت کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ ہم ان کو تلوار کے سوا کچھ نہیں دیں گے، رسول اللہؐ نے ان کی اولوالعزمی اور غیرت ایمانی کو دیکھ کر اپنا ارادہ ترک فرمایا؛ کیونکہ یہ اللہ کا حکم نہیں بلکہ پیغمبرؐ کی ایک جنگی تدبیر تھی۔ ایک روز مقابل کفار نے تیر اندازی اور پتھراؤ کے ذریعے اجتماعی طور پر اتنی شدت سے حملہ کیا کہ رسولؐ اور صحابہ کرامؓ کی چار نمازیں قضا ہوگئیں، اسی دن عرب کے چند مشہور بہادر خندق عبور کرکے مسلمانوں کی طرف آگئے تھے جن میں عمرو بن عبدود اور نوفل بن عبداللہ وغیرہ شامل تھے، سیدنا علیؓ مقابلے میں نکلے اور عمرو بن عبدود کو جہنم رسید کیا، نوفل بھاگتے ہوئے خندق میں گرا، اسے بھی سیدنا علیؓ نے مار ڈالا، کفار نے نوفل کی لاش قیمت کے بدلے طلب کی؛ لیکن رسولؐ نے مفت دے دی۔ مستورات جس قلعے میں تھیں، وہاں تک ایک یہودی موقع پاکر پہنچ گیا۔ آپؐ کی پھوپھی سیدہ صفیہؓ کی نگاہ پڑی، تو خیمہ کی ایک لکڑی سے اس زور سے اس کے سر پر ضرب لگائی کہ موقع پر ہی ہلاک ہوگیا۔ محاصرہ جس قدر طول ہوتا جاتا تھا اسلام دشمن فوجوں کی ہمت گھٹتی جارہی تھی، اسی درمیان غیبی مدد کے طور پر قبیلہ غطفان میں سے ایک شخص نعیم بن مسعود نے اسلام قبول کرلیا، پھر نبی اکرمؐ کے مشورے سے انھوں نے ایسی تدبیر کی کہ قریش اور بنو قریظہ میں پھوٹ پڑگئی اور بنو قریظہ قریش کی امداد سے دست بردار ہوگئے۔ اس طرح افواج کفار کی طاقت کمزور پڑ گئی، دوسری مصیبت یہ آئی کہ اللہ تعالیٰ نے ایک سخت اور سرد ہوا ان پر مسلط کردی جس نے ان کے خیمے اکھاڑ پھینکے، ہنڈیاں چولہوں سے الٹ دی، غبار اُڑ اُڑ کر آنکھوں میں بھرنے لگا، جس سے کفار کا تمام لشکر سراسیمہ ہوگیا۔ اس غیبی مدد کا ذکر قر آنِ کریم نے اس طرح بیان کیا ہے۔ ترجمہ: ’’جب لشکر تم پر چڑھ آئے تو ہم نے ان پر ایک سخت آندھی بھیج دی اور ایسی فوجیں روانہ کیں جو تم کو نظر نہ آتی تھیں اور اللہ وہ سب کچھ دیکھ رہا تھا جو تم لوگ اس وقت کر رہے تھے‘‘۔ (الاحزاب: 9)
سیدنا حذیفہؓ جن کو آپؐ نے کفار کے لشکر کا پتا لگانے بھیجا تھا، ان کا بیان ہے کہ آندھی اور طوفان کے بعد ابوسفیان نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اب یہ ٹھہرنے کا مقام نہیں ہے، ہمارے جانور ہلاک ہوگئے، چلنا پھرنا، اٹھنا، بیٹھنا مشکل ہوگیا ہے، بنوقریظہ نے بھی ہمارا ساتھ چھوڑ دیا؛ اس لیے اب گھر واپس چلو! یہ کہہ کر ابوسفیان اونٹ پر سوار ہوا اور چل دیا، دیگر تمام فوجیں بھی واپس ہوگئیں، اس طرح مسلمانوں کو طویل مشقت کے بعد فتح حاصل ہوئی۔ رسول اکرمؐ کو جب کفار کے جانے کی اطلاع ملی تو فرمایا:
’’اب ہم ان پر حملہ آور ہوں گے، وہ ہم پر چڑھائی نہیں کرسکیں گے ہم ہی ان پر حملے کے لیے چلیں گے‘‘۔
چنانچہ بعد میں ایسا ہی ہوا یعنی کفر میں اتنی طاقت نہیں رہی کہ وہ مسلمانوں پر حملے کے لیے اقدام کرسکے۔ اس کے بعد رسولِ اکرمؐ صحابہ کرامؓ کے ساتھ حمد وثنا بیان کرتے ہوئے مدینہ واپس ہوگئے۔