تکریم خواتین

287

ڈاکٹر عبیداللہ فہد فلاحی

رسول اکرمؐ نے اپنی احادیث میں خواتین کی تکریم و توقیر کی تعلیم دی، اْن کے ساتھ عفو و درگزر کا رویہ اپنانے کی تلقین کی اور اْن سے حسنِ سلوک کرنے کا حکم دیا۔ ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: عورت پسلی کی طرح ہوتی ہے۔ اگر اسے سیدھا کرو گے تو ٹوٹ جائے گی اور اگر اْسی طرح اس سے استفادہ کرنا چاہو تو استفادہ کرسکتے ہو، کیونکہ اس کے اندر ٹیڑھا پن موجود ہے۔ (بخاری)
بعض حضرات اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ عورت پیدائشی طور پر اپنی خلقت کے اعتبار سے ٹیڑھی ہوتی ہے اس لیے وہ فروتر اور کم رْتبہ ہے۔ یہ حدیث کا غلط مطلب نکالنا ہے۔ فحواے کلام بتا رہا ہے کہ خواتین سے دھینگا مشتی کرنے، ان کے ساتھ جبر وتشدد کا رویہ اختیار کرنے سے منع کیا جا رہا ہے۔ خواتین میں منفعل المزاجی، جذباتیت، اثرپذیری میں سْرعت اور وسعت زیادہ ہوتی ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے خواتین سے معاملہ کرتے وقت اْن کی اس فطرت کا لحاظ کرنے اور اْن کے ساتھ چشم پوشی اور رافت و رحمت کا سلوک کرنے کا حکم دیا۔ پسلی کی ہڈی ٹیڑھی ہوتی ہے اور سخت بھی۔ اگر زبردستی اسے سیدھا کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ ٹوٹ جائے گی۔ اللہ نے عورتوں کو منفرد خصوصیات اور ممتاز اوصاف سے ہمکنار کیا ہے۔ ان کی بھرپور رعایت کرنا ضروری ہے۔ ایک دوسری حدیث میں زیادہ صراحت کے ساتھ یہ مثال موجود ہے۔ ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ نبیؐ نے فرمایا:
جو شخص اللہ پر اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اْس پر لازم ہے کہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے۔ عورتوں کے ساتھ نیکی کرنے کے بارے میں میری وصیت قبول کرو۔ وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہیں اور سب سے اْوپر والی پسلی سب سے زیادہ ٹیڑھی ہوتی ہے، اگر تم اسے سیدھا کرنے لگو گے تو اسے توڑ دو گے اور اگر اْسے اس کے حال پر چھوڑ دو گے تو وہ ٹیڑھی رہے گی، اس لیے عورتوں کے ساتھ حْسنِ سلوک کے بارے میں میری وصیت قبول کرو۔ (بخاری)
رسول اکرمؐ کی یہ تعلیم بہت اہم ہے۔ اس میں خواتین کے مزاج، ان کی سرشت اور طبیعت کا بھرپور اِدراک ہے۔ اْن کی نفسیات اور طبعی خصوصیات پر بہترین روشنی اس میں ڈالی گئی ہے۔ عام طور پر مرد جفاکش، طاقت ور، قوتِ مزاحمت اور قوتِ دفاع کا مالک ہوتا ہے۔ وہ بزور اپنی بات منواناچاہتا ہے۔ عورت رقیق ولطیف مزاج کی حامل ہوتی ہے۔ محبت و عقیدت اور سرفگندگی اس کی فطرت کا ناگزیر حصہ ہوتی ہے۔ مرد اپنی مردانگی کے زعم میں عورت کے لطیف جذبات کی پروا نہیں کرتا۔ وہ دھونس دھاندلی اور جبر واِکراہ سے عورت کو خاموش کرنا چاہتا ہے اور اسے مجبور کر کے اپنے مطالبات تسلیم کرواتا ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے ہدایت دی کہ خواتین اپنی جبلت، خلقی فطرت اور مزاجی ساخت کی بنا پر تکریم و توقیر کی زیادہ سزاوار ہیں۔ اگر ان کی فطرت اور ساخت کو بزور بدلنے کی کوشش کی گئی تو وہ ٹوٹ جائیں گی۔ اْن کی صلاحیتیں ختم ہوجائیں گی اور معاشرے کی تعمیر میں اْن کا کردار صفر ہوکر رہ جائے گا۔ اْن کی قابلیت اور صلاحیت سے فائدہ اْٹھانا ہے اور بہتر سماج کی تشکیل میں ان کی حصے داری کو یقینی بنانا ہے تو اْن کے مزاج، طبعی ساخت اور صنفی خصوصیات کی بھرپور رعایت رکھو۔ اللہ کے رسولؐ نے اس کی وضاحت بھی کردی کہ میں اْن کے ساتھ ہرحال میں حْسنِ سلوک کرنے اور بھلائی کا معاملہ کرنے کا حکم دیتا ہوں۔ اگر تمھیں اپنی خواتین کے اندر کوئی کجی، ضد اور انانیت کی کوئی رمق نظر آئے تو اشتعال انگیزی اور پْرتشدد کارروائی سے بچو۔ محبت، عفوودرگزر اور حْسنِ سلوک سے انھیں اپنانے اور اْن کا دل جیتنے کی کوشش کرو کیونکہ اگر اْن کا شیشۂ دل ٹوٹ گیا تو خاندان ٹوٹ جائے گا، سماج بکھر جائے گا اور انسانیت ختم ہوجائے گی۔
اللہ کے رسولؐ نے خواتین کے وجود کو پسندیدہ اور محبوب قرار دیا بالکل خوشبو کی طرح۔ کیونکہ عورتوں کا وجود ہی تصویر کائنات میں رنگ بھرتا اور اْسی کے ساز سے سوزِدروں قائم رہ سکتا ہے۔ آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہونے کا اعلان کر کے اللہ کے رسول نے قلبی سکون و اطمینان کا مخزن بتا دیا کہ ذکرالٰہی سے ہی حقیقی مسرت اور شادمانی حاصل ہوتی ہے۔