افکار سید ابو الا علی مودودیؒ

265

قرآن کہتا ہے…
قرآن کہتا ہے کہ اللہ کے سوا کسی کو الٰہ نہ بناؤ۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم نے بتوں اور دیوتاؤں کو چھوڑ دیا ہے لہٰذا قرآن کا منشا پورا کر دیا، حالانکہ الٰہ کا مفہوم اور جن جن چیزوں پر عائد ہوتا ہے ان سب کو وہ اچھی طرح پکڑے ہوئے ہیں اور انہیں خبر نہیں ہے کہ ہم غیر اللہ کو الٰہ بنا رہے ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ اللہ کے سوا کسی کو رب تسلیم نہ کرو۔ لوگ کہتے ہیں کہ بے شک ہم اللہ کے سوا کسی کو پروردگار نہیں مانتے لہٰذا ہماری توحید مکمل ہوگئی، حالانکہ رب کا اطلاق اور جن مفہومات پر ہوتا ہے ان کے لحاظ سے اکثر لوگوں نے خد اکی بجائے دوسروں کی ربوبیت تسلیم کر رکھی ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ طاغوت کی عبادت کو چھوڑ دو اور صرف اللہ کی عبادت کرو۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہم بتوں کو نہیں پوجتے، شیطان پر لعنت بھیجتے ہیں، اور صرف اللہ کو سجدہ کرتے ہیں، لہٰذا ہم نے قرآن کی یہ بات بھی پوری کردی، حالانکہ پتھر کے بتوں کے سوا دوسرے طاغوتوں سے وہ چمٹے ہوئے ہیں اور پرستش کے سوا دوسری قسم کی تمام عبادتیں انہوں نے اللہ کی بجائے غیر اللہ کے لیے خاص کر رکھی ہیں۔ یہی حال دین کا ہے کہ اللہ کے لیے دین کو خاص کرنے کا مطلب صرف یہ سمجھا جاتا ہے کہ آدمی’’مذہب اسلام‘‘ قبول کرلے اور ہندو یا عیسائی یا یہودی نہ رہے۔ اس بنا پر ہر وہ شخص جو ’’مذہب اسلام‘‘ میں ہے یہ سمجھ رہا ہے کہ میں نے اللہ کے لیے دین کو خالص کر رکھا ہے، حالانکہ دین کے وسیع تر مفہوم کے لحاظ سے اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن کا دین اللہ کے لیے خالص نہیں ہے۔
٭…٭…٭
طاغوت
طاغوت کی عبادت سے مراد طاغوت کی غلامی اور اطاعت ہے، جیسا کہ اس سے پہلے ہم اشارہ کر چکے ہیں، قرآن کی اصطلاح میں طاغوت سے مراد ہر وہ ریاست و اقتدار اور ہر وہ رہنمائی و پیشوائی ہے جو خدا سے باغی ہوکر خدا کی زمین پر اپنا حکم چلائے اور اس کے بندوں کو زور وجبر سے یا تحریص و اطماع سے یا گمراہ کن تعلیمات سے اپنا تابع امر بنائے۔ ایسے ہر اقتدار اور ایسی ہر پیشوائی کے آگے سرتسلیم خم کرنا اور اس کی بندگی اختیار کر کے اس کا حکم بجا لانا طاغوت کی عبادت ہے۔
٭…٭…٭
عبادت، غلامی
اسلام سے پہلے عرب کے لوگ اپنے مذہبی پیشواؤں کے احکام اور اپنے آبا واجداد کے اوہام کی پیروی میں کھانے پینے کی چیزوں کے متعلق طرح طرح کی قیود کی پابندی کرتے تھے۔ جب ان لوگوں نے اسلام قبول کر لیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’اگر تم ہماری عبادت کرتے ہو، تو ان ساری پابندیوں کو ختم کرو اور جو کچھ ہم نے حلال کیا ہے اسے حلال سمجھ کر بے تکلف کھاؤ پیو‘‘ اس کا صاف مطلب ہے کہ تم اپنے پنڈتوں اور بزرگوں کے نہیں بلکہ ہمارے بندے ہو اور اگر تم نے واقعی ان کی اطاعت و فرمانبرداری چھوڑ کر ہماری اطاعت و فرمانبرداری قبول کی ہے تو اب تمہیں حلّت وحرمت اور جواز وعدم جواز کے معاملے میں ان کے بنائے ہوئے ضابطوں کی بجائے ہمارے ضابطے کی پیروی کرنا ہوگی۔ لہذا یہاں بھی عبادت کا لفظ غلامی اطاعت کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ (قرآن کی چار بنیادی اصطلاحات)