افغانستان، قیام امن کی کاوشیں

451

افغانستان کے حوالے اگر ایک طرف طالبان کی بڑھتی ہوئی کاروائیوں کے نتیجے میں بدامنی اور خون خرابے میں اضافے کی پریشان کن خبریں سامنے آ رہی ہیں تو دوسری جانب مستقل قیام امن کے لیے متحارب فریقین اور افغان قضیے کے تمام اہم اسٹیک ہولڈرز ماسکو سے لیکر بیجنگ اور دوحہ سے لیکر مری تک مذاکرات اور بات چیت میں بھی مصروف نظر آتے ہیں جس سے یہ امید بندھ جاتی ہے کہ حالات ابھی اتنے بھی خراب نہیں ہوئے جتنا کہ اس حوالے سے پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کا ایک مظاہرہ پچھلے دنوں مری بھوربن کانفرنس کی صورت میں دیکھنے کو ملا ہے جس میں ڈیڑھ درجن سے زائد افغان تنظیموں اور نمایاں شخصیات کی پاکستان کی میزبانی میں شرکت سے یہ بات ایک بار پھر ثابت ہوگئی ہے کہ پاکستان افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے سنجیدہ ہی نہیں ہے بلکہ وہ اس ضمن میں ہر حد تک جانے کے لیے بھی تیار ہے کیونکہ اس بات میں کسی شک وشبے کی گنجائش نہیں ہے کہ افغانستان میں قیام امن سے نہ صرف پاکستان کا امن وابستہ ہے بلکہ اس پورے خطے کے استحکام اور ترقی کا دارومدار بھی افغانستان میں مستقل اور پائیدار امن پر ہے جس کاتازہ ثبوت پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا مری کانفرنس سے خطاب میں یہ کہنا ہے کہ پاکستان نے انتہائی خوش دلی، نیک نیتی اور مشترکہ ذمے داری کے احساس کے ساتھ افغانستان میں امن عمل کے لیے سہولت بہم پہنچانے کا کردار ادا کیا ہے۔ ان کاکہنا تھا کہ امن کی تازہ کوششوں نے نئے مواقع پیدا کیے ہیں۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہم یہ موقع ہاتھ سے جانے نہ دیں کیونکہ ہم اس موقع کو ضائع کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم عدم مداخلت، باہمی احترام اور یکساں مفاد کے اصولوں پر مبنی دو طرفہ تعلقات استوار کرنے کے خواہاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم افغانستان اور عالمی برادری کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہیں تاکہ ایسے سازگار حالات پیدا ہوں جن میں افغان مہاجرین کی باعزت، محفوظ اور رضاکارانہ واپسی کے مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکے۔
کانفرنس میں سابق وزیر اعظم اور حزب اسلامی کے امیرانجینئر گلبدین حکمت یار کے علاوہ اہم سیاسی رہنمائوں قومی سلامتی کے سابق مشیر اور موجودہ صدارتی امیدوار حنیف اتمر، احمد ولی مسعود، کریم خلیلی، عطا محمد نور، استاد محقق اور کئی دیگر زعماء نے بھی شرکت کی۔ افغان امور کے ماہرین وزیر اعظم عمران خان کی دعوت پر افغان صدر اشرف غنی کے اسلام آباد کے دورے سے قبل مری کانفرنس کو افغان امن عمل کے لیے ایک اہم پیش رفت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ واضح رہے کہ افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کے سلسلے میں چند دن قبل چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان لوکھانگ نے میڈیا کو بتایا ہے کہ افغانستان میں امن مذاکرات کو کامیابی سے ہم کنار کرنے کے لیے چین ہر ممکن مدد کو تیار ہے اور اس ضمن میں چین افغان طالبان کے سیاسی نمائندے ملا برادر اخوند کو چینی سرزمین پر خوش آمدید کہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملا برادر اخوند چین میں متعلقہ حکام سے اپنے تحفظات امن مذاکرات کی بحالی اور انسداد دہشت گردی پر جامع تبادلہ خیال کریں گے۔ چین ملابرادر کی جانب سے افغانستان کے لیے کی گئی پوزیشن پر تبادلہ خیال کرے گا۔ لوکھانگ نے مزید کہا کہ چین کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ چین نے ہمیشہ افغانستان کے امن عمل کو سراہا ہے اور انسداد دہشت گردی کے لیے ہر تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے۔ چین متعلقہ فریقین کے مابین مذاکراتی عمل کا ہمیشہ ہی سے حامی رہا ہے اور مختلف ذرائع سے اس عمل میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتا رہا ہے۔ ترجمان نے مزید کہا کہ چین امید کرتا ہے کہ متعلقہ فریقین افغانستان کو درپیش مسائل پر مذاکراتی عمل جاری رکھیں گے اور اپنے ملک کے امن واستحکام اور ترقی کے لیے مل کر کردارادا کریں گے۔ دوسری جانب افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے ابھی چند دن قبل روس کے شہر اوفا میں پاکستان، روس، چین، بھارت، ایران اور افغانستان کے سیکورٹی سے متعلق نمائندوں کا ایک اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوا ہے جس میں ان چھ ممالک نے افغانستان کی سلامتی کو درپیش چیلنجوں اور خطرات حل کرنے کے لیے مشترکہ کوششوں کی اہمیت پر اتفاق کیا ہے، اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ افغانستان کے حوالے سے آئندہ وسیع کثیر الجہتی مشاورت تہران میں کی جائے گی۔
دریں اثناء ایک اعلیٰ امریکی تحقیقاتی ادارے اسپیشل انسپکٹر برائے افغانستان تعمیرنو (SIGAR) نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ گزشتہ اٹھارہ ماہ کے دوران افغان سیکورٹی فورسز کی تشکیل نو و تربیت کے عمل کو بین الاقوامی فورسز کے درمیان عدم تعاون کی وجہ سے شدید نقصان پہنچا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق 83 بلین ڈالر خرچ کیے جا چکے ہیں اور مطلوبہ نتائج اب تک برآمد نہیں ہو سکے ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ اس وقت کوئی بھی فرد یا ادارہ اس عمل کو آگے بڑھانے کے لیے موجود نہیں ہے۔ افغانستان میں مستقل قیام امن پر بات کرتے ہوئے ہمیں یہ تلخ حقیقت نہیں بھولنی چاہیے کہ امن کا راستہ آسان نہیں ہے، جامع معاہدہ طے پانے اور تمام فریقوں کی جانب سے اس کی قبولیت سے قبل بہت سے چیلنجز اور مشکلات درپیش ہیں جن سے نمٹنے کے لیے تمام فریقوں کو قیام امن کا عہد کرنا ہوگا۔ توقع ہے کہ آئندہ ماہ امریکا اور طالبان کے درمیان دوحہ بات چیت کا آٹھواں دور نہ صرف متذکرہ بالا کاوشوں کا تسلسل ثابت ہوگا بلکہ اس کے نتیجے میں امن کی منزل بھی مزید قریب تر ہو سکے گی۔