ملک میں جمہوریت اور آمریت کا فرق صرف وردی کی حد تک ہے ؟

555

قموس گل
خٹک
پہلے زمانے میں مزدور رہنمائوں پر زیادہ تر صنعت کاروں اور حکومتوں کے نمائندے گھیراؤ جلاؤ اور طاقت کے استعمال کا الزام لگایاکرتے تھے حالانکہ یہ الزامات حقائق پر مبنی نہیں ہوتے تھے مگر حکمرانوں کی پشت پناہی اور میڈیا کی حمایت سے سرمایہ دار ٹریڈ یونین کو بدنام کرکے اپنے طبقاتی مفادات کا تحفظ کیا کرتے تھے۔ پھر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کے دور میں یہ صورتحال کسی حدتک تبدیل ہوئی اور انہوں نے اہم قومی معاملات پر دیگر پیشہ ور تنظیموں کے ساتھ ساتھ ٹریڈ یونین کے رہنمائوں کو بھی مشاورت کے لیے بلانے کا سلسلہ شروع کیا۔ کچھ دوستوں کا خیال تھا کہ اس پالیسی کے پیچھے عمر اصغر خان مرحوم کی سوچ کار فرماتھی اور جب انہیں نامعلوم قاتلوں نے شہید کردیا تو پرویز مشرف صاحب نے ٹریڈ یونین رہنمائوں سے مشاورت کا سلسلہ ترک کردیا تھا لیکن مجھے یاد ہے کہ جناب احسان اللہ خان کی قیادت میں ورکرز ایمپلائیر بائی لیٹرل کونسل آف پاکستان کی تشکیل بھی اسی دور میں ہوئی تھی اور اس تنظیم کو حکومت کی پذیرائی بھی حاصل رہی اس وقت اس کونسل کے سیکرٹری جنرل سینئر مزدور رہنما ملک شفیع صاحب تھے اور پرویز مشرف صاحب نے اسلام آباد میں سخت حفاظتی انتظامات کرکے اس تنظیم کا اجلاس بلایا تھا جس میں حکومتی نمائندوں کے علاوہ صنعت کاروں اور مزدوروں کے نمائندے بھی شامل تھے میں خود اس اجلاس میں شریک تھا جس میں ملک کی انڈسٹری اور مزدور طبقے کو درپیش بنیادی مسائل پر غور کیا گیا۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ اس اجلاس میں مزدور نمائندوں نے بہتر لیبر قوانین کے نفاذ پر زور دیا تھا جس کا جواب دیتے ہوئے پرویز مشرف صاحب نے فرمایا تھا کہ اگر صنعت کاروں اور مزدورنمائندوں کی یہ تنظیم لیبر قوانین کا مسودہ لے کر حکومت کے پاس آتی ہے تو حکومت کو ایسے قانون کی منظوری پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے کیونکہ لیبر قوانین کا تعلق تو صنعت کاروں اور مزدوروں سے ہوتا ہے حکومت کو صرف انڈسٹری کا فروغ اور صنعتی امن درکار ہے یہ ایک شخصی اور آمرانہ دور کہلایا جاتا تھا جس میں ریفرنڈم کرانے کے لیے بھی مزدور رہنماوں کو مشارت کے لیے بلایا گیاتھا اس دور میں صنعتی مزدوروں کو سہ فریقی ویلفیئر اداروں سے ریکارڈ اور تاریخی مالی سہولیات کسی تاخیر اور رشوت کے بغیر ملے ہیں۔ جب ملک میں تباہ کن زلزلہ آیا تھا تو ورکرز ویلفیئر فنڈ اسلام آباد نے اس زلزلے سے متاثرہ مزدوروں کو 50ہزار کے حساب سے ان کے بینک اکاونٹ میں بطور مدد بھجوائے تھے۔ ڈیتھ گرانٹ کی رقم مرحومین صنعتی کارکنوں کی بیواؤں یا قانونی وارثوں کو 3ماہ کے اندر مل جاتی تھی جہیز گرانٹ اور اسکالر شپ چاروں صوبوں کے صنعتی کارکنوں کو صوبائی ورکرز ویلفیئر بورڈ کی سفارش پر ہر سال دی جاتی تھی۔ مکانات اور فلیٹس کے الاٹمنٹ میں کرپشن کا تصورنہیں ہوتا تھا ورکرز ماڈل اسکولوں میں زیر تعلیم مزدوروں کے بچوں کو یونیفارم جوتے جرسیاں کتابیں وغیرہ بروقت ملتی تھی اور ان اسکولوں کو بہتر بنانے اور نئے اسکول کھولنے پر خصوصی توجہ رکھنا ورکرز ویلفیئر فنڈ کی پالیسی تھی لیکن آمریت کے خاتمے اور جمہوریت کا سورج طلوع ہونے کے بعد سفید پوش ڈکٹیٹر وں کی نظر سب سے پہلے سہ فریقی ویلفیئر اداروں کے فنڈ ز پر پڑی۔ جو مزدوروں کی فلاح وبہبود کے لیے صنعت کاروں سے جمع کی جاتی ہے یہاں یہ مثال دینا ٹھیک اور مناسب لگتا ہے کہ دودھ کے تحفظ پر بلی کو مامور کیا گیا۔ چنانچہ ان سفید پوش ڈکٹیٹروں نے اس فنڈز کو منتشر اور بے زبان مزدوروں پر خرچ کرنے کے بجائے ٹھکانے لگانے کی حکمت عملی تیار کرنے پرتوجہ مرکوز کی۔ سب سے پہلے حکمرانوں نے ان اداروں کے گورننگ باڈی یا بورڈ میں اپنے سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے صنعت کاروں اور مزدور نمائندوں کو نامزد کرنے کافیصلہ کیا تاکہ سہ فریقی ویلفیئر اداروں سے مالی مراعات حاصل کرنے کے طریقوں کو مشکل بناکر مزدوروں کے لیے اس کا حصول ناممکن بنائے جوپہلے آسان اور شفاف طریقوں سے مل جایا کرتے تھے۔ ورکرز ویلفیئر فنڈ میں ویلفیئر اسکیموں سے مالی مراعات کے طریقوں کو ناقابل عمل شرائط عائدکرکے اس قدر مشکل بنادیا کہ رشوت دیے بغیر کسی بیوہ یا عام آدمی کے لیے اس کا حصول ممکن نہیں رہا۔ ای او بی آئی کے حکام نے مسلسل ریٹائرڈ معذور مزدوروں یا مرنے کے بعد ان کے وارثوں کے لیے وہ پنشن بھی ناممکن بنادی جس کو ہاتھی کے منہ میں زیرہ کہا جاسکتا ہے جتنی ترامیم آرہی ہیں وہ منفی اور ان کا مقصد صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ ای او بی آئی کافنڈ صرف اس ادارے کے افسران کی فلاح وبہبود اور عیاشیوں پر خرچ ہو گا۔ اگر آپ مزدوروں کے اس ادارے کے محل نما عالیشان دفاتر ان میں کھڑی ہوئی لگژری گاڑیوں اور افسران کوملنے والے مراعات کو دیکھیں گے تو آپ کو محسوس ہوگا کہ آپ نیو یارک لند ن یا کسی عرب شیخ کی ریاست میں آگئے ہیں۔ پھر صوبائی خود مختاری کے نام پر اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد تو صنعتی مزدوروں کو سہ فریقی ویلفیئر اداروں سے ملنے والے یہ مراعات شیر کے منہ میں منہ چلے گئے اب کس کی ہمت اور مجال کہ شیر کے منہ میں ہاتھ ڈال کر یہ مراعات مظلوم مزدوروں کو دلوانے کی جرات کرسکے۔ سندھ میں 2010سے مرنے والے صنعتی مزدوروں کی بیواؤں یا قانونی وارثوں کو ابھی تک ڈیتھ گرانٹ کے کلیم نہیں ملے۔ اور نہ اس کی توقع کی جاسکتی ہے۔ جس ڈپٹی ڈائریکٹر ویلفیئر پر سکھر ریجن میں کروڑوں روپے کے جعلی مزدوروں کو چیک دینے کا الزام ہے اور وزیر محنت سندھ کے تشکیل کردہ انکوائری کمیٹی نے تحقیقات کے بعد متفقہ طورپر قرار دیا ہے کہ جن مزدوروں کے نام پر یہ چیک دیے گئے ہیں وہ کسی صنعتی ادارے کے ملازم نہیں تھے ۔اس تحقیقاتی کمیٹی کا سربراہ ایڈیشنل سیکرٹری لیبر سندھ ہے۔ مگر اس انکوائری رپورٹ پر کارروائی کرنے کے بجائے وہی افسران ورکرز ویلفیئر بورڈ کے تمام ویلفیئر اسکیموں کے کرتا دھرتابنے بیٹھے ہیں ورکرز ویلفیئر بوڈ سندھ کے سیکرٹری محمد آصف میمن سے مزدور رہنما اور صنعتی مزدور توقع ضرور رکھتے ہیں کہ وہ نہ صرف سکھر ریجن جعلی مزدوروں کے نام پر چیکوں کی تقسیم پر ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کریں گے۔ بلکہ سالہا سال سے پینڈنگ ڈیتھ گرانٹ کلیموں کے اہم انسانی مسئلے کو بھی حل کرائیں گے۔ جہاں تک ہمارے ملک میں جمہوریت اور ڈکٹیٹر شپ کا
موازنہ ہے ملک کی تاریخ اور حقائق یہ بتاتے ہیں کہ مزدور طبقے کو آمرانہ دور میں ہی ویلفیئر اداروں سے زیادہ مراعات ملی ہیں۔ مزدور طبقہ اور اس کے رہنما نظر یاتی طورپر جمہوریت کے حامی ہیں مگر جمہوریت کے نام پر انجمن سازی کے حق اور تمام مراعات سے محرومی کو ہر گز قبول نہیں کریں گے۔ اگر پرویز مشرف جنرل ضیا الحق مزدور رہنمائوں سے مشاورت کیا کرتے تھے تو آج سفید لباس پہنے ڈکٹیٹروں کی حکومت میں صوبائی وزیر محنت بھی مزدور رہنمائوں سے مشاورت کرنے یا ملاقات کرنے کو تیار نہیں بلکہ وہ صرف اپنے پارٹی سے وابستہ مزدور لیڈروں کو ہی مزدور تحریک سمجھتے ہیں اور تمام ویلفیئر اداروں کے گورننگ باڈی یا بورڈ پر اپنے سیاسی حمایتی ارکان کو مسلط کررکھا ہے کیا ان میں حبیب الدین جنیدی صاحب کے علاوہ کوئی مزدور لیڈر یا صنعتی کارکنوں کے نمائندگی کا مستحق ہے؟ یا یہ صرف اس لیے کیا جارہاہے کہ حکومت کے ہر تجویز کو بغیر کسی مخالفت کے منظورہے کہلوایا جائے کتنے افسوس کی بات ہے کہ سال 2010 سے ملازمتوں میں جاں بحق مزدوروں کی بیوائیں ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر مر گئی ہیں مگر انہیں زندگی میں جاں بحق شوہر کا ڈیتھ گرانٹ کلیم نہیں ملا۔ ریجنل وائز اسکروٹنی سب کمیٹیاں ختم کرکے پورے سندھ کے لیے کراچی سے حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے افراد کو ان کمیٹیوں میں نامزد کیاگیا جو ون یونٹ کا منظر پیش کررہاہے مگر حکمران وفاق سے اپنے مقاصد کے لیے صوبائی خودمختاری کے بڑے وکیل بنے ہوئے ہیں۔ آنے والے دنوں میں خطرہ ہے کہ کسی مزدور کی بیوہ سندھ سکرٹریٹ کے سامنے ڈیتھ گرانٹ کے لیے خودکشی نہ کرے۔ اگر ایسا ہوا تو آزاد میڈیا کی موجودگی میں سندھ کے حکمرانوں کو جواب دینا مشکل ہوجائے گا۔ خدا کرے ایسانہ ہو۔ مگر بے سہارا ضرورت مند مرنے والے صنعتی کارکنوں کے وارث کب تک ڈیتھ گرانٹ کلیم کا انتظار کرسکتے ہیں۔
پاکستان اسٹیل کی وضاحت
روزنامہ جسارت،کراچی میں مورخہ 24 جون کو پاکستان اسٹیل فیبریکیٹنگ کمپنی میں چوریوں کے حوالے سے شائع شدہ خبر کی سختی سے تردید کرتے ہوئے ترجمان پاکستان اسٹیل نے کہا ہے کہ مذکورہ خبر میں غلط اعداد و شمار کے ساتھ ، جھوٹے و بے بنیاد الزامات لگائے گئے ہیں۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان اسٹیل فیبریکیٹنگ کمپنی میں کسی قسم کی چوری نہیں ہو رہی ۔ تمام قسم کی مصنوعات کی خرید و فروخت باقاعدہ قواعد و ضوابط کے مطابق ایڈوانس ادائیگی کی صورت کی جاتی ہیں۔ سیکورٹی چیک پوسٹ، لیٹر آف ایوارڈ، گیٹ پاس جیسے مدارج کے ہوتے ہوئے کسی قسم کی چوری ممکن نہیں۔ خبر میں ادارے کے غیر متعلقہ افراد کا نام دے کر ان کی نیک نامی اور فرض شناسی کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔