شوہر پر قابو پانے کا راز

1634

ایک عاناہید جعفر
قل کے سنہری مشورے نے لڑائی جھگروں پر مٹی ڈال کرگھر کو مثل جنت بنا دیا

فوزیہ کا شوہر طاہرجیسے ہی گھر میں داخل ہوا ، وہ اس کے سلیپر اٹھاکر لپکی ۔ نیچے بیٹھ کر اس کے جوتے موزے اتار کر چپلیں پہنا دیں پھر اسے شبینہ لباس اور تولیہ پکڑا کر کھانا لگانے چل دی ۔آج اس نے نرگسی کوفتے بنائے تھے ۔ ساتھ میں سلیقے سے بنی ہوئی سلاد ، رائتہ اور پودینے کی چٹنی تھی ۔ نرگسی کوفتوں کی اشتہا انگیز خوشبو سے دستر خوان مہک اٹھا ۔ فوزیہ کے ہاتھ سے بنے نرگسی کوفتے سارے خاندان میں مشہور تھے اور سب اس سے فرمائشیں کر کے پکوایا کرتے تھے ۔
طاہر اور تینوں بچے دستر خوان پر آکر بیٹھ گئے ۔ جیسے ہی طاہر نے ڈونگے میں چمچ ڈالا تو کوفتوں کو دیکھ کر اس کا موڈ خراب ہو گیا ۔ناک چڑھا کر بولا’’ جب دیکھو کوفتے ہی پکے ہوتے ہیں ۔ اس سے تو اچھا تھا قیمہ بھرے کریلے پکا لیتی ۔ ‘‘
بھوک سے بے تاب فوزیہ نے ابھی پہلا نوالہ ہی منہ میں ڈالا تھا ۔ وسیم کی بات سن کر منہ میںکڑواہٹ بھر گئی ۔ صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ گیا ۔ چیخ کر بولی:
’’صبح میں نے آپ سے پوچھا تھا نا کہ آج کیا پکائوں؟َ
اس وقت تو زبان ہلا کر نہ بولے ،اب نادر شاہی حکم جاری کر رہے ہیں ۔ میرا کیا جاتا ۔ جتنی محنت کوفتوں پر ہوئی ہے اس سے کم محنت میںکریلے پک جاتے ۔ مگر آپ کو تو عادت ہو گئی ہے ۔ بے وقت کی راگنی الاپنے کی ۔ ‘‘
فوزیہ کی بلند آواز اور سخت لہجے نے جلتی پر تیل کا کام کیا ۔ طاہر نے غصے سے لال پیلا ہو کر سالن کی پلیٹ اٹھا کر دور پھینک دی ۔ اور دھاڑ کو بالا’’ خود ہی کھائو یہ کوفت کے گولے ، میرے لیے آملیٹ بنا کر لائو۔‘‘
فوزیہ بمشکل غصے پر قابو پاتے ہوئے اٹھی اور جلتی بھنتی آملیٹ بنانے لگی ۔ پھر آملیٹ کی پلیٹ اس کے آگے پٹخ کر دوسرے کمرے میں چلی گئی اور بڑبڑانے لگی‘‘ سارا دن ہڈیاں رگڑو ، ایک سے ایک چیز پکائو اور ایک یہ نواب صاحب ہیںکہ نخرے ہی نہیں ملتے ۔رزق اٹھا کر پھینکتے ہوئے اللہ تعالی کا خوف بھی نہیں آتا۔‘‘
تلخ کلامی کی وجہ سے سارے گھر کا ماحول تلخ ہو گیا ۔ بچوںنے بے دلی سے کھانا کھایا اور اِدھر اُدھر ہو گئے ۔ فوزیہ بستر میں لیٹ کر آنسو بہانے اور سوچنے لگی ۔ نہ جانے ہمارے ہنستے بستے گھر کو کس کی نظر لگ گئی ہے ۔ پہلے تو طاہر بڑے خوش مزاج ہوا کرتے تھے ۔ اب دن بدن زہر میں بجھتے جا رہے ہیں ۔
ہر بات پر کاٹ کھانے کو دوڑتا…مغلظات بکنا ، برتن توڑنا ،کھانا اٹھا کر پھینکنا ان کی گھٹی میں پڑ گیا ۔ ہر وقت کی بک بک سے بچے بھی سہمے رہنے لگے ہیں اور میرے اعصاب بھی کمزور ہوتے جا رہے ہیں ۔
’’ آخر اس کا سبب کیا ہے ‘‘؟ فوزیہ نے اپنے آپ سے سوال کیا ۔ ایک دم اس کے ذہن میں خطرے کی گھنٹی بج اٹھی ۔
’’جادو…‘‘ کہیں کسی نے ان پر جادو تو نہیں کروادیا۔پھر اس کے ذہن کی سوئی ایک جگہ ہی جم گئی ۔ ہو نہ ہو یہ جادو کا کمال ہے ۔ آج کل جگہ جگہ ایسے عامل بیٹھے ہوئے ہیں جو گندے عمل کے ذریعے کسی کا بھی جینا حرام کر دیتے ہیں۔
فوزیہ اپنے شوہر کی بہت خدمت کیا کرتی تھی ۔ کبھی بے جا فرمائشوں سے اس کو پریشان نہ کرتی ۔ زندگی میں جو کچھ ملتا ، صبر شکر سے گزارہ کیے جاتی اور ہنسی خوشی زندگی بسر کرنا چاہتی تھی ۔
پہلے طاہر بڑانرم خو ہواکرتا تھا مگر اب بچوں کے بڑے ہونے کے ساتھ ساتھ بڑھتے اخراجات اورکمر توڑ مہنگائی نے مزاج میں برہمی پیدا کر دی تھی ۔
فوزیہ ٹھنڈے مزاج کی عورت تھی ۔ کبھی وہ اس کے غصے پر آنسو بہانے لگتی ، کبھی خاموشی اختیار کر لیتی ۔ طاہر خود ہی بک جھک کر چپ ہو جاتا ۔ اس طرح بات دب جایا کرتی ۔
مگر اب کچھ دنوں سے فوزیہ کی قوت برداشت جواب دے گئی تھی ۔ وہ بھی طاہر کے غصے کا برابر سے جواب دینے لگی تھی ۔ وہ کہتی ، حدہوتی ہے ہر بات کی ۔ میں جتنا خاموشی سے سہتی ہوں ۔ یہ اتنا ہی آگے بڑھتے جار ہے ہیں۔ہر کام میں نقص نکالنا ،بے ہوئی بات پر چیخنا ، چنگھاڑنا روزکامعمول بنتا جا رہا ہے ۔ ہم سب کی زندگی میں زہر گھول کر رکھ دیا ہے ۔
قدرتی بات ہے کہ جب ماں باپ آپس میں لڑیں تو بچوں پر منفی اثرات پڑتے ہیں ۔ بچے اپنی ماں کے اوپر چیختے چلاتے باپ سے بد دل ہوتے اور جب وہ طاہر کی بد سلوکی پر اسے برا بھلا کہہ کر اپنی بھڑاس نکالتی تو غیرمحسوس طریقے سے ان کے دل میں بغاوت کا بیج بو دیا کرتی ۔ یوں بچے باپ سے کھنچے کھنچے رہنے لگے اور گھر کے ماحول میں تنائو سا آ گیا ۔
آخر اس جادو کا توڑ کیسے ہو گا ۔ سوچتے سوچتے اس کا دماغ پھٹنے لگا ۔ اچھا شازیہ باجی سے مشورہ کرتی ہوں ۔ یہ سوچ کر اس نے اپنی بہن کو فون ملا کر اپنی ساری پریشانی انہیں بتائی توباجی نے کہا:’’ ایسا کرو کل تم میری طرف آ جائو ۔ ہمارے گھر کے قریبی مدرسے میں ایک با عمل مفتی پردے کے پیچھے سے خواتین کے مسائل سنتے اور حل کے لیے کلامِ الٰہی پڑھنے کو بتاتے ہیں ۔ا للہ کے کلام میںبڑی طاقت ہے ۔ ان شاء اللہ تمہارا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا ۔ ‘‘
اگلی صبح فوزیہ اپنی بہن کے ساتھ مفتی صاحب کے پاس جا پہنچی ۔ انہیں شوہر کے غصے کی داستان سنا کر پوچھا’’مفتی صاحب! پہلے تو وہ ایسے نہیں تھے ۔ کیا ان پر کسی نے جادو کروا دیا ہے ۔‘‘
انہوں نے پوچھا’’ شوہر کے غصے کے وقت آپ کا رد عمل کیا ہوتا ہے ‘‘؟
فوزیہ بولی’’ ظاہر ہے میں بھی انسان ہوں… کہاں تک برداشت کر سکتی ہوں ۔
مفتی صاحب بات کی تہ تک پہنچ چکے تھے۔ مسکرا کر بولے۔’’ ان پر تو جادو کے اثرات ہیں لیکن آپ کو ایک جادوئی اثر جملہ بتاتا ہوں اور وہ ہے ’’ معاف کر دیں‘‘ غلطی ہوگئی‘‘۔ جب بھی آپ کے شوہر پر غصیکا دورہ پڑے ، آپ یہ جملہ استعمال کریں ،پھر دیکھیں اس جملے کا جادو ‘‘۔
فوزیہ نے ان کی بات گرہ سے باندھ لی اور گھر آ گئی ۔
ایک دن طاہر حسب عادت اس کی پکائی ہوئی روٹیوں پر آگ بگولہ ہونے لگا ۔’’ کیسی کچی کچی روٹیاں پکائی ہیں ۔ آٹاڈھنگ سے گندھا ہو تو روٹی صحیح پکے گی ناں ۔ دھیان تو ٹیلی فون میں اٹکا ہوتا ہے ۔ دواُلٹے سیدھے ہاتھ مارے اور آٹا رکھ دیا ، جبھی تو اتنی سخت روٹی پکتی ہے کہ چبانا مشکل ہو رہا ہے ۔ ‘‘
فوزیہ نے چاہا کہ وہ بھی اپنا دکھڑا سنائے کہ گیس کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے اتنی کم آنچ پر روٹی پکانی پڑتی ہے کہ لا محالہ اس نے پاپڑ ہی بننا تھا مگر دل پر جبر کر کے چپ بیٹھی رہی ۔ اس کی طرف سے جوابی کارروائی نہ پا کر طاہر بکتاجھکتا کھانا کھاتا رہا اور کچھ پھینکنے ، پٹخنے کی نوبت نہ آئی ۔ یوں بات بڑھنے سے پہلے ہی دب گئی ۔
کھانے کے بعد فوزیہ طاہر کی پسند کے مطابق گاڑھی چائے بنا کر اس کے پاس آئی اور مسمسی سی صورت بنا کر بولی۔غلطی ہو گئی ، معاف کر دیں ۔ ‘‘
یہ الفاظ اس کے غصے کی بھڑکتی آگ پر ٹھنڈی ، نرم پھوار کی طرح برس پڑے اور وہ جو چہرے پر چٹانوں جیسی سختی لیے بیٹھا تھا ، ایک دم نرم پڑ گیا اور بولا :
’’ میں تو تہیہ کیے بیٹھا تھا کہ آج تمہاری خوب خبر لوں گا۔ مگر اب تو بات ہی ختم ہو گئی … جائو معاف کیا ۔ ‘‘
فوزیہ اس جملے کا جادو دیکھ کر حیرت کے سمندر میں ڈوب گئی ۔ اور پھر جب اس نے اپنے شوہر کے بھڑکنے پر یہ جملہ استعمال کیا… معاملہ وہیں دب گیا اور رائی کا پہاڑ بننے کا سلسلہ ختم ہو گیا ۔ یوں اس کے گھر کی فضا پر سکون ہو گئئی اور رفتہ رفتہ طاہر کا غصہ ختم ہو گیا ۔
اب فوزیہ کو سارے معاملے میں اپنی غلطی نظر آئی ۔
واقعی دانا لوگوں کا درست کہنا ہے کہ جب شوہر غصے میں آئے تو بیوی کو خاموش رہ کر برداشت کرنا چاہیے ۔بعد میں کسی وقت اس کا اچھا موڈ دیکھ کر اپنی صفائی پیش کر دے ، اس طرح بات کبھی حد سے نہیں بڑھے گی ۔
ویسے بھی بے چارے مردوں کو روزی کمانے کے لیے کیسے کیسے سخت حالات سے نمٹناپڑتا ہے ۔ مرد کہتے ہیں کہ باہر ہم اگر سولوگوں سے مل تے ہیں تو ان میں سے نناوے ہمارے مزاج سے میل نہیں کھاتے ۔ اتنی سختیاں ، ٹینشن ، سہہ سہہ کر جب گھر پہنچتے ہیں تو کڑواہٹ اور جھنجھلاہٹ گھر والوں پر ہی نکال سکتے ہیں ۔
بیوی اگر حکمت عملی سے کام لے کر معاملہ سلجھا دے تو کتنا اچھا ہے ۔ ورنہ شیطان تو غصے میں انسان کو گیند کی طرح گھما کر فتنہ فساد برپا کروا دیتا ہے ۔
فوزیہ جب اپنے شوہر کے غصے کا ترکی بہ ترکی جواب دیتی ،معاملہ خراب سے خراب ہو جاتا تا مگر اب تحمل اورجادوئی اثرجملے نے اس کی زندگی میں خوشیوں کے پھول کھلا دیے ۔ پیاری بہنو! آپ بھی اس جادوئی اثر جملے سے اپنے شوہر کا جادو اتار سکتی ہیں ۔ آزما کر دیکھ لیجیے۔