ترقی کے لیے حکمران کا نکنوں کے مسائل حل کریں

331

پاکستان کے چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے مائنز ورکز کا کنونشن کراچی کے ہوٹل میں پاکستان ورکرز کنفیڈریشن کے صدر قموس گل خٹک کی صدارت میں منعقد ہوا۔مہمان خصوصی پاکستان ورکرز کنفیڈریشن کے جنرل سیکرٹری ظہور اعوان، کنفیڈریشن پنجاب کے آرگنائزر شوکت علی چودھری اور FES پاکستان کے پروگرام کوآرڈینیٹر عبدالقادر تھے۔اس کنونشن کا عنوان کانکنی کی پیشہ وارانہ صحت و سامتی کا ILO کا کنونشن 176 اور اس کی پاکستان میں توثیق تھا۔ILO کے پروگرام آفیسر سید صغیر بخاری اس موضوع پر لیکچر دینے کے لیے بطور خاص اسلام آباد سے تشریف لاے تھے۔اس کے علاوہ شعبہ کانکنی میں ماضی اور حال میں ہونے والے حادثات اور ان کے تدارک کے لیے اقدامات اور مائنز سیکٹر میں قومی سطح پر ایک صنعتی فیڈریشن کے قیام کی ضرورت جیسے اہم موضوعات پر بھی کنونشن کے پروگرام کا حصہ تھے۔ ذیل میں پروگرام کی کارروائی پیش کی جارہی ہے۔
ظہور اعوان
اس موقع پر پاکستان ورکرز کنفیڈریشن کے جنرل سیکرٹری ظہور اعوان نے کہا کہ یہ کانفرنس مائنز ورکرز کی مشکلات اور ان کی صحت و سلامتی کے مسائل کا احاطہ کرے گی۔ ہمارا مقصد کانوں میں ہونے والے حادثات کی روک تھام کے سلسلہ میں تجاویز کا جائزہ لے کر رپورٹ مرتب کرنا ہے۔ مائنز ایکٹ 1923 کا جائزہ لینے کے علاوہ اس ایکٹ میں بہتری کے لیے آنے والی تجاویز کا بھی جائزہ لیا جاے گا اور ہم سب یہاں پورے پاکستان سے آئے ہوئے رہنماؤں کے تجربات اور مشاہدات سے بھی مستفید ہوں گے اور ہمارا ایک دوسرے سے تعارف بھی ہو گا۔ہمارا نعرہ ہے کہ پاکستان کے مزدوروں ایک ہو جاؤ۔اسی طرح ہم چاہتے ہیں مائنز کے مزدوروں ایک ہو جاؤ۔یہ کانفرنس قومی سطح کی فیڈریشن بنانے کی بھی داغ بیل ڈالے گی۔
قموس گل خٹک
پاکستان ورکرز کنفیڈریشن کے صدر قموس گل خٹک نے کہا کہ ہم نے جب لاکھڑا میں یونین بنانے کا آغاز کیا تھا تو ہمیں بہت مشکلات کا سامنا کر نا پڑا لیکن آج لاکھڑا کے کوئلہ کی صنعت میں کام کرنے والے مزدور اپنی جدوجہد اور اتحاد کی وجہ سے بہت سی مراعات حاصل کر رہے ہیں۔اگر لیڈر شپ ایماندار اور دلیر ہو تو تب ہی مزدور تحریک آگے بڑھ سکتی ہے۔ لاکھڑا میں تمام کمپنیوں میں یونینز موجود ہیں۔ پاکستان میں مائنز ہمیشہ علاقوں کے باآثر لوگوں کو ہی لیز پر دی جاتی ہیں جو نہ تو کسی قانون سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی کانکنوں کو قانون کے مطابق سہولیات و مراعات دیتے ہیں پاکستان میں مائنز کے حادثات میں سب زیادہ اموات ہوتی ہیں اور اس کی وجہ ہی یہ ہے کہ قانون پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔مائننگ کو کسی حکومت نے آج تک صنعت تسلیم ہی نہیں کیا۔حادثات میں 20۔20 لوگ مر جاتے ہیں کوئی عدالت اس پر سوموٹو ایکشن نہیں لیتی۔ کان کے مزدور ہزاروں فٹ نیچے سے کوئلہ نکالتے ہیں۔حادثات میں مر جاتے ہیں کوئی پرواہ نہیں کرتا وجہ ایک ہی ہے کہ ہم تنظیمی طور پر کمزور ہیں۔ اگر اپنی طاقت کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کریں گے تو ہم اپنے حقوق بھی حاصل کر لیں گے۔ہم سب کو مل کر کانکنوں کی ایک کل پاکستان فیڈریشن بنانا ہو گی۔
عبدالقادر
FES کے پروگرام کوآرڈی نیٹر عبدالقادر نے کہا کہ میں آپ سب لوگوں کے جذبات کو سراہتا ہوں جس کے تحت آپ سب جمع ہوئے ہیں۔ ہر ساتھی کی کوشش اور خواہش ہے کہ ہماری شناخت قومی شناخت کے طور پر ابھرے۔ مزدوروں کا تعاون ہمارا اعزاز ہے۔اگر ہم لوگ محنت کشوں کے اتحاد کے لیے کوئی کردار ادا کر سکیں تو مجھے بہت خوشی ہو گی۔میں نے خود کان میں جاکر حالات کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے زیادہ تر کانوں میں مزدور کھڑے ہو کر اندر نہیں جا سکتے مزدور کو لیٹ کر اندر جانا پڑتا ہے۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ کان کے مزدور قبر میں کام کرتے ہیں۔پاکستان کی معیشت میں کانکنی کا حصہ3فیصد ہے۔ اس میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں کانکنی کا شعبہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ KPK اور بلوچستان میں بے پناہ خزانے چھپے ہوئے ہیں۔جرمنی سمیت مڈل ایسٹ کے دیگر ترقی یافتہ ممالک معدنیات پر انحصار کرتے ہیں۔آج بھی دنیا میں اس شعبہ کی اہمیت کم نہیں ہوئی۔پاکستان کی آبادی 22 کروڑ کے لگ بھگ ہے اس میں محنت کشوں کی تعداد 6 کروڑ سے زیادہ ہے۔کانوں میں کام کرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ کے قریب ہے۔پاکستان میں کوئلہ، تانبا، سونا، کرومائیٹ، نمک سمیت 20 اقسام کے شعبے ہیں۔ 1923 کے کان کنی کے ایکٹ کو 95 سال گزر چکے ہیں۔سیفٹی کے حوالے سے اس میں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد اب صوبوں کو اپنی پالیسیاں خود بنانی ہیں لیکن ابھی تک پنجاب کے علاوہ کوئی صوبہ اپنی مائنز پالیسی لے کر نہیں آیا۔ مزدوروں کو قانون کے مطابق یہ حق حاصل ہے کہ اگر کام غیر محفوظ ہو تو کام کرنے سے انکار کر سکتا ہے۔ مزدوروں کی سیفٹی کے لیے ان کی تربیت کی ضرورت ہے۔FES ہر طرح کی معاونت کے لیے تیار ہے۔
سرزمین افغانی
پاکستان مائنز ورکرز فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری سر زمین افغانی نے کہا کہ اصل مصیبت یہ ہے کہ قانون تو ہے لیکن قانون پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ ہم سب کو مل کر اس کا حل نکالنا پڑے گا۔ قانون میں یہ موجود ہے کہ جو کان میں کام کرے گا جمعدار اس کو کام کرنے کا تقرری نامہ دے گا۔اس کے بغیرکوئی شخص کان میں کام نہیں کر سکتا۔ شیڈول A میں تمام قواعد درج ہیں جو بندہ کان میں جاے گا منشی اس کا علاقہ پتہ سب درج کرے گا۔جب وہ بندہ باہر آے گا تو منشی لکھے گا کہ وہ باہر آگیا ہے۔اس وقت بھٹہ کا مزدور مائنز کے مزدور سے زیادہ مشکل میں ہے۔ان کے حالات آج تک نہیں بدلے۔ وہ بھی کان کے مزدور کی طرح پیس ریٹ پر کام کرتا ہے۔ یہ قانون سب سے مشکل ہے اس پر عمل درآمد کرنا بھی مشکل ہے۔ مسئلہ قربانی دینے سے ہی حل ہو گا۔ ہم ایک ملک گیر فیڈریشن بنانے کے لیے تیار ہیں ہماری پاس پہلے سے ملکی سطح کی پاکستان مائنز ورکرز فیڈریشن موجود ہے میں نے ظہور اعوان سے کہا ہے کہ ہماری NIRC سے رجسٹرڈ فیڈریشن حاضر ہے آپ جیسے بہتر سمجھتے ہیں ویسے کرلیں پورے ملک کے کان کے مزدوروں کا اتحاد وقت کی ضرورت ہے۔
صغیر بخاری
ILO کے سینئر پروگرام آفیسر صغیر بخاری نے کہا کہ ILO کا کام صرف لیبر کے لیے نہیں ہے۔ یہ سہ فریقی ادارہ ہے جس میں آجر بھی شامل ہے۔ILO ہر سال جون میں سہ فریقی کانفرنس کرتی ہے آج تک ILO نے 189 کنونشن منظور کیے ہیں۔ آخری کنونشن ڈومیسٹک ورکرز کا ہے جو ہیلتھ اور سیفٹی کے حوالے سے بنا ہے۔ پاکستان کی حکومت نے ابھی تک اس کی توثیق نہیں کی۔ دنیا کے ممالک نے طے کیا ہے کہ وہ آپس کے تعلقات میں بنیادی اقدار ایک جیسی ہوں۔ اس کے لیے ہم قانون سازی کریں گے۔ ILO کا کام بین الاقوامی اقدار کو بنانا ہے، وہ اقدار کنونشن کی شکل میں ہوتی ہیں۔ پاکستان نے آج تک 36 کنونشن پر دستخط کیے ہیں۔ ہر وہ ملک جو ILO کا ممبر ہے اسے ان 8 کور کنونشنز پر عمل کرنا ہو گا۔
کنونشن سے مزدور رہنما حاجی پیرزادہ، محمد اقبال یوسف زئی، نور محمد، شوکت علی چودھری، نوعاللہ خان حمید اللہ، میاں، محمد رمضان آزاد، یوسف ناز، امجد علی خان کے علاوہ دیگر نے بھی خطاب کیا۔ کنونشن میں اتفاق رائے یہ طے ہوا کہ ماہ اپریل 2019 میں لاکھڑا میں کل پاکستان اجلاس میں ایک کل پاکستان فیڈریشن کا اعلان کیا جاے گا۔