سیاسی ٹرک کی بتی

630

ایاز صادق نے سیاست سے مایوسی اور حکومت کی مدت کے بارے میں اپنے شکوک و شبہات کا اظہار کرکے اپوزیشن سمیت تمام سیاست دانوں کو سیاسی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگادیا ہے اگر ان کے بیانیے پر سنجیدگی سے غفور کیا جائے، اس کے نتائج کا جائزہ لیا جائے اور باریک بینی سے سوچا جائے تو ایاز صادق کی صداقت مشکوک ہوجاتی ہے۔ موصوف نے بہت سوچ سمجھ کر ٹی وی اینکر کے سوالوں کے جواب دیے ہیں۔ انہوں نے دیدہ ودانستہ وہی کہا ہے جو اینکر پرسن سننا چاہتا تھا۔ سیاسی داستان کو لاکھ الف لیلیٰ کی داستان بنادیا جائے ایک نہ ایک دن تو اختتام پر پہنچنا ہی ہوتا ہے مگر ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ ہماری داستان اختتام سے پہلے ہی ایک نئی داستان میں ڈھل جاتی ہے۔ سیاسی پنڈت اپنی پیش گوئیوں کے سچ ہونے کے یقین پر بغلیں بجا رہے ہیں حالاں کہ وہ بغلیں جھانکنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ شاید سگار کی عادت بغلیں جھانکنے کی عادت پر حاوی ہوگئی ہے۔
سیاسی تجزیہ کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ ملک کی سیاسی تاریخ اور سیاست دانوں کے ماضی کو سامنے رکھا جائے۔ عوام کے رجحانات پر بھی غور کیا جائے ورنہ۔۔۔ نتائج بے معنی اور لاحاصل ثابت ہوتے ہیں جو سیاست دان اور سیاسی مبصرین لانگ بوٹوں کی دھمک سن رہے ہیں، بوٹوں کی چاپ محسوس کررہے ہیں انہیں اپنے کانوں کا معائنہ کرانا چاہیے، کسی ماہر ای این ٹی سے مشورہ کرنا چاہیے کیوں کہ فوج سیاسی معاملات میں مداخلت کرنے کے موڈ میں نہیں۔ زرداری صاحب کی حکومت نے اپنی مدت پوری کرلی اور اب مسلم لیگ نواز کی حکومت بھی اپنی مدت پوری کرے گی۔ جنرل اور سیاست دان میں یہی فرق ہوتا ہے کہ جنرل اپنے عہد پر قائم رہتا ہے اور سیاست دان عہد و پیمان کو سیاسی ضرورت قرار دیتا ہے۔
سابق صدر آصف علی زرداری ان دنوں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو جن خیالات سے نواز رہے ہیں بالآخر یہ نوازش میں بھی ڈھل سکتے ہیں۔
زرداری صاحب کو اس حقیقت کا اچھی طرح ادراک ہے کہ ککھ سے لکھ بننے کا جو سفر انہوں نے کیا ہے اس مسافت میں جہاں جہاں پڑاؤ آتے ہیں اس پر پردہ ڈالنا ممکن ہی نہیں، میاں نواز شریف اتنے بھولے نہیں جتنے شکل و صورت سے دکھائی دیتے ہیں ان کے پاس زرداری صاحب کا سارا ماضی محفوظ ہے، یوں بھی سیاست امکانات کا کھیل ہے سو، زرداری صاحب میاں نواز شریف کی مشکل میں آسانیاں پیدا کرکے اپنے لیے امکانات کے دریچے وا کرسکتے ہیں اور سہولت کاری کے لیے خفیہ ہاتھ کو متحرک کرسکتے ہیں اور اگر خفیہ ہاتھ حرکت میں آگیا تو سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے پلڑے میں برکت یقیناًآجائے گی۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ نواز شریف زرداری صاحب کو صدر مملکت کے عہدے کی پیش کش کرچکے ہیں مگر وہ وزیراعظم کے عہدے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ عدالتی شکنجہ مزید تنگ ہوا تو میاں نواز شریف ایوان صدر کی سمت جانے سے گریز نہیں کریں گے کہ اس میں عافیت کا پہلو ڈھونڈا جاسکتا ہے۔ عدالتی فیصلے کو پارلیمنٹ کا مسترد کرنا انہونی بات نہیں، جمہوری ممالک میں ایسا ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔