شام پر امریکی حکمت عملی اچانک تبدیل‘ پیوٹن کا بشار سے رابطہ

557

واشنگٹن ؍ ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک) امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس کا کہنا ہے کہ شام میں داعش کے خلاف لڑائی اپنے اختتام کے قریب آنے اور ملک کی تعمیر نو شروع ہونے پر انہیں توقع ہے کہ شام میں امریکی شہریوں کی تعداد میں اضافہ ہو گا ، ان میں ٹھیکے دار اور سفارت کار شامل ہیں۔ اُدھر روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے اپنے شامی ہم منصب بشار الاسد سے ٹیلیفونک رابطہ کیا ہے جس میں انہوں نے شام کی مدد اور اس کے دفاع کے حوالے سے تعاون جاری رکھنے کا یقین دلایا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق اس وقت شام میں 2 ہزار کے قریب امریکی فوجی داعش کے خلاف برسرِ جنگ ہیں۔ ماہرین کے مطابق غالب گمان ہے کہ میٹس کا یہ بیان شامی صدر بشار الاسد کو چراغ پا کر دے گا جو پہلے ہی امریکی افواج کو قابض قرار دے کر اس کی موجودگی کو غیر قانونی کہہ چکے ہیں۔ اس سے قبل میٹس یہ باور کرا چکے ہیں کہ اگر داعش کے شدت پسندوں نے لڑائی کا سلسلہ جاری جاری رکھا تو امریکی افواج شام میں رہیں گی تا کہ تنظیم پھر سے شام میں اپنی جڑیں مضبوط نہ کر سکے ۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ میٹس نے اعلان کیا ہے کہ داعش سے واپس لے لیے جانے والے علاقوں میں سفارت کاروں کی تعداد میں اضافہ ہو گا۔ میٹس کے مطابق ٹھیکے داروں اور سفارت کاروں کی یہ تعداد مقامی فورسز کو دیسی ساخت کے دھماکا خیز آلات ناکارہ بنانے اور شامی اراضی پر کنٹرول کی تربیت دیں گے ۔ میٹس نے یہ واضح نہیں کیا کہ شام میں ذمّے داریاں انجام دینے کے لیے ان سفارت کاروں کی تعداد کتنی ہو گی اور وہ کب وہاں جائیں گے ۔ شام میں خانہ جنگی کے سبب امریکا نے بشار حکومت کے ساتھ تعلقات منجمد کر دیے تھے ۔ امریکا کے زیر قیادت داعش کے خلاف برسر جنگ بین الاقوامی اتحاد بارہا یہ باور کرا چکا ہے کہ اگرچہ واشنگٹن بشار کی سبکدوشی چاہتا ہے تاہم اس کے باوجود مذکورہ اتحاد شامی حکومت کی فورسز کے خلاف لڑنے کے لیے کوشاں نہیں۔ میٹس نے زور دے کر کہا کہ اگر شامی حکومت کی فورسز امریکی منصوبوں کو معطل کرنے کے لیے متحرک ہوئیں تو غالبا یہ ایک غلطی ہو گی۔ دوسری جانب اس بین الاقوامی اتحاد کے لیے امریکا کے خصوصی نمائندے بریٹ میکگورک نے ایک خط میں اتحاد کے رکن ممالک سے کہا ہے کہ وہ 2018ء کی پہلی سہ ماہی تک عسکری کارروائیاں جاری رہنے کی توقع رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ داعش کے ہزیمت سے دوچار ہونے اور سیاسی عمل میں نمایاں پیش رفت ہونے تک امریکا شام میں رہنے کے لیے تیار ہے ۔ دوسری جانب روس میں کریملن کے ایک اعلان کے مطابق صدر ولادیمیر پیوٹن نے ہفتے کے روز شامی صدر بشار الاسد سے ٹیلیفون پر رابطہ کر کے آگاہ کیا اور کہا کہ ماسکو شام کی مدد اور اس کے دفاع کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ کریملن نے واضح کیا کہ روسی صدر نے نئے سال کی مبارک باد دینے کے لیے شامی صدر سے رابطہ کیا۔ واضح رہے کہ 11 دسمبر کو روسی صدر کے شام میں لاذقیہ میں حمیمیم کے عسکری اڈے کے دورے کے دوران ایک روسی فوجی اہل کار نے آگے بڑھ کر بشار الاسد کو پیوٹن کے ہمراہ چلنے سے روک دیا تھا۔ مذکورہ فضائی اڈے پر روس کے فوجی طیارے اور فورسز تعینات ہیں۔ اس سے قبل 21 نومبر کو کریملن نے اعلان کیا تھا کہ پیوٹن نے روس کے ساحلی شہر سُوشی میں ایک روز بشار الاسد سے ملاقات کی تھی۔ یہ ملاقات شامی بحران کو زیر بحث لانے کے لیے روس ، ترکی اور ایران کی سربراہ اجلاس سے قبل ہوئی تھی۔