امریکا پاکستان میں کارروائی سے باز رہے‘ پاک فوج کا انتباہ

1510

واشنگٹن ،راولپنڈی(مانیٹرنگ ڈیسک، نیوز ایجنسیاں)پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا، امریکا پاکستان میں یک طرفہ کارروائی سے باز رہے، پاک فوج کا انتباہ،تفصیلات کے مطابق پاکستان نے امریکا کو خبردار کیا ہے کہ وہ اْس کی سرزمین پر کسی یک طرفہ کارروائی سے باز رہے، پاکستان نے اس الزام کو بھی بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے کہ اْس نے افغانستان میں دہشت گرد کارروائیاں کرنے والے حقانی نیٹ ورک کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا ہے۔وائس آف امریکا کے مطابق پاکستانی مسلح افواج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے اس بات کو دہرایا ہے کہ پاکستانی افواج نے بغیر کسی امتیاز کے حقانی نیٹ ورک سمیت تمام دہشت گرد تنظیموں کے خلاف مؤثر کارروائی کی ہے اور اس سلسلے میں امریکی الزامات کی کوئی حقیقت نہیں ہے، اْنہوں نے مزید کہا کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی مسلح افواج کی کارروائیوں کے اثرات اگلے مہینوں اور سالوں میں واضح طور پر نظر آنے لگیں گے۔اْنہوں نے فوجی ہیڈ کوارٹرز( جی ایچ کیو) میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے ہمیں امریکا کی طرف سے ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ وہ یک طرفہ کارروائی پر غور کر رہا ہے،امریکی حکام عرصے سے اسلام آباد پر الزام عاید کرتے آ رہے ہیں کہ وہ افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف یا تو کوئی کارروائی نہیں کر رہا یا پھر خفیہ طور پر اْن کی پشت پناہی کر رہا ہے۔پینٹاگون نے حال ہی میں کانگریس کو بتایا کہ وہ پاکستان کے ساتھ اْن معاملوں پر تعاون بڑھائے گا جن میں امریکا اور پاکستان کی سوچ یکساں ہے اور جن معاملوں پر اختلاف ہو گا اْن کے حوالے سے وہ یک طرفہ طور پر کارروائی کرے گا،اس ماہ کے شروع میں سی آئی اے کے ڈائریکٹر مائیک پومپیو نے بھی پاکستان کو خبردار کیا تھا کہ اگر اْس نے اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کو تباہ نہ کیا تو امریکہ انھیں تباہ کرنے کے لیے ہر ممکن کارروائی کرے گا، میجر جنرل غفور نے امریکی حکمت عملی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ امریکا بھول گیا ہے کہ پاکستان نے افغانستان میں امریکی مفادات کی خاطر دہشت گردی کے خلاف لڑتے ہوئے جانی اور مالی قربانیاں دی ہیں۔ اْنہوں نے کہا کہ پاکستان کی مسلح افواج دوست ممالک کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں اور اسے جاری رکھنا چاہتی ہیں لیکن ہماری خودمختاری اور سالمیت پر کوئی سمجھو تا نہیں ہو سکتا۔ ہم اپنے دوستوں کے ساتھ محاذ آرائی نہیں چاہتے لیکن پاکستان کی سلامتی کو یقینی بنائیں گے،اْنہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں امن کی بحالی کے لیے اپنا کردار ادا کر رہا ہے اور وہ اس سلسلے میں تعاون جاری رکھے گا، بازو مروڑنے کے بجائے باہمی تعاون اور ایک دوسرے پر اعتماد ہی اس خطے میں امن کی ضمانت دے سکتا ہے۔ جنرل غفور نے کہا کہ اگر پاکستان میں دہشت گردوں کے کوئی سہولت کار موجود بھی ہیں تو اْنہیں اسی وقت ختم کیا جا سکتا ہے جب پاکستان میں موجود 27 لاکھ افغان مہاجرین افغانستان واپس لوٹ جائیں۔اْنہوں نے بتایا کہ افغانستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ باڑ لگانے اور چوکیاں تعمیر کرنے کا کام جاری ہے تاکہ سرحد پار کرنے کے واقعات کی مؤثر طریقے سے روک تھام کی جا سکے۔ یہ کام دسمبر 2018 تک مکمل کر لیا جائے گا۔اْنہوں نے کہا کہ ہم کافی کچھ کر چکے ہیں اور مزید کچھ نہیں کر سکتے، اب افغانستان اور امر یکا کی باری ہے کہ وہ کچھ کریں۔
***
واشنگٹن (نیوز ایجنسیاں) امریکی حکومت نے حقانی نیٹ ورک کے گرفتار کارندے تک رسائی نہ دینے پر پاکستان کی 255 ملین ڈالر فوجی امداد روکنے پر غور شروع کردیا۔امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ انتہائی سختی کے ساتھ پاکستان کی 25 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی امداد روکنے پر غور کررہی ہے۔ اخبار کے مطابق رواں سال اکتوبر میں پاکستانی فورسز نے کارروائی کرتے ہوئے عسکریت پسندوں کی قید میں موجود کینیڈین شہری جوشوا بوائل اور اس کی امریکی بیوی کیٹلان کولمین کو بچوں سمیت بازیاب کرایا تھا، اس امریکی کینیڈین خاندان کی بازیابی کے دوران ایک اغواکار بھی پکڑا گیا تھا جس کا تعلق حقانی نیٹ ورک سے ہے،امریکا کا خیال ہے کہ گرفتار اغوا کار کے پاس طالبان کی قید میں موجود ایک اور امریکی مغوی کیون کنگ کے بارے میں بھی معلومات ہوسکتی ہیں۔ امریکی حکام نے پاکستان میں گرفتار اس اغوا کار تک رسائی مانگی لیکن پاکستانی حکام نے منع کردیا، جس پر مایوس ہوکر ٹرمپ انتظامیہ نے 255 ملین ڈالر کی قسط روکنے پر غور شروع کردیا ہے جس کی ادائیگی پہلے ہی التوا کا شکار ہے۔ امریکی اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکی حکام گرفتار اغواکار سے کیون کنگ کے بارے میں معلومات چاہتے ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ نے اگست سے ہی ڈو مور کا مطالبہ کرتے ہوئے پاکستان کی 255 ملین ڈالر کی امداد روکی ہوئی ہے۔ اس امداد کو غیرملکی فوجی معاونت کہا جاتا ہے جس کے نہ ملنے سے پاکستان کے لیے عسکری سامان کی خریداری مشکل ہوجائے گی۔ اس حوالے سے امداد جاری کرنے سے متعلق امریکی اعلیٰ حکام کا رواں ماہ اجلاس ہوا تاہم کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ آئندہ چند ہفتوں میں امداد جاری کرنے یا منسوخ کرنے سے متعلق حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔امریکی اخبار کے مطابق یہ واضح نہیں کہ امریکا کو پاکستان کے ہاتھوں ایک اغوا کار کی گرفتاری کا کیسے علم ہوا تاہم ذرائع نے بتایا ہے کہ ایک امریکی ڈرون یرغمالیوں کی بازیابی کے آپریشن کی نگرانی کررہا تھا۔ امریکی یونی ورسٹی کے پروفیسر کیون کنگ اور آسٹریلوی شہری ٹموتھی کو 2016 میں اغوا کیا گیا تھا، دونوں کے زندہ لیکن بیمار ہونے کی اطلاعات ہیں۔ افغانستان میں ایک اور امریکی پال اووربائی بھی 2014 سے لاپتا ہے جو حقانی نیٹ ورک کے لیڈر کا انٹرویو کرنے افغانستان گیا تھا۔خیال رہے امریکا کی جانب سے پاکستان سے ’ڈو مور‘ کے مطالبے پر ردِ عمل دیتے ہوئے پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا تھا کہ اب وقت ہے کہ امریکا اور افغانستان مل کر پاکستان کے لیے کچھ کریں۔پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور نے پاکستان کو دی جانے والی امریکی امداد کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کی جانب سے دی جانے والی امداد وہ گرانٹ ہے جو پاک فوج کی جانب سے امریکا کو القاعدہ کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں مدد دینے پر دی گئی،انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ اگر پاکستان مدد نہیں کرتا تو امریکا اور افغانستان کبھی بھی القاعدہ کو شکست نہیں دے سکتے تھے۔واضح رہے کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات اگست سے کشیدہ ہیں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خطے سے متعلق نئی پالیسی میں پاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام لگایا تھا۔