ادیبوں‘ شاعروں کا فرض ہے کہ سچ لکھیں‘ یشب تمنا

510

ڈاکٹر نثار احمد نثار
جسارت میگزین: یشب تمنا صاحب! آپ اپنے بارے میں کچھ بتایئے۔
یشب تمنا: اپنا تعارف خود ہی کرانا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن میں اپنے بارے میں صرف چند باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔ میری پیدائش لاہور کی ہے اور مصدقہ تاریخ 16 جون 1957ء ہے۔ میرے والد فضل الٰہی شاعر تھے۔ وہ ابو آذر تمنا کے نام سے لاہور کے ادبی منظر نامے میں اپنی شناخت رکھتے تھے انہوں نے اپنے دور کے تمام بڑے اور اہم مشاعرے پڑھے وہ چالیس اور پچاس کی دھائی میں کمیونسٹ تحریک کے اہم ترین لوگوں میں شمار ہوتے تھے مگر وہ غمِ روزگار کے باعث سیاسی سرگرمیوں سے الگ ہوگئے تھے اپنے والد کی وفات کے بعد ہم سندھ آگئے‘ لاڑکانہ اور ٹنڈو آدم میں مقیم رہے لیکن سکھر ہمارا مستقل ٹھکانہ قرار پایا۔ میں نے 1974ء میں تعمیر نو ہائی اسکول سے فرسٹ ڈویژن میں میٹرک پاس کیا۔ 1977ء میں اسلامیہ کالج سکھر سے بی اے کیا اور جامشورو یونیورسٹی سے ایم اے کرنے کے بعد پروبیشنری آفیسر کی حیثیت سے کراچی میں حبیب بینک میں ملازمت مل گئی۔ دوران تعلیم میں نے پروفیسر عنایت علی خان اور حافظ وحید اللہ خان سے بھی کسبِ فیض کیا۔ سکھر میں بزمِ مہران طلباء کے تحت بہت فعال تھا اس وقت کے دوستوں میں نذیر متین‘ ملک آفتاب‘ محمود پاشی‘ نجم الدین شیخ اور ڈاکٹر اسعد صدیقی شامل ہیں۔
میں نے 1977ء میں شعر کہنے شروع کر دیے تھے سکھر کے بعد میں کراچی کی ادبی سرگرمیوں شریک ہوتا رہا۔ اس زمانے کے دوستوں میں لیاقت علی عاصم‘ راشد نور اور خالد عرفان شامل ہیں۔ میں 1982ء میں برطانیہ چلا گیا اور لندن میں الائیڈ بینک آف پاکستان میں بینک آفیسر ہوگیا یہاں میں نے انٹرنیشنل بینکنگ کا تجربہ حاصل کرنے کے ساتھ اردو کے شاعر کی حیثیت سے اپنی شناخت بنائی اور لندن کی ادبی سرگرمیوں میں شامل ہوا خاص طور پر اردو مرکز لندن کے مختلف پروگراموں میں اپنے مضامین پڑھے۔ 1988ء میں معروف افسانہ نگار ممتاز مفتی اردو مرکز کی دعوت پر لندن تشریف لائے تو افتخار عارف کی تحریک پر چند دوستوں کے تعاون سے لندن میں حلقۂ اربابِ ذوق کی تشکیل کی اس تنظیم کے تحت میں نے کئی اہم پروگرام کیے تاہم 1989ء میں مجھے میرے ادارے نے برمنگھم برانچ کا منیجر بنا دیا اس طرح لندن کے ساتھ ساتھ میں برمنگھم کی ادبی فضائوں میں بھی شامل ہوا۔ 1995ء میں بینک نے مجھے اسسٹنٹ وائس پریزیڈنٹ کے عہدے پر ترقی دے کر لندن واپس بلا لیا۔ 1998ء میں بینک سے الگ ہو کر میں نے فنانشل سروسز کی فیلڈ میں آئی ایف اے کی حیثیت سے اپنا کاروبار شروع کیا اس کے ساتھ ساتھ 2004ء میں لندن سے لینگویجز ڈپلومہ کیا جس کا تعلق لسانی ترجمانی سے ہے۔ اس سلسلے میں لندن میں الجزیرہ ٹی وی اور بی بی سی انگلش سروس کے ساتھ کام کیا۔ مجھے 2001ء میں اردو تحریک لندن کی جانب سے قتیل شفائی ایوارڈ سے نوازا کیا۔ میری تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے میری وائف کا نام روبی ہے جو کہ خود بھی شاعرہ ہیں۔ میری غزلوں کی کتاب کرب تنہائی 2011ء میں شائع ہوئی تھی جب کہ اردو بستی لندن سے میری نثری کتاب 2017ء میں شائع ہوئی ہے اس کتاب کی تقریب اجراء آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں ہوئی ہے۔
جسارت میگزین: آپ کے نزدیک علم عروض کی کیا حیثیت ہے؟
یشب تمنا: علمِ عروض شاعری کا علم ہے جو کہ ہر شاعر کو آنا چاہیے لیکن اس کے بغیر بھی شاعری ہو رہی ہے لوگ گنگنا کر مصرع کہہ لیتے ہیں۔ ہر زمانے میں علم عروض جاننے والوں کے مقابلے میں علم عروض نہ جاننے والوں کی تعداد بہت زیادہ رہی ہے۔
جسارت میگزین: نثری نظم کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
یشب تمنا: نثری نظم کا کوئی رول ماڈل ہمارے سامنے نہیں ہے لیکن نثری نظم کا مستقبل تاریک ہے‘ یہ کہنا غلط ہے۔ ویسے اب تک نثری نظم کو کوئی بڑا نام نہیں مل سکا ہے اگر اس میں کوئی اہم اور بڑا نام مل جائے تو ممکن ہے کہ نثری میدانِ سخن میں اہمیت کی حامل ٹھہرے۔ نثری نظم میں غنائیت تو نہیں ہوتی تاہم چونکا دینے والے مصرعے ہوں تو نثری نظم داد پاتی ہے۔
جسارت میگزین: آج کے زمانے میں تنقید کا معیار کیا ہے؟
یشب تمنا: تنقیدی رویے پہلے بھی جانب دارانہ تھے اور اب اس سے بھی زیادہ ہیں۔ تنقید نگاری کے لیے پہلے آپ کو وہ تخلیق پڑھنی پڑھتی ہے جس پر آپ کو لکھنا ہے یہ ایک دشوار کام ہے۔ لوگ اب سہل پسند ہوگئے ہیں یا ان کے پاس وقت نہیں ہے لہٰذا وہ تخلیق پڑھے بغیر تنقید شروع کر دیتے ہیں۔ وہ تنقید نہیں ہوتی وہ تبصرہ ہوتا ہے اکثر کتابوں کے فلیپ پر تعریفی مضامین چھپے ہوتے ہیں ہم اپنی کتاب کی تعارفی تقریب میں کسی کھرے تنقید نگار کو بلواتے ہوئے ڈرتے ہیں جب یہ صورت حال ہوگی تو تنقید کا معیار کیسے بلند ہوگا۔
جسارت میگزین: الیکٹرانک میڈیا اردو کی تفہیم نگاری میں کیا کردار ادا کررہا ہے؟
یشب تمنا: اس وقت ہمارے ٹی وی اینکرز میں دونوں طرح کے اینکرز ہیں۔ ایک تو وہ ہیں جو بالکل صحیح تلفظ کے ساتھ اردو بول رہے ہیں دوسرے وہ ہیں جو اہل اردو نہیں ہیں مگر ٹی وی اینکر ہیں وہ اردو کا بیڑہ غرق کر رہے ہیں کیونکہ آپ کسی بھی زبان کو چاہے جتنا بھی سیکھ لیجیے آپ اہل زبان کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ لیکن صرف کتابیں پڑھنے سے سارا علم نہیں آتا۔مجلسی علم بھی ضروری ہے۔ مزید یہ کہ اب کسی بھی ٹی وی پر زبان دانی سکھانے کا کوئی اہتمام نہیں ہے پہلے پاکستان ٹی وی اور ریڈیو پاکستان میں ماہرانِ اردو زبان اسکرپٹ پڑھ کر سناتے تھے اور ٹی وی پر خبریں پڑھنے والا یا ریڈیو کے پروگرام کرنے والے تب اپنی آواز کا جادو جگاتے تھے۔ اردو ایک مشکل زبان ہے زیر‘ زبر کی تبدیلی سے مفہوم و معنی بدل جاتے ہیں۔
جسارت میگزین: آپ کا نظریۂ ادب کیا ہے؟
یشب تمنا: ادب اور زندگی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جب تک ہم اپنی تحریروں میں زندگی کے تجربات و مشاہدات نہیں لکھیں گے‘ ہم کامیاب قلم کار نہیں بن سکتے ہیں۔ صرف لفاظی سے کام نہیں چلتا‘ شاعروں اور ادیبوں کا فرض ہے کہ وہ معاشرتی ظلم و ستم اور برائیوں کی نشان دہی کریں‘ حکومتِ وقت کے قصیدے پڑھ کر مال و دولت نہ کمائیں‘ جن قلم کاروں نے حق و صداقت کی صدائیں بلند کی ہیں وہ آج تک قرطاس ادب پر زندہ ہیں‘ دیکھیے نثار صاحب بات یہ ہے کہ ہر شخص تو شاعر و ادیب نہیں بن سکتا یہ ایک خداداد صلاحیت ہے لہٰذا شاعر زمانے کا نباض ہوتا ہے وہ انتہائی حساس ہوتا ہے‘ وہ اپنے اردگرد جو کچھ دیکھتا ہے شاعری میں ڈھال دیتا ہے۔ جب آپ غزل کہتے ہیں تو اپنے محبوب کے بارے میں مبالغہ کرتے ہیں‘ ذہنی عیاشی کے لیے یہ سب ٹھیک ہے لیکن جب آپ کوئی حقیقت پر مبنی شعر کہتے ہیںتو آپ کو بہت داد ملتی ہے۔
جسارت میگزین: برطانیہ میں اردو زبان کی کیا حیثیت ہے؟
یشب تمنا: اگر کوئی زبان آپ کے روزگار میں معاون و مددگار نہیں ہے تو وہ زبان آپ کو اوّلیت نہیں بنے گی۔ پاکستان میں اب تک اردو زبان کسی حد تک اقتصادیات سے جڑی ہوئی ہے لیکن پاکستان سے باہر اردو کا تعلق اس طرح نہیں ہے ایک زمانے میں برطانیہ کو اردو زبان کا تیسرا مرکز کہا جاتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے اس کا سبب یہ ہے کہ برطانیہ میں جو لوگ اپنی روزی کما رہے ہیں ان کے لیے انگریزی جاننا ضروری ہے۔ برطانیہ میں پیدا ہونے والا ہر بچہ انگریزی سیکھنے پر توجہ دیتا ہے اردو جاننا اس لیے ضروری نہیں البتہ اردو ڈرامے یا اردو فلمیں وہاں چل رہی ہیں۔ ہم جس زبان میں سوچتے ہیں وہی ہماری مادری زبان ہوتی ہے۔ برطانیہ میں رہنے والے پاکستانی نژاد بچے انگریزی میں سوچتے ہیں اب برطانیہ میں دوسری زبانیں اپنی جگہ بنا رہی ہیں لہٰذا جس زبان سے ہمیں فوائد حاصل ہوتے ہیں ہم اس زبان سے جڑ جاتے ہیں۔ برطانیہ میں Reading Habit بہت زیادہ ہے لوگ اپنے فارغ وقت میں کتابیں پڑھتے ہیں‘ رسالے پڑھتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں ہی کہ وہ ادب سے جڑے ہوئے ہیں‘ وہ اپنے مطلب و مقاصد کی تحریریں پڑھتے ہیں۔ ہمارے یہاں لوگ کتابیں پڑھنے کے بجائے الیکٹرانک میڈیا سے اپنے مطلب کے مضامین نکال لیتے ہیں لیکن ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کتب میلوں میں کتابیں خوب بکتی ہیں۔ کتابوں کی پرنٹنگ مہنگی ہے‘ کاغذ مہنگا ہے لہٰذا کتابوں کی قیمتیں عام انسان کی دسترس سے باہر ہوتی جارہی ہیں اس وجہ سے بھی کتب بینی کا شعبہ کمزور ہو رہا ہے حکومتِ وقت اس سلسلے میں کچھ توجہ دے تو کتابیں کم قیمت پر دستیاب ہوسکتی ہیں۔ نیشنل بک فائونڈیشن‘ اکادمی ادبیات پاکستان‘ انجمن ترقیٔ اردو‘ سندھ کلچرل ڈپارٹمنٹ یا دیگر ادارے اگر غریب ادیبوں‘ شاعروں کی کتابوں کی اشاعت میں مدد کریں تو کم قیمت پر کتابیں شائع ہوسکتی ہیں اور ہر شخص باآسانی کتاب خرید سکتا ہے۔
جسارت میگزین: کیا برطانیہ میں بھی پرائیویٹ تعلیمی ادارے ہیں؟
یشب تمنا: جی ہاں‘ برطانیہ میں اسٹیٹ اداروں کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ انسٹی ٹیوشنز بھی ہیں تاہم وہ بہت مہنگے ہیں کوئی غریب آدمی ان اداروں میں اپنے بچوں کو پڑھانے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ برطانیہ کے سرکاری تعلیمی اداروں اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا نصاب یکساں ہے ہمارے ملک کی طرح نہیں کہ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی چند کتابوں کے سوا‘ تمام پرائیویٹ تعلیمی ادارے اپنی مرضی کی کتب پڑھا رہے ہیں‘ ان کے طریقۂ تعلیم ہمارے یہاں کے Teaching of Method سے الگ ہے وہ بچے کے رجحان کے مطابق تعلیم دیتے ہیں۔ یہاں طلبا و طالبات کو Notes بنا کر دے دیتے ہیں بچے ان سوالات کے جوابات رٹ لیتے ہیں اور امتحان پاس کر لیتے ہیں۔ وہاںلیکچر Method عام ہے‘ طلباء و طالبات خود اپنے طور پر Notes تیار کرتے ہیں۔
جسارت میگزین: نعت نگاری کے بنیادی تقاضے کیا ہیں؟
یشب تمنا: نعت نگاری ایک مشکل صنف ہے اس میں غلو یا جھوٹ کی کوئی گنجائش نہیں ہے اس کے ساتھ ساتھ حدِ ادب بہت ضروری ہے‘ حمد و نعت کے اشعار الگ ہوتے ہیں دونوں کے مضامین آپس میں نہیں ملنے چاہئیں۔
جسارت میگزین: رثائی ادب کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
یشب تمنا: رثائی ادب واقعۂ کربلا سے پہلے بھی موجود تھا لیکن حضرت امام حسینؓ کی شہادت‘ ان کے رفقا کی شہادت اور دیگر واقعاتِ کربلا اب رثائی ادب کا اہم ترین موضوع ہیں اس سلسلے میں ہندوپاک کے مشاعروں نے اس صنفِ سخن میں کمال حاصل کیا ہے۔ لیکن اب رثائی ادب امام بارگاہوں اور مجالس امام حسینؓ تک محدود ہوتا جارہا ہے۔ موجودہ زمانے میں کوئی بڑا نام رثائی ادب کے حوالے سے سامنے نہیں آرہا لیکن رثائی ادب نے اردو ادب کو Rich کیا ہے۔
جسارت میگزین: کراچی کے شعرا اور برطانیہ کے شعرا کے درمیان کیا فرق ہے؟
یشب تمنا: برطانیہ میں اردو زبان کے شاعروں کا تعلق برصغیر پاک و ہند سے ہے نئی نسل شاعری کی طرف راغب نہیں ہے جب کہ کراچی میں نوجوان نسل شاعری میں آگئی ہے اس وقت کراچی کے سینئر شعرا کے ساتھ ساتھ نوجوان شعرا بھی بہت اچھا کہہ رہے ہیں البتہ ادبی گروہ بندیوں سے نقصان ہو رہا ہے‘ اس وقت پاکستان میں دبستان لاہور اور دبستان کراچی بہت فعال ہیں جب کہ چھوٹے چھوٹے شہروں کے شعرا کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ پاکستان میں غزل اپنے روایتی انداز کے علاوہ جدید مضامین سے مربوط ہو گئی ہے۔ برطانیہ کے اردو شعرا کے یہاں ہجرت کے مسائل نظم ہو رہے ہیں جب کہ پاکستان میں اب ہجرت کے مضامین نظم ہونا بند ہو گئے ہیں اب دیگر مسائل پر قلم اٹھایا جارہا ہے۔ برطانیہ میں بھی متشاعر موجود ہیں۔ برطانیہ میں ادبی تنظیمیں موجود ہیں وہاں بھی انجمن ستائش باہمی کی بیماری موجود ہے یہ بیماری پاکستان سے برطانیہ منتقل ہوئی ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ غزل اب کہاں پہنچ گئی ہے تو یہ بات سچ ہے کہ نئے نئے استعاروں‘ نئی نئی تراکیبِ لفظی سے غزل میں ترقی ہو رہی ہے غزل کی ترقی کا سفر جاری ہے مشاعرے اردو ادب کی ترقی میں مددگار ہوتے ہیں۔ برطانیہ میں کوئی فالتو نہیں ہوتا وہاں مشاعرے اتوار کی دوپہر کو ہوتے ہیں یا ویک اینڈ پر وہاں پر ہم لوگ معاشی طور پر شفٹ ہوئے ہیں لہٰذا نوکری‘ روٹی روزگار کے مسائل میں سے جو وقت بچتا ہے اس میں ادبی تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔