(عورت پہیا نہیں پنکھا(پروفیسر عنایت علی خان

480

چند روز قبل دیگر درآمد شدہ دنوں کی مانند women’s leadership day (خواتین کی قیادت کا دن) منایا گیا۔ اس سلسلے میں جہاں مختلف اداروں اور این جی اوز کے اجتماعات ہوئے وہیں حیدر آباد میں ’’لیاقت یونیورسٹی آف ہیلتھ اینڈ میڈیسن‘‘ میں بھی ایک تقریب ہوئی جس میں مذکورہ ادارے کے ایک استاد (جو میرے شاگرد رہے تھے) کی تجویز پر مقررین میں میرا نام بھی شامل کیا گیا جب کہ دو مقررات میں سے ایک یونیورسٹی کی پرووائس چانسلر اور دوسری جامعہ سندھ کی پروفیسر امر سندھو تھیں۔ سات ماہ قبل حیدر آباد سے کراچی منتقل ہونے کے بعد وہاں جانے کا ایک بہانہ مل گیا کہ:
کبھی چھوڑی ہوئی منزل بھی یاد آتی ہے راہی کو
مدرسہ عربیہ ریاض العلوم میرپور خاص روڈ سے طویل عرصے تک وابستگی (رہی تھی جو کسی درجے میں اب تک ہے) کے سبب وہاں بھی کچھ دیر ہی کے لیے سہی، گیا اور بہتر انتظامات دیکھ کر یک گونہ خوشی ہوئی، قریبی اعزہ سے بھی مختصر ملاقات کا موقع ملا، تنظیم اساتذہ کے احباب نے بھی مسجد قبا میں (اس سے وابستگی بھی مختلف حیثیتوں میں رہی) تنظیم نے سیرت النبیؐ کے حوالے سے ایک تقریب رکھ لی تھی اس میں بھی شرکت کی، بیٹے کی قبر پر جا کر دُعا کرنے کا بھی موقع ملا۔ اس طرح حیدر آباد کا یہ دورہ ایک پنتھ کئی کاج کا مصداق ثابت ہوا۔
شاگرد عزیز ڈاکٹر گلزار عثمانی کی خواہش تھی کہ مذکورہ بالا موضوع پر دینی زاویے سے معلومات فراہم کی جائیں چناں چہ میں نے ابتدا قرآن کریم کی اس آیت سے کی۔
الرجال قوامون علی النساء (ترجمہ: مرد عورتوں پر قوام ہیں)
پہلے قوام کے معنی بتلائے کہ اس کے معنی نگہبان، محافظ اور کفیل کے ہیں۔ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ نے مردوں کو خواتین کے تحفظ اور کفالت کی ذمے داری سپرد کرکے خواتین کو اس ذمے داری سے بری کردیا ہے تا کہ وہ اپنی فطری صلاحیتوں کو گھریلو ذمے داریوں اولاد کی صحت و تربیت اور مرد کی راحت رسانی کے اہم فرائض انجام دے سکیں۔ لیکن اس کے علاوہ سرگرمیوں میں بھی حسب ضرورت حصہ لینے کو ممنوع نہیں قرار دیا۔ مثلاً نبی اکرمؐ نے بازار میں اشیائے صرف کے نرخ متعین کرنے اور اُن کی نگرانی کی ذمے داری ایک خاتون ہی کے سپرد کی تھی۔ نیز غزوات کے موقع پر زخمیوں کو پانی پلانے اور ان کی مرہم پٹی کرنے کی ذمے داری بھی عورتوں کے سپرد کی تھی لیکن اُن کی اصل ذمے داری اولاد کی تربیت ہی کی تھی جس کے لیے اُن کی فطرت میں امومت (مامتا) کا جذبہ ودیعت کیا گیا تھا۔
میں نے اس ضمن میں دو تین مقولے بھی پیش کیے جو اولاد کی تربیت کے حوالے سے معروف ہیں مثلاً نپولین نے کہا تم مجھے اچھی مائیں فراہم کردو میں تمہیں ایک اچھی قوم دوں گا۔ نیز اہل چین کا یہ مقولہ کہ اگر سال بھر کی منصوبہ بندی کرنی ہے تو اناج کی فصلیں لگاؤ، چند سال کی کرنی ہے تو پھل دار درخت لگاؤ اور ہمیشہ کی منصوبہ بندی کرنی ہے تو اچھی نسل پیدا کرو۔ اچھی نسل کی تیاری کے حوالے سے ماں کی اہمیت اُجاگر کرنے کے لیے میں نے ایک مثال دی کہ امریکا میں بن بیاہے جوڑوں کی اولاد کو Flower children (پھول سا بچہ) کا نام دے کر اُن کی پرداخت کی ذمے داری حکومت نے اپنے ذمے لی ہوئی تھی لیکن ماں کے بجائے خادماؤں کے سپرد کردہ بچے جب جوان ہوئے تو معلوم ہوا کہ جن بچوں کو ’’فلاور‘‘ یعنی پھول کے لقب سے ملقب کیا تھا وہ تو سرکشی اور قانون شکنی کے مرتکب ہو کر خارِ مغیلاں (ببول کے کانٹے) ثابت ہوئے۔ چناں چہ حکومت نے جو اسقاطِ حمل پر قانوناً پابندی لگائی تھی وہ اٹھالی کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ اس کو انگریزی میں To nip in the bud کہا جاتا ہے یعنی پودے کے اکھوے ہی کو کچل کر ختم کردیا جائے۔
اسی کے ساتھ میں نے دنیا کی معروف انٹرویور (انٹرویو لینے والی، خاتون اوریانہ فلاسی کے ایک ناول letters to the child never born (نہ پیدا ہونے والے بچے کے نام خطوط) کا ذِکر کیا جس میں ایک خاتون استقرار حمل سے باخبر ہوتے ہی دن کی ملازمت کے بعد اپنی کوکھ میں موجود وجود کو خطوط لکھنا شروع کردیتی ہے جن میں مامتا کا کیف آور جذبہ منہ سے بولتا نظر آتا ہے اس کی شدید خواہش ہے کہ اُمید برآئے اور اس کی فطری محبت کا مرکز و محور اس کی آغوش میں چمکتا نظر آئے لیکن ایک طرف اُس کا شریک حیات اور دوسری طرف اس کا ’’باس‘‘ اس کو مجبور کردیتے ہیں کہ اپنی مامتا کا گلا گھونٹ کر اسقاط کرالے۔ یہ وہ صورتِ حال ہے جس کی نقشہ کشی پون صدی قبل علامہ اقبال نے ان الفاظ میں کی تھی۔
کیا یہی ہے معاشرے کا کمال
مرد بیکار و زن تہی آغوش
میں نے طلبہ و طالبات (غالباً اکثریت طالبات کی تھی) کو اُس واردات سے بھی آگاہ کیا کہ یورپ میں ’’صنعتی دور‘‘ میں جب دیہی آبادی شہروں میں یلغار کرکے آئی تو اسے شہری زندگی کے لوازمات نے مجبور کیا کہ گزارے کے لیے میاں بیوی دونوں ملازمت کریں۔ یوں مساواتِ مرد و زن اور معاشرتی زندگی کے دو پہیوں کے تصور کا نعرہ ایجاد کیا گیا اور عورت کو گھر گرہستی کے ساتھ مردوں کے پیشے اپنانے پر مجبور کیا گیا اور اس قابل رحم مشقت کو عورتوں کے علوئے مرتبت یعنی ترقی و اعزاز کا نام دیا گیا اور عورت بھی اس بھرے میں آکر نازاں ہوگئی کہ اب وہ مردوں سے کم تر نہیں برابر بلکہ زیادہ مطلوب و گراں قیمت ہوگئی ہے۔
میں نے لسان العصر اکبر الٰہ آبادی کا وہ شعر بھی خواتین کی لیڈر شپ (جو مذاکرے کا عنوان تھا) کے بارے میں سنایا:
کچھ دن کی اور بات ہے اے مردِ ہوش مند
غیرت نہ تجھ میں ہو گی نہ زن اوٹ چاہے گی
وہ دن بھی ہیں قریب کہ اولاد کے عوض
کونسل کی ممبری کے لیے ووٹ چاہے گی
چلتے چلتے سوشل خواتین کے معمولات کے بارے میں مَیں نے جو اپنا شعر سنایا وہ تھا:
جاب شاپنگ کلب ویلفیئر کے سو کام
میری گھر والی کو فرصت بھی ہو گھر آنے کی!
اخیر میں‘ مَیں نے مرد اور عورت کے لیے استعمال کیے جانے والے اس مقولے کے مقابلے میں کہ وہ ’’قومی گاڑی کے دو پہیے ہیں‘‘ اور ایک پہیے کے غیر فعال ہونے کے نتیجے میں قومی معیشت کی بڑھوتری نصف رہ جاتی ہے۔ یہ مثال برائے غور Food for thought پیش کی کہ عورت، کار کا پہیہ نہیں صنف نازک ہونے کی حیثیت سے گاڑی کے محفوظ حصے یعنی انجن کا وہ پنکھا ہے جو انجن کو ٹھنڈا رکھ کر پہیوں کی کارکردگی کو برقرار اور نتیجہ خیز بناتا ہے۔
جامعہ سندھ کی پروفیسر محترمہ امر سندھو نے پاکستانی معاشرے میں خواتین کی مختلف شعبوں میں شرکت کار کا ذِکر کیا البتہ دوسری محترم خاتون، پرووائس چانسلر صاحبہ نے مردوں کی زیادتیوں پر تنقیدی تبصرہ کیا اور طلبہ و طالبات کو پیشہ مسیحائی کی اہمیت اور اسی حوالے سے بہتر سے بہتر کارکردگی کے مظاہرے کی تلقین کی۔ موصوفہ کے خطاب کے دوران ایک طالبہ نے ایک پُر ذہانت سوال بھی کیا جس کا اسے اطمینان بخش جواب مل گیا۔
اخیر میں ایک دلچسپ امر کا ذِکر بے محل نہ ہوگا کہ مذاکرے کا ذیلی عنوان تھا let us drop the gender mask یعنی ہر دو اصناف کے درمیان حائل حجاب روا نہ رکھا جائے لیکن جو نوجوان لڑکی اس پوری تقریب کی ناظمہ ہی نہیں روح و رواں تھی وہ سر سے پیر تک حجاب میں تھی اور مقررین کو دعوت خطاب دیتے ہوئے صرف اس کی پُر ذہانت آنکھیں ہی نظر نواز تھیں۔ اس تضاد نے لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کیا۔