کراچی (اسٹاف رپورٹر)تھر سے منصوبے علاقے کے زیرزمین پانی کو زہریلا بنا دیں گے منصوبے کی مخالفت کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو را کا ایجنٹ قرار دیا جا رہا ہے ان خیالات کا اظہارنیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کے چیئرمین جسٹس (ر) علی نواز چوہان نے کراچی پریس کلب میں پائیلرکی جانب سے تھرمذاکرے میں تقریر کرتے ہوئے کیا۔تقریب میں تھر کے علاقے اسلام کوٹ سے تعلق رکھنے والے متاثرہ افراد نے مذاکرے میں اپنے مسائل اور حقائق بیان کیے۔علی نواز چوہان نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ وہاں کے مقامی لوگوں اور ماہرین نے جو حقائق یہاں پر بیان کیے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اینگرو کمپنی مقامی آبادی کے لیے خطرہ بنتی جا رہی ہے۔ مقامی افراد کے سروں پر منڈلاتے ہوئے خطرات کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ وہاں کی مقامی آبادی کا فقط ایک مطالبہ ہے کہ کوئلے کی صنعت سے خارج ہونے والے پانی کے اخراج اور جمع کرنے کا مقام تبدیل کیا جائے۔تھر سے تعلق رکھنے والے وکیل لیلارام نے کہا کہ منصوبے کی مخالفت اور اس کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر را کا ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اخراج شدہ پانی کو ذخیرہ کرنا ماحول کو تباہ کر کے رکھ دے گا۔
علاقے کے زیرزمین پانی کو زہریلا بنا دے گا۔اور مقامی آبادی کو دربدرہونا پڑے گا۔مذاکرے سے انیس ہارون، نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کی سندھ سے رکن فیصل صدیقی ایڈووکیٹ،ایگزیکٹو ڈائریکٹر پائلرکرامت علی،پاکستان فشرفوک فورم کے جمیل جونیجو، سامی فاؤنڈیشن کے غلام مصطفیٰ کھوسو،تھرپارکر سے دلیپ جوشی اور پائلر سے ذوالفقار شاہ نے خطاب کیا۔جسٹس(ر) چوہان کا کہنا تھا کہ واجب الرض کے قانون کے مطابق یہ مقامی لوگوں کو حق ہے کہ جہاں وہ صدیوں سے رہ رہے ہیں اورذریعہ معاش ہے تو اس زمین پر پہلا حق ان کا ہے۔اگر حکومت کو انتہائی ضرورت کی بنیاد پر وہ زمین درکار ہے تو پہلے وہاں کے لوگوں سے رائے لیں اور اس زمین کو مناسب معاوضہ ادا کرے اور متبادل فراہم کرے۔ اس حوالے سے انہوں نے شریعت کورٹ کے مقدمے قزلباش کیس کا حوالہ دیا۔اس مقدمے میں انہوں نے مفتی تقی عثمانی کی جانب سے بیان کیے گئے دلائل سناتے ہوئے کہا کہ جب حضرت داؤد نے خدا کے حکم پربیت المقدس تعمیر کرنا شروع کیا تو جس مقام پر ہو تعمیر ہو رہی تھی اس کے مالک نے وہ زمین دینے سے انکار کردیا تھا۔ حضرت داؤد نے ان سے مذاکرات کیے جوکامیاب نہیں ہو سکے۔ جس کے بعد حضرت داؤد کے بیٹے حضرت سلیمان اس زمین کے مالک سے مذاکرات میں کامیاب ہوئے وہ زمین کی رقم ادا کرنے چاہتے تھے لیکن زمین کے مالک نے وہ جگہ عطیہ کردی۔