خالد معین نئی حیرتوں کے خمار میں

390

سیمان کی ڈائری
بزمِ رئیس فروغ کے زیر اہتمام پچھلے دنوں یونین کلب کے پر فضا مقام پر معروف شاعر اورصحافی جناب خالد معین کے تازہ اور پانچویں شعری مجموعے ’’نئی حیرتوں کے خمارمیں ‘‘ کے سلسلے میں شعری نشست کا اہتمام کیا گیا۔ اس نشست کی صدارت ملک کے معروف شاعر جناب محسن اسرار صاحب نے کی۔ اس نشست کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں ستر کی دہائی سے لے کر اب تک اس شعری منظر نامے پر ابھرنے والے چند احباب نے بھر پور شرکت کی۔ ان میں جناب اجمل سراج، جناب زاہد حسین زاہد، عمران شمشاد، کامران نفیس ، ڈاکٹر سلمان ثروت، عباس ممتاز اور خاکسار کے علاوہ عبدالرحمان مومن شریک تھے۔بزمِ رئیس فروغ کے منتظم اعلی جناب طارق رئیس فروغ اور ان کے صاحبزادوں شارق رئیس ، ذیشان رئیس اور ارسلان رئیس نے اس نشست کا بھرپور اہتمام کیا۔
صاحب ِ شام خالد معین کے اعزازاس نشست کی صدارت صاحبِ اسلوب شاعر جناب محسن اسرار صاحب نے کی۔ سب سے پہلے تمام احباب نے خالد معین بھائی کے پانچویں شعری مجموعے ’’نئی حیرتوں کے خمار میں‘‘پر گفتگو کی۔ سب سے پہلے اردو شاعری کے بہت اہمن شاعر جناب اجمل سراج نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خالد معین کی غزلیں ان کے لڑکپن سے چل رہی ہیں۔ ’رات آنکھوں میں کاٹنے والے ‘،’ شاد رہو آباد رہو‘ اس سے بھی پہلے کی غزلیں اور آج تک ان میں آپ کو کسی مجموعے میں یہ نہیں ملے گاکہ لفظوں سے چیزوں یا شکلیں بنانے کی کوئی کوشش کی گئی ہے۔ جیسے ہماے اس عہد کے کئی شاعروں نے ایسا کیا ۔غلام حسین ساجد کی کچھ کتابیں ایک زمانے میںآئیں جس میں موسم اور چار پانچ موسم کی غزلیں یا قیامت تو اس طرح کی چار پانچ ردیفیں لے لیں تو ایسی کوئی چیزہمیں خالد معین کی شاعری پڑھتے ہوئے نہیں ملیں۔ وہی شاعری ہے جو آپ اس سے پہلے سنتے رہے ہیں اور داد بھی دیتے رہے ہیں۔’ گفتگو سے اور بڑھ جاتا ہے جوشِ گفتگو‘ اگر میں کتاب کھول لوں تو بات تو ایسی ہے کہ بات کیے چلے جاؤاور گفتگو چلتی رہے گی۔ اس گفتگو کے بعد بزم رئیس فروغ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے اجمل سراج نے کہاطارق رئیس فروغ جو اس بزم کے روحِ رواں ہیں ۔جیسے سلیم احمد صاحب کی تواضع مشہور تھی اور وہ تواضع ان کی چائے ہوا کرتی تھی ۔اسی طرح طارق رئیس فروغ بہت زیادہ ملنسار اور محبت کرنے والے انسان ہیں ۔جب بھی ملتے ہیں دوستوں کی بھرپور تواضع میں لگ جاتے ہیں۔ ان کے زیر سایہ بزمِ رئیس فروغ نے بڑے بڑے پلان کیے ہوئے ہیں۔ ایک رسالہ بہت جلد آنے والا ہے۔ رئیس صاحب کے تین پوتے ، شارق رئیس، ذیشان رئیس اور ارسلان رئیس بھی اپنے والد کے ساتھ ادب کی خدمت میں پیش پیش رہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو خالص ادب کی ترویج میں ہر وقت کوشاں رہتے ہیںناکہ رئیس فروغ کے نام کے لیے ۔ کیوں کہ یہ گھرانا بہ خوبی سمجھتا ہے کہ ادب کی خدمت میں ہی ان کا نام ہوگا ۔ آج ہم لوگ خوش قسمت ہیں کہ ہم ان کے مہمان ہیں اور وہ ہمارے میزبان ہیں۔محسن اسرار صاحب اور زاہد حسین زاہد صاحب کے حوالے سے گفتگوکرتے ہوئے انھوںنے کہا کہ آج دونوں اس نشست میں موجود ہیں۔اجمل سراج بھائی نے ان نشستوں کا ذکر بھی کیا جو واٹر پمپ، انچولی اور اس کیاطراف میںموجود ہوٹلوں پر ہواکرتی تھیں۔ زاہد حسین زاہد صاحب کا تعارف کراتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ زاہد صاحب اس وقت بہت فعال تھے۔ اس زمانے میں جمال احسانی کی کتاب ’’رات کے جاگے ہوئے ‘‘شائع ہوئی اور اس پر زاہد حسین زاہد نے فلیپ لکھا۔ پھر یہ شہر مانند پڑ گیا، غبار چھاگیا اور اس میں بہت ساری چیزیں اِدھر اُدھر ہو گئیںتو آج ہم دوبارہ بیٹھے ہوئے ہیں۔
معروف شاعر اور نقادجناب زاہد حسین زاہد نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ خالد معین کی کتاب پڑھتے ہوئے مجھے احساس ہوا جیسے میں ن م راشد کے حسن کوزہ گر کو دریافت کر رہا ہوںجو عین شب ِصال سے گریز کرتا ہوا ہجر کی سیاہ رات میں پہنچ جاتا ہے ۔جب اس پر ہجر پورابیت جاتاہے، تب وہ واپس اُس مہ لقہ کے پاس جاتا ہے تو اسے اپنے سارے کوزے یاد آجاتے ہیں جو ٹوٹے ہوئے پڑے تھے۔تب اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ خود بھی ایک کوزے کی مانند ہے جو ٹوٹا ہواپڑا ہے۔ اس سے ہمیں یہ پتا چلتا ہے کہ یہ کوزے، کوزے نہیں، ان کی بھی اپنی ایک شخصیت ہے ۔مجھے یہ لگا کہ خالد معین نے نہ صرف خود کو دریافت کیا بلکہ ان کے کوزے، ان کی شاعری ہے۔ ان کی اپنی ایک شخصیت تو ہے لیکن ان کی شاعری بھی ایک اپنی شناخت کا درجہ رکھتی ہے ۔طارق رئیس فروغ صاحب کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے اتنی اچھی محفل کا اہتمام کیا جس میںمحسن اسرار، اجمل سراج اور نوجوان شعرا موجود ہیں۔
صاحبِ شام جناب خالد معین نے طارق رئیس فروغ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنی گفتگو میں کہا کہ اس نشست کے اہتمام کی بنیادی روح طارق رئیس بھائی ہیں اور پر تواضع آدمی ہیں۔ نوجوان شعرا اور خاص کر محسن اسرار بھائی، اجمل سراج، زاہد حسین زاہد بھائی کاممنون ہوں کہ و ہ یہاں موجود ہیں اور نوجوان بھی۔ یعنی اس مل بیٹھنے کے وقار میں اضافہ ہوگیا ہے۔ پھولوں اور سبزے کے درمیان اس حسین رت میں سب دوستوں نے گفتگوکی، مجھے بہت اچھا لگا ہے۔طارق رئیس نے بنیادی طور پر ایک موقع فراہم کیا جس میں ہم تمام دوست یک جا ہو سکیں،آپس میں مل سکییں کیوں کہ اس وقت عالمی سطح پر ایک وبائی مرض نے بہت بری طرح جکڑا ہوا ہے اور دہشت طاری ہو رہی ہے اور ایک خوف کی لہر دیکھنے میں آ رہی ہے۔ اس میںجو ہونے جا رہا ہے خدا کرے وہ سب کچھ نہ ہو ۔ آج کا مل بیٹھناایک خوبصورت واقعہ ہے ۔
صاحب صدرجناب محسن اسرارنے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے کہ آج خالد معین کی کتاب کی تقریب میں شریک ہوں ۔خالد معین کا اپنا ایک اسٹائل ہے کہ وہ خودبھی متحیر ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی اپنی شاعری سے متحیر کرتے ہیں۔ خالد معین کلام کہنے کے بعد اس کی فضا سے نکل جاتے ہیں۔ ہمیں ان سے نیا کلام، نیا شعر سننے کو ملتا ہے۔ انھوں نے اپنا مقام برقرار رکھا۔ لوگ ان سے توقع کرتے ہیں کہ وہ کچھ نیا کہیں اور یہ کہتے بھی ہیں۔ ان کا لب و لہجہ ، ان کی فکر اس انداز کی ہے کہ یہ ضعیف بھی ہو جائیں گے تو بھی نوجوان شاعر کہلائیں گے ۔ کامران نفیس نے کہا کہ آج کی خوبصورت شام ہمیں بزمِ رئیس فروغ کے توسط میسر آئی ۔ میں اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتاہوں کہ میںاس میں شریک ہوں۔ رئیس فروغ صاحب کی شخصیت کیا ہوگی وہ طارق بھائی کے چہرے، ان کے انداز ِ محبت سے عیاں ہوتی ہے۔ خالد معین کی کتاب کی تقریب کا سلسلہ تقریبا ڈیڑھ ماہ سے چل رہا ہے ۔ بہت سارے پلیٹ فارم پران کے اعزاز میںنشستیں ہوئیں۔خاص کر دونشستیں جن میں ایک کورنگی میں اور ایک آج کی محفل نہایت شاندار ہے جس میں ہم جیسوں کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع مل رہا ہے ۔تمام سینئیرز نے گفتگو کی کہ جو ادب آداب کا طریقہ ہے اس سے بہت سارے نوجوان شعرا کو سیکھنے کو ملتا ہے اور ہم ان سینئیرز کے درمیان میں موجود ہیں۔
عمران شمشادجو پچھلے دنوں ٹریفک حادثے کا شکار ہونے کے باوجود شریک ہوئے اور گفتگو میں کہاکہ خالد بھائی کی کتاب جب بھی پڑھتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ جوان کے اندر سے نکلتاہے ،گزرتا ہے ان کی نثری تحریریں بھی پڑھیں یہ ایک ہی شخص کا سارا کام ہے اور وہ اپنی ذات سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان کا انداز ایسا ہے کہ ان کی عمر اگر سو سال بھی ہوگی تو ان کا سفر بھی اسی طرح آگے بڑھتا رہے گا۔ وہ اپنی ذات سے متعلق تخلیقات سامنے لاتے ہیں اور ہمیں حیران کرنے کے ساتھ ساتھ زبان کے نئے ذائقے سے بھی متعارف کراتے ہیں۔ سلمان ثروت نے متنظمین کا شکریہ ادا کیا اور اپنی گفتگو کہا جب بھی خالد بھائی کو پڑھا ان شاعری میں ان کی شخصیت جھلکتی ہے۔خالد بھائی کی شاعری میں جیسے بہت سارے اشعار کہہ رہے ہوتے ہیںاس میں ایک اداسی کی لہر بھی چل رہی ہوتی ہے بہ ظاہر آپ کو لگے گاکہ طنز یا سرخوشی کی بات ہے اور تھوڑی بعد آپ کو حیرت میں ڈالتی ہے ۔ خالد بھائی ہمیں اس طرح سے حیرت میں مبتلا کرتے ہیں۔نوجوان شاعر عباس ممتازنے کہا کہ آج بہت خوبصورت شام سجائی گئی ۔خالد بھائی سے میری ملاقات دوہزار نو میں ہوئی۔ اس کے بعد ہم ایک نجی چینل میں بھی ایک ساتھ رہے ہیں۔ خالد بھائی بنیادی طور پر ایک نفیس،بہت محبت اور پیار کرنے والے انسان ہیں۔ہمیشہ شفقت سے پیش آتے ہیں۔ طارق رئیس کے صاحبزادوں میں شارق رئیس، ذیشان رئیس اور ارسلان رئیس نے بھی گفتگو کی اور کہا کہ ہمارے لیے اعزاز کی بات ہے کہ آج خالد معین بھائی کی کتاب کی تقریب ہے اور اس طرح کی محفلیں ہونی چاہییں۔ جاوید صدیقی صاحب نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ خالد بھائی کو میں کئی بار سن چکا ہوں ۔ بہت کمال انسان ہیں اور خوش نصیب ہوں کہ آج انکی تقریب میں شریک ہوا ہوں ۔ بزم رئیس فروغ کے روحِ رواں جناب طارق رئیس فروغ نے تمام دوستوں کی آمد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ مجھے خوشی ہے بزمِ رئیس فروغ کے زیراہتمام خالد معین کے پانچویں شعری مجموعے نئی حیرتوں کے خمار کے سلسلے میں نشست میں تمام دوستوں نے اپنا قیمتی وقت نکالا۔ خالد معین کے لیے اتناکہوں گا کہ ہم تو ابھی تک اُن کی پرانی حیرتوں کے خمار ہی سے نہیں نکل سکے کہ انھوں نے نئی حیرتوں کا خمار کا تحفہ کتاب کی صورت میں پیش کیا۔
گفتگو کے اس حصے کے بعد نشست کے تمام شعرا اور شرکاکے لیے پر تکلف کھانے کا اہتمام کیا گیا اور آخر میں تمام شعرا نے محسن اسرار صاحب کی صدارت میں اپنا کلام سنایا۔ صاحبِ شام جناب خالد معین سے ان کی بھر پور شاعری سنی۔ ان کے بعد صاحب ِ صدر جناب محسن اسرار صاحب نے بھی اپنی دوغزلیں سنائیں جسے حاضرین نے خوب پسند کیا اور امید ظاہر کی کہ ایسی بھرپور نشستوں کا اہتمام ہوتے رہناچاہیے۔

حصہ