یہودی میڈیا اور وارہسٹیریا

633

سید مہرالدین افضل
سورۃ الانفال کے مضامین کا خلاصہ
بائیسواں حصہ
(تفصیل کے لیے دیکھیے سورۃ الانفال حاشیہ نمبر:39، 40،41،42)
سورۃ الانفال آیت 49 تا 55 میں ارشاد ہوا:
’’جب کہ منافقین اور وہ سب لوگ جن کے دلوں کو روگ لگا ہوا ہے، کہہ رہے تھے کہ اِن لوگوں کو تو اِن کے دین نے خبط میں مبتلا کررکھا ہے۔ حالانکہ اگر کوئی اللہ پر بھروسا کرے، تو یقیناً اللہ بڑا زبردست اور دانا ہے۔ کاش تم اُس حالت کو دیکھ سکتے، جب کہ فرشتے مقتول کافروں کی رُوحیں قبض کررہے تھے! وہ ان کے چہروں اور ان کے کُولہوں پر ضربیں لگاتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے ’’لو اب جلنے کی سزا بُھگتو… یہ وہ جزا ہے جس کا سامان تمہارے اپنے ہاتھوں نے پیشگی مہیا کررکھا تھا… ورنہ اللہ تو اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے‘‘۔ یہ معاملہ ان کے ساتھ اُسی طرح پیش آیا، جس طرح آلِ فرعون اور ان سے پہلے کے دوسرے لوگوں کے ساتھ پیش آتا رہا ہے… کہ انہوں نے اللہ کی آیات کو ماننے سے انکار کیا… اور اللہ نے ان کے گناہوں پر انہیں پکڑ لیا۔ اللہ قوت رکھتا ہے، اور سخت سزا دینے والا ہے۔ یہ اللہ کی اِس سنت کے مطابق ہوا کہ وہ کسی نعمت کو جو اس نے کسی قوم کو عطا کی ہو، اُس وقت تک نہیں بدلتا، جب تک کہ وہ قوم خود اپنے طرزِعمل کو نہیں بدل دیتی۔ اللہ سب کچھ سُننے اور جاننے والا ہے۔ آلِ فرعون اور ان سے پہلے کی قوموں کے ساتھ جو کچھ پیش آیا وہ اِسی ضابطے کے مطابق تھا۔ انہوں نے اپنے ربّ کی آیات کو جھٹلایا، تب ہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں انہیں ہلاک کیا اور آلِ فرعون کو غرق کردیا۔ یہ سب ظالم لوگ تھے۔
یقیناً اللہ کے نزدیک زمین پر چلنے والی مخلوق میں سب سے بدتر وہ لوگ ہیں جنہوں نے حق کو ماننے سے انکار کردیا، پھر کسی طرح وہ اسے قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں۔‘‘
بیمار ذہنیت:
ان آیات کے مطالعے سے ہمیں اس بیمار ذہنیت کا علم ہوتا ہے جس پر دنیا پرستی، خدا سے غفلت اور نفاق کا غلبہ ہو۔ جب اس ذہن کے لوگوں نے دیکھا کہ تھوڑے سے مسلمان، جن کے پاس لڑائی کے لیے ہتھیار بھی نہ ہونے کے برابر ہیں، کھانے کے لیے راشن اور سفر کے لیے سواریاں بھی کم ہیں… قریش جیسی زبردست طاقت سے ٹکرانے کے لیے جارہے ہیں تو آپس میں کہنے لگے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ان پر ایسا جادو کردیا ہے ، کہ ان کی عقل جواب دے گئی ہے۔ یہ اپنے دینی جوش میں دیوانے ہوگئے ہیں، اور موت کے منہ میں چلے جارہے ہیں… اب ان کی تباہی یقینی ہے۔ ان کا جواب یہ ہے کہ ’’اگر کوئی اللہ پر بھروسا کرے تو یقیناً اللہ بڑا زبردست اور دانا ہے‘‘۔ اور پھر سب نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح ان ’’مٹھی بھر، بے سرو سامان‘‘ لوگوں کے ہاتھوں کافروں کو قتل کروایا۔
اللہ اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں:
اللہ نے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے لیے ہدایت اور رحمت دے کر بھیجا تھا، لیکن انہوں نے اس نعمت کا مسلسل انکار کیا… اور اس دعوت کو مٹا دینے کی کوشش کی، تو اللہ کا عذاب ان پر آگیا، اسی طرح جیسے آلِ فرعون اور اس سے بھی پہلے کی جابر قوموں پر آچکا تھا۔ بندے تو سب اللہ ہی کے ہیں… سب کو اللہ نے پیدا کیا ہے، اور وہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا… ہا ں اس کے نزدیک سب سے برے وہ لوگ ہیں جو حق کو ماننے سے انکار کریں… اور کسی طرح اسے قبول کرنے پر تیار نہ ہوں۔
یہود کا طرزعمل:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ میں تشریف لانے کے بعد سب سے پہلے یہود کے ساتھ خوش گوار پڑوسی تعلقات، اور باہمی تعاون و مددگاری کا معاہدہ کیا تھا… اور اپنی حد تک پوری کوشش کی تھی کہ ان سے اچھے تعلقات بنے رہیں۔ پڑوسی ہونے کے علاوہ دینی حیثیت سے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم، یہود کو مشرکین کے مقابلے میں اپنے قریب تر سمجھتے تھے… اور ہر معاملے میں مشرکین کے بجائے اہلِ کتاب ہی کے طریقے کو ترجیح دیتے تھے۔ لیکن اُن کے علماء اور بزرگوں کو توحیدِ خالص اور اخلاقِ صالحہ کی وہ تبلیغ… اور اعتقادی و عملی گمراہیوں پر وہ تنقید… اور اقامتِ دینِ حق کی وہ کوشش، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کررہے تھے، ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔ اور ان کی مسلسل کوشش یہ تھی کہ یہ نئی تحریک کسی طرح کامیاب نہ ہونے پائے۔ اس مقصد کے لیے وہ مدینہ کے منافق مسلمانوں سے مل کر سازشیں کرتے تھے۔ آج کا میڈیا اور آج کے ٹاک شوز تو نہ تھے… لیکن شام اور رات کی مجلسیں ٹاک شوز کا کام کرتی تھیں، اور شاعری انتہائی اہم میڈیم تھا۔ یہ لو گ ان مجلسوں اور چوپالوں میں اپنی شاعری کے ذریعے اَوس اور خَزرَج کی جنگوں کے قصے سناتے اور ان کی پرانی دشمنی کو بھڑکاتے تھے… جو اسلام سے پہلے ان کے درمیان خون خرابے کی وجہ تھیں۔ اسی مقصد کے لیے قریش اور دوسرے مخالف ِ اسلام قبیلوں سے ان کی خفیہ سازشیں چل رہی تھیں۔ ان کی یہ تمام حرکتیں اُس معاہدۂ دوستی کے باوجود جاری تھیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے درمیان لکھا جا چکا تھا۔ جنگ بدرکے موقع پر یہ بہت خوش تھے اور ان کا خیال تھا کہ قریش پہلی ہی چوٹ میں اس تحریک کا خاتمہ کردیں گے۔ لیکن جب ایسا نہ ہوا، تو اُن کے سینوں میں حسد کی آگ اور زیادہ بھڑک اُٹھی۔ انہوں نے یہ نہ سوچا کہ یہ ہماری ہی دعوت، اور ہمارا ہی کام ہے، اور یہ کہ اللہ کی مدد ان کے ساتھ ہے… اور اب ہمیں اسلام قبول کرنا چاہیے۔ اس کے برعکس وہ اسلام کو اپنے لیے ’’مستقل خطرہ‘‘ سمجھنے لگے اور اسلام کو مٹانے کے لیے اپنی کوششوں کو تیز تر کردیا۔ یہاں تک کہ اُن کا ایک لیڈر کعب بن اشرف (جو قریش کی شکست کی خبر سنتے ہی چیخ اُٹھا تھا، کہ آج زمین کا پیٹ ہمارے لیے اُس کی پیٹھ سے بہتر ہے) خود مکہ گیا (واضح رہے کہ قریش نے اپنے لوگوں کو منع کردیا تھا کہ کوئی مقتولین کا ماتم نہ کرے اور کوئی مرثیہ نہ کہے… یعنی اپنے میڈیا پر جنگِ بدر کی ناکامی کے ذکر پر بین لگایا ہوا تھا) لیکن کعب بن اشرف نے وہاں جاکر جنگ کی آگ بھڑکانے والی شاعری سے قریش کو وار ہسٹیریا میں مبتلا کردیا۔ دوسری طرف ان کے قبیلہ بنی قَینُقاع نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، اُن مسلمان عورتوں کو چھیڑنا شروع کیا جو ان کی بستی میں کسی کام سے جاتی تھیں۔ اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس حرکت پر ٹوکا تو انہوں نے جواب میں دھمکی دی کہ ’’ہمیں قریش نہ سمجھو، ہم لڑنے مرنے والے لوگ ہیں اور لڑنا جانتے ہیں۔ ہمارے مقابلے میں آؤ گے تب تمہیں پتا چلے گا کہ مرد کیسے ہوتے ہیں۔‘‘ ان کے بارے میں مسلمانوں کو اصولی ہدایت دی گئی۔ آیت 56 اور 57 میں ارشاد ہوا: ’’ان میں سے وہ لوگ جن کے ساتھ تُو نے معاہدہ کیا پھر وہ ہر موقع پر اس کو توڑتے ہیں اور ذرا خدا کا خوف نہیں کرتے… پس اگر یہ لوگ تمہیں لڑائی میں مل جائیں تو ان کی ایسی خبر لو کہ ان کے بعد جو دوسرے لوگ ایسی روش اختیار کرنے والے ہوں ان کے حواس باختہ ہوجائیں۔ توقع ہے کہ بدعہدوں کے اِس انجام سے وہ سبق لیں گے‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ اگر کسی ملک سے ہمارا معاہدہ ہو… اور وہ اسے پورا نہ کرے، بلکہ ہمارے خلاف کسی جنگ میں حصہ لے… تو ہم بھی معاہدے کی اخلاقی ذمہ داریوں سے آزاد ہوجائیں گے، اور ہمیں حق ہوگا کہ اس سے جنگ کریں۔ اس کے علاوہ اگر کسی ملک سے ہماری لڑائی ہورہی ہو… اور ہم دیکھیں کہ دشمن کے ساتھ ایک ایسے ملک کے افراد بھی جنگ میں شریک ہیں جس سے ہمارا معاہدہ ہے، تو ہم ان سے دشمن جیسا سلوک ہی کریں گے ، کیونکہ انہوں نے اپنی انفرادی حیثیت میں اپنے ملک کے معاہدے کی خلاف ورزی کرکے اپنے آپ کو اس کا مستحق نہیں رہنے دیا ہے کہ ان کی جان و مال کے معاملے میں اس معاہدے کا احترام کیا جائے جو ہمارے اور ان کے ملک کے درمیان ہے۔
اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے، اور اُس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

حصہ