کوئی تنہائی سی تنہائی ہے

423

رابعہ محمد (سڈنی ، آسٹریلیا)
زندگی کی بے اعتباری کے مظاہرے دیکھے تو ہیں لیکن یہ اتنی ظالم اور تکلیف دہ بھی ہوسکتی ہے، اس کا مشاہدہ دل کو بہت ہی اُداس کرگیا۔
وہ پاکستان کے ایک نامور بزنس مین کی بیٹی ہے اور اِس وقت دنیا کے مہنگے ترین علاقے میں رہائش پذیر ہے۔ سڈنی میں آج کی اس ملاقات سے پہلے ہی اُس کے جو شاہانہ ٹھاٹھ باٹ پاکستان میں ہوا کرتے تھے وہ میرے ذہن میں تھے۔ سڈنی آنے کے بعد ایک ذریعے سے اُس کا رابطہ نمبر مجھ تک پہنچا تھا۔ میں نے اس سے جب رابطہ کیا تو اس نے فوری ملاقات کی شدید خواہش کا اظہار کیا، مگر بچوں کی ضروریات اور شوہر کی مصروفیات کو دیکھ کر ہی پروگرام بنایا جا سکتا تھا۔ میں نے اُس کو تسلی دیتے ہوئے جلد ہی ملاقات کا وعدہ کرلیا۔
دو گھنٹے کی پُرسکون ڈرائیونگ کے بعد ہم اُس کی رہائش گاہ پر پہنچ چکے تھے۔ ’ایوالون بیچ‘ کے کنارے گھنے جنگلات کے ساتھ ششدر کردینے والا ماحول ہماری نگاہوں کے سامنے تھا۔ گھر کے داخلی دروازے پر اُس کے والد کے مقرر کردہ با اعتماد پاکستانی منیجر موجود تھے جو اس گھر کے معاملات کی نگرانی پر مامور تھے۔ اُن کی رہنمائی میں ہم سرسبز لان میں سے گزر کر رہائشی حصے میں پہنچ گئے جہاں انگریزی لباس اور اسٹائلش ہیئر کَٹ والی جواں سال میزبان ہماری منتظر تھی۔ پُرجوش استقبال کے بعد وہ ہمیں اپنی معیت میں نفیس اور پُرآسائش ڈرائنگ روم میں لے آئی۔ نشست پر بیٹھتے ہوئے میں نے اُس پر نظر ڈالی۔ لگتا تھا کہ وہ بہت ڈسٹرب ہے اور اپنے تاثرات پر قابو پانے کی کوشش میں ہے۔ بیٹھنے کے بعد ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے۔ اِس خوبصورت ماحول میں اُس کے آنسو ایسے بہہ رہے تھے جیسے وہ کسی پسماندہ علاقے کی جھونپڑی میں بیٹھی ہو۔ اُس کے آنسو کچھ تھمے تو میں نے اُس کو ہاٹ پاٹ پکڑا دیا۔ میں اُس کی فرمائش پر بریانی بناکر لائی تھی۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ کھانا وہ اس طرح کھائے گی جیسے مہینوں سے بھوکی ہو۔ اُس کی گفتگو میں بمشکل کوئی لفظ اردو کا تھا۔ میں وضو کے لیے اُٹھی تو کہنے لگی کہ مجھے نماز نہیں آتی… کبھی پڑھی ہی نہیں… تلاوت کے بارے میں کہنے لگی کہ وہ کیا ہوتی ہے؟ پاکستان واپس چلنے سے ڈر لگتا ہے… اُس کے والد قانونی مجبوریوں کے سبب ملک سے باہر نہیں نکل سکتے تھے۔ والدہ دوسری بہن اور بھائی کے ساتھ کسی اور ملک میں رہ رہی تھیں۔
کراچی کے پوش علاقے میں دو ہزار گز کے فُلی فرنشڈ گھر میں رہنے والے اُس کے والد ہر دو چار دن میں اُس کو فون کرلیتے ہیں کہ بس یہی اُن کے بس میں ہے۔ رم جھم بوندوں کی سحر انگیزی تو طبیعت کو مسرور کردیتی ہے مگر وہ ایسے موسم میں چھتری تھام کر باہر نکل جاتی ہے اور راہ چلتے کسی بوڑھے کو روک کر دیر تک رو لیتی ہے کہ بس یہی اس کے بس میں ہے۔ جب یہ بارش روح کانپ جانے والی گرج چمک کے ساتھ برستی ہے اور روشنی کے جھماکے کھڑکیوں سے ٹکراتے ہیں تو وہ اپنے دبیز نرم بستر پر پڑے ملائم فلیس کو اپنے چہرے تک اوڑھ لیتی ہے۔ پھر اُس کے دل کی دَھک دَھک بھی بادلوں کی گرج سے ہم آہنگ ہوجاتی ہے۔
آج بیرونِ ملک اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اعتماد کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے والی یہ لڑکی کسی کندھے کی تلاش میں تھی کہ جس پر سر رکھ کر وہ رو سکے اور اپنی تنہائی میں کسی کو شریک کرسکے۔ میں اُس کو ہولے ہولے تھپکتی رہی۔ جب وہ قدرے پُرسکون ہوئی تو میں نے انگریزی ترجمہ والا قرآن مجید اور دعائوں کی کتاب جو میں اپنے ساتھ لائی تھی، اُسے دی، تو اُس نے انہیں چوم کر سینے سے لگا لیا۔ یہ میری اس غم زدہ دل کو اللہ سے قریب کرنے کی ایک کوشش تھی۔
میں نے دل میں اپنے ربِ کریم سے کہا کہ اے اللہ میں نے قرآن اس کے ہاتھوں میں تو تھما دیا ہے، آپ قرآن کی روشنی اس کے دل تک پہنچا دیں جہاں تنہائی اور اندھیروں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ ساتھ ہی میں نے اُس کو بھرپور پیشکش کی کہ جب بھی اُس کا دل چاہے مجھ سے رابطہ کرسکتی ہے اور میرے پاس آ بھی سکتی ہے۔ یہ سُن کر اُس نے مجھے گرمجوشی سے گلے لگا لیا۔
وقتِ رخصت میرا دل بڑا اُداس تھا۔ اتنے پُرآسائش گھر میں ملازموں کے ساتھ رہنے والی اس تنہا لڑکی پر مجھے بے طرح رحم آتا رہا۔
خوش نصیب کا لفظ مجھے اپنے لیے بہت چھوٹا لگا… میں نے جانا دن بھر کولہو کے بیل والی تھکن تو ایک نعمت ہے۔ حسب نسب کے سارے رشتے انمول ہیں، قیمتی ہیں، کہ ان کے دم سے زندگی، زندگی ہے۔ زندگی میں رنگ ہیں۔ کثرت نہیں، برکت کا سوال کریں۔ اپنے خاندان سے بے غرض پیار کریں۔ خوشیوں پر بے پناہ حمد کرنے والے بنیں… رب کی رحمتوں کو ہر آن محسوس کرنے والے بنیں… ورنہ اگر زمین پر جنت ڈھونڈ بھی لی جائے تو بھی زندگی جہنم ہی بنی رہے گی۔

حصہ