کتاب کلچرز وال کا شکار ہے، سید مقبول حسین بخاری

376

ڈاکٹر نثار احمد نثار
سید مقبول حسین بخاری المعروف باقی احمد پوری ادبی دنیا کی ایک اہم شخصیت ہیں‘ وہ شاعر ‘ ادیب اور تنقید نگار ہیں۔ باقی احمد پوری کے 11 مجموعہ کلام شائع ہو چکے ہیں جن کے نام ہیں باقیات‘ نقشِ باقی‘ صد رشکِ غزالاں‘ اب شام نہیں ڈھلتی‘ محبت ہم سفر میری‘ اگر آنکھیں چھلک جائیں‘ اداسی کم نہیں ہوتی‘ غزل تم ہو‘ روانی‘ ہمارا کیا ہے اور والہانہ۔ اس کے علاوہ ان کی ایک کلیات ’’اب دل ہی نہیں لگتا‘‘ منظرِ عام پر آچکی ہے۔ باقی احمد پوری صاحب کا شمار استاد شعرا میں ہوتا ہے۔ زندہ دل انسان ہیں‘ محبتوں کے سفیر ہیں۔ مستقل رہائش لاہور میں ہے گزشتہ ہفتے وہ کراچی تشریف لائے تو راقم الحروف نے جسارت سنڈے میگزین کے لیے اُن سے مکالمہ کیا جو کہ قارئین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے۔
…٭…
جسارت میگزین: اپنے خاندانی پس منظر کے بارے میں کچھ بتائیں۔
باقی احمد پوری: میرے آبا و اجداد ساداتِ بخارا میں سے ہیں جو بہت عرصہ پہلے مشرقی پنجاب میں آکر آباد ہوگئے تھے۔ میرے دادا‘ پر دادا سیلانی قسم کے بزرگ تھے‘ قلعہ فلور میں سید عبداللہ شاہ نوری بیابانی کا مزارِ اقدس ہے‘ ہم ان کے بھائی مخدوم فتح اللہ شاہ کی اولاد میںسے ہیں۔ ہمارے بزرگ فلور‘ مجٹھہ‘ فاضل کا اور مشرقِ پنجاب کے دیگر شہروں میں قیام پزیر رہے۔ تقسیم ہند سے کچھ پہلے میرے والدین اور دیگر عزیز و اقارب احمد پور لمّہ ضلع رحیم یار خان میں آباد ہوگئے۔
جسارت میگزین: آپ کی شاعری کی ابتدا کیسے ہوئی اور کب سے مشاعروں میں شریک ہو رہے ہیں؟
باقی احمد پوری: شاعری کا شوق تو احمد پور لمّہ کی فضائوں میں ہی پروان چڑھنا شروع ہوگیا تھا لیکن باقاعد شاعری کالج کے زمانے میں لاہور آکر شروع کی۔ 1969ء سے لاہور کے مشاعروں اور ادبی محفلوں میں شریک ہو رہا ہوں۔
جسارت میگزین: کیا آپ شاعری کے حوالے سے اپنے اساتذہ کے نام بتانا پسند کریں گے؟
باقی احمد پوری: میرے استاد محترم حضرت مولانا ماہر القادری ہیں۔ میں نے خط و کتابت کے ذریعے ان سے رابطہ کیا اور اُن سے رہنمائی حاصل کی۔ میں کراچی میں بھی بسلسلہ روزگار دو اڑھائی سال مقیم رہا۔ اس دوران استاد کے ساتھ کئی مشاعروں میں شرکت کی‘ اُن کی محفلوں میں بیٹھ کر سیکھنے کا بہت موقع ملا۔
جسارت میگزین: کیا آپ نے بھی کچھ شاگرد بنائے ہیں؟
باقی احمد پوری: حقیقت یہ ہے کہ شاگرد بنائے نہیں جاتے‘ تحصیل علمِ سخن کا ذوق رکھنے والے خود بخود اپنا استاد تلاش کر لیتے ہیں‘ مجھ سے بھی کئی نوجوان شعرا نے رابطہ رکھا۔ رشید میواتی‘ امین شاد‘ منور کانپوری‘ عمران شناور‘ اعجاز منظور عادل‘ سہیل ثانی باقاعدہ میرے شاگرد ہیں اس کے علاوہ کچھ غیر اعلانیہ شاگرد بھی ہیں‘ کچھ پردہ نشینوں کے نام بھی آتے ہیں۔
جسارت میگزین: کیا آپ سادے کاغذ پر اصلاح دیتے ہیں؟ اور کیا آپ نے کسی سے سادہ کاغذ پر اصلاح لی؟
باقی احمد پوری: یہ کام نہ میں نے کبھی کیا اور نہ ہی میں اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں۔ میں نے ہمیشہ اپنے شاگردوں کی رہنمائی کی‘ اگر ان کی تخلیقات میں زبان و بیان یا بحر وزن کا مسئلہ ہوا تو اس کی نشاندہی کی اور انہیں خود اسے درست کرنے کا کہا۔ میرے زیادہ تر شاگرد ماشاء اللہ بہت اچھے شاعر ہیں۔
جسارت میگزین: شاعری میں علمِ عروض کی اہمیت پر روشنی ڈالیے گا۔
باقی احمد پوری: ایک قدرتی‘ فطری اور پیدائش شاعر علمِ عروض کا محتاج نہیں ہوتا۔ لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کہ علمِ عروض شاعری کے سلسلے میں باقاعدہ ایک رہنمائے فن ہے۔ یہ علم شاعر کو سیکھنا ضرور چاہیے مگر اسے اپنے اوپر مسلط نہیں کرنا چاہیے۔ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ایک آدمی علمِ عروض سیکھ کر شاعر کبھی نہیں بن سکتا لیکن ایک قدرتی شاعر علمِ عروض سیکھ کر اپنی شاعری کو خود تنقیدی نگاہ سے دیکھ سکتا ہے اور اگر کہیں زبان و بیان اور اوزان و بحور کے مسائل ہوں تو انہیں ازخود درست کرسکتا ہے۔
جسارت میگزین: آج کے زمانے میں تنقید کا معیار کیا ہے؟ کیا تنقید نگار اپنی ذمے داریاں پوری کر رہے ہیں؟
باقی احمد پوری: آج کے دور میں تنقید ہے ہی نہیں تو معیار کیا ہوگا۔ اردو ادب میں نصاب کی حد تک تنقید کا وجود ہے۔ اردو پڑھانے والے نصابی نقادوں نے تین چار نام رٹے ہوئے ہیں اور اس دائرے سے باہر اُن کی تنقید وجود نہیں رکھتی۔ آج تنقید دیباچہ نگاری اور فلیپ نگاری تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ اردو ادب کے نام نہاد نقاد اس با سے بالکل بے خبر ہیں کہ میر و غالب کے بعد آج کے شعرا بھی شاعری کر رہے ہیں۔ میرے نزدیک ہمارے نقاد اپنی ذمے داریاں پوری نہیں کر رہے۔ ان کے ہاں مطالعے کا فقدان ہے‘ وہ اپنے عصری ادب سے بے گانہ ہیں۔
جسارت میگزین: اردو زبان و ادب کے فروغ میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کتنے اہم ہیں؟ کیا موجودہ زمانے میں یہ دونوں ادارے اپنی ذمے داریاں نبھا رہے ہیں؟
باقی احمد پوری: الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا بہت اہمیت کے حامل ادارے ہیں۔ ہمارے ہاں شروع میں محض ریڈیو اور پی ٹی وی تھے بدقسمتی سے ان دونوں اداروں پر اُس زمانے میں چند درباری قسم کے شاعروں اور ادیبوں کا قبضہ ہوگیا تھا اور وہ پورے ملک کے ٹیلنٹ کے سامنے دیوار بن کر کھڑے ہوگئے تھے۔ اپنے گروپ کے علاوہ کسی دوسرے کو آگے آنے ہی نہیں دیتے تھے۔ پرنٹ میڈیا پر بھی یہی لوگ چھائے ہوئے تھے۔ بہرحال 1990ء کے بعد صورتِ حال آہستہ آہستہ تبدیل ہوئی۔ پھر بے شمار ٹی وی چینلز آگئے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ نئے چینلز کے پاس وہ تربیت نہیں جو پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کے پروڈیوسرز کے پاس تھی۔ اب تو اردو زبان و ادب کو نظر انداز کرکے ہر چینل مخولیہ مشاعروں‘ بے ہودہ ڈراموں‘ عجیب و غریب پکوانوں اور خلائی قسم کے سیاسی تجزیہ نگاروں کے ذریعے اپنی ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں ہے۔ الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا اگر چاہتے تو اردو زبان و ادب کی ترقی کی سلسلے میں مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ان ان دونوں اداروں کی ترجیحات میں ادب شامل ہی نہیں‘ اب تو ویسے ہی ان دونوں اداروں میں ڈائون سائزنگ ہو رہی ہے۔
جسارت میگزین: اردو زبان و ادب کی ترقی کے لیے جو ادارے بنائے گئے ہیں کیا وہ اپنا کام پوری ایمان داری سے کر رہے ہیں؟
باقی احمد پوری: بھٹو نے رائٹرز گلڈ بنائی‘ اس کا جو حال ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ اکادمی ادبیات اہم ادارہ ہے اور یہ کام بھی کر رہا ہے۔ اس ادارے کا سربراہ کسی شاعر‘ ادیب کو نہیں ہونا چاہیے وگرنہ شاعروں کی آپس کی لڑائیاں‘ گروہ بندیاں اور ادبی قبضہ مافیا کی منفی سرگرمیاں اس اہم ادارے کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ ماضی میں ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ نیشنل بک فائونڈیشن ادارہ اس بات کا متقاضی ہے کہ اس کا سربراہ کوئی سنجیدہ ادیب اور شاعر ہو۔ یہ ایک نہایت اہم نوعیت کا سنجیدہ ادبی ادارہ ہے۔ اس کی باگ ڈور کسی مزاحیہ شاعر کے ہاتھ میں دینا قوم کے ساتھ ظلم ہے۔ افسوس کہ تبدیلی کا نعرہ لگانے والی عمران حکومت نے بھی ابھی تک اس طرف توجہ نہیں کی۔ ادب کے نام پر اپنے من پسند لوگوں کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے بے مقصد ادبی ادارے بنانے کے بجائے پہلے سے موجود بڑے ادبی اداروں کو مضبوط کرنا چاہیے جیسے مقتدرہ قومی زبان کے نام سے الگ ادارہ بنانے کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ مقتدرہ اور اردو سائنس بورڈ کو اکادمی ادبیات میں ضم کر دینا وقت کی اہم ضرورت ہے اس سے حکومت کے اخراجات بھی کم ہوںگے اور سیاسی کوٹے پر آنے والے تاحیات قسم کے افسران سے بھی نجات مل جائے گی۔
جسارت میگزین: انسانی زندگی/سماج پر شاعری کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں نیز آپ کا نظریۂ ادب کیا ہے؟
باقی احمد پوری: شاعری معاشروں کی تہذیب کرتی ہے‘ سماج میں موجود ظلم و استبداد اور دیگر منفی رویوں کی نہ صرف نشان دہی کرتی ہے بلکہ اس کی مزاحمت بھی کرتی ہے۔ شاعری اپنے عہد کی تاریخ ساز ہوتی ہے۔ میں تو شاعری کو ہی زندگی سمجھتا ہوں اور ادب برائے زندگی کے نظریے کا قائل ہوں۔
جسارت میگزین: کراچی میں ہونے والے مشاعروں اور تنقیدی نشستوں کی صورت حال پر تبصرہ کیجیے گا۔
باقی احمد پوری: اردو مشاعروں کے حوالے سے کراچی جیسا شہر اور کوئی نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان سے نقل مکانی کرنے والے زیادہ تر اردو بولنے لوگ کراچی آکر آباد ہوگئے۔ وہ لکھنو‘ دہلی اور یوپی کی ادبی روایات اور شعری کلچر بھی اپنے ساتھ لائے۔ پاکستان میں آکر انہوں نے اس خوب صورت روایت کو مزید فروغ دیا۔ پاکستان کے دیگر بڑے شہروں میں بھی مشاعرے اور ادبی تقریبات منعقد ہوتی رہتی ہیں مگر جو ’’میگا ادبی ایونٹ‘‘ کراچی میں ہوتے ہیں ان کا جواب نہیں۔ کراچی میں مشاعرہ آرگنائزر کرنے والوں کو اسپانسر بھی مل جاتے ہیں جس کے باعث ملک کے دیگر بڑے شہروں سے بھی شعرا کو بلا لیا جاتا ہے اور اس طرح ملکی سطح کا بلکہ عالمی سطح کا مشاعرہ سننے اور پڑھنے کا موقع مل جاتا ہے۔
جسارت میگزین: اردو ادب میں نثری نظم کی کیا حیثیت ہے؟ کیا نثری نظم کامیاب ہوئی؟ کیا نثری نظم کا کوئی رول ماڈل ہمارے سامنے ہے؟
باقی احمد پوری: میں نثر نگاروں کی بہت عزت کرتا ہوں‘ وہ بھی ادبی خدمت کر رہے ہیں لیکن نثری نظم کو میں شاعری نہیں مانتا۔ میرے نثری نظم لکھنے والے دوست نثر کو بھی خراب کر رہے ہیں اور نظم کو بھی۔ انہیں نثری نظم کے بجائے اپنی نثری تخلیق کو کوئی اور اچھا سا نام دے لینا چاہیے۔ نثری نظم کا کوئی رول ماڈل آج تک سامنے نہیں آیا۔
جسارت میگزین: سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں نفاذِ اردو کی راہ میں کیا رکاوٹیں حائل ہیں؟ عملی طور پر اردو کا نفاذ کیوں نہیں ہورہا؟
باقی احمد پوری: دراصل اردو زبان ابھی اس مقام تک نہیں پہنچی جہاں یہ ماڈرن سائنس اور ٹیکنالوجی کا ساتھ بھی دے سکے۔ ہمارے اردو ادیبوں اور ادب کے اداروں کو اس سلسلے میں بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہو سکتا ہے مستقبل میں زبان ترقی کرکے اس مقام پر پہنچ جائے کہ اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہ رہے۔ ہمارا معاشرتی ڈھانچہ ابھی تک وہی ہے جو انگریزوں نے ہمیں ورثے میں دیا اس لیے انگریزی زبان ہی ہماری عملی زندگی میں زیادہ رائج رہے گی۔
جسارت میگزین: رثائی ادب کے بارے میں آپ کے کیا نظریات ہیں؟ برصغیر پاک و ہند میں رثائی ادب کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالیے؟
باقی احمد پوری: رثائی ادب بھی ہمارے اردو ادب کا ایک اہم حصہ ہے۔ میر انیس‘ میر دبیر‘ جوش ملیح آبادی‘ علامہ نجم آفندی اور دیگر کئی اہم شعرا کو اردود ادب سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ برصغیر پاک و ہند میں رثائی ادب نے اردو شاعری کو بے حد متاثر کیا ہے۔ واقعۂ کربلا اور کربلا کے اہم کرداروں کے حوالے سے جو شاعری تخلیق ہوئی ہے اس نے اردو زبان و ادب کے ذخیرے کو مالا مال کیا ہے۔ بے شمار تلمیحات و استعارات اردو شاعری میں واقعۂ کربلا کے حوالے سے داخل ہوئے ہیں۔ اردو شاعری میں سوز‘ کسک اور تاثیر پیدا کرنے میں رثائی ادب نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
جسارت میگزین: بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ اردو ادب روبہ زوال ہے‘ آپ اس سلسلے میں کیا کہتے ہیں؟ اگر اردو ادب روبہ ز وال ہے تو اس کی کیا وجوہات ہیں؟
باقی احمد پوری: اردو ادب کبھی بھی ربہ زوال نہیں رہا البتہ ادب کی تشہیر و ترویج کے پیمانے بدلتے رہتے ہیں۔ آج کل بھی بہت اعلیٰ شاعری ہو رہی ہے لیکن کتاب کلچر وقتی طور پر روبہ زوال ہے۔ شاعری فیس بک‘ یو ٹیوب اور ویب سائٹس پر چلی گئی ہے۔ جن لوگوذں کی الیکٹرانک میڈیا تک رسائی نہیں وہ سمجھتے ہیں کہ اردو ادب روبہ زوال ہے حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔
جسارت میگزین: آج کل کچھ ادبی تنظیمیں ’’نظریۂ ضرورت‘‘ کے تحت چندہ لے کر صدارت اور مہمان خصوصی‘ مہمان اعزازی بنا لیتی ہیں جو کہ ان مناصب کے حق دار نہیں ہوتے‘ آپ اس سلسلے میں کچھ کہیں گے؟
باقی احمد پوری: کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں‘ ادبی پروگرام اور مشاعرے منعقد کرنے کے لیے بھی تو پیسے کی ضرورت پڑتی ہے۔ شاعروں کے پاس تو ایسے ذرائع نہیں ہوتے کہ وہ اپنی جیب سے سب کچھ کر لیں اس لیے مجبوراً مال دار ادب دوستوں کی تلاش کی جاتی ہے اور اگر وہ خطیر رقم خرچ کرکے مہمانِ خصوصی یا صدر بن جاتے ہیں تو برداشت کر لینا چاہیے ادب کی خدمت تو کسی نہ کسی حوالے سے ہو ہی رہی ہے۔
جسارت میگزین: کسی بھی شاعر یا شاعرہ کی سینیارٹی کا تعین کس طرح کیا جانا چاہیے؟
باقی احمد پوری: مسلسل ادبی سفر سے اور تخلیق ہی سے سینیارٹی کا تعین ہوتا ہے۔
جسارت میگزین: اردو ادب میں متشاعروں کا سلسلہ کب شروع ہوا؟ کیا اس مسئلے کا کوئی حل ہے‘ آج کل کچھ مال دار متشاعر و متشاعرات اپنے نام سے کتابیں شائع کرا رہے ہیں اور تقاریب پزیرائی کا اہتمام بھی کررہے ہیں‘ ہمارے بہت سے اہم لوگ ان تقاریب کی صدارت کرتے ہیں اور تبصرہ کرتے ہیں جب کہ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ لوگ متشاعر ہیں‘ آپ اس صورت حال پر کیا کہتے ہیں؟
باقی احمد پوری: یہ روایت تو اردو ادب میں قدیم زمانے سے قائم ہے۔ بہت سے لوگ مصحفی اور دیگر اساتذہ سے کلام خرید کر اُس زمانے میں بھی شاعر بن بیٹھے تھے مگر آج ان کا نام تک نہیں رہا۔ ہر شعبے میں کاروباری لوگ موجود ہوتے ہیں‘ شاعری بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ میں تو متشاعروں کو ادب کی رونق سمجھتا ہوں۔ یہ لوگ نہ ہوں تو بڑے بڑے فائیو اسٹار ہوٹلوں میں ہم جیسوں کو گھسنے دے گا۔
جسارت میگزین: کیا مشاعروں میں شریک شعرا و شاعرات کو معاوضہ دینا چاہیے؟ کیا ان کے پک اینڈ ڈراپ کا انتظام کرنا چاہیے؟
باقی احمد پوری: بالکل‘ آپ ایک عام مزدور کو بھی یہ سہولتیں فراہم کرتے ہیں‘ ادیب اور شاعر تو بہت اہم لوگ ہوتے ہیں‘ ان کو خاطر خواہ معاوضہ بھی ملنا چاہیے اور زادِ راہ بھی۔
جسارت میگزین: آپ مبتدی قلم کاروں کے لیے کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟
باقی احمد پوری: مبتدی قلم کاروں کے لیے میرا پیغام ہے کہ وہ مطالعے کو اپنے روز مرہ معمولات میں شامل کرلیں‘ فیس بک‘ یو ٹیوپ کو بھی نظر انداز نہ کریں لیکن اصل دوستی کتاب سے قائم کریں۔
جسارت میگزین: اردو ادب میں گروہ بندی نے اردو ادب کو محض نقصان پہنچایا ہے یا اس سے کچھ فائدہ بھی پہنچا ہے‘ آپ اس سلسلے میں کیا کہتے ہیں؟
باقی احمد پوری: ادب میں گروہ بندی سے مسابقت جنم لیتی ہے اور یہ ادب کی ترقی کے لیے ضروری بھی ہے‘ بہرحال گروہ بندیوں نے اردو ادب کو بہت نقصان بھی پہنچایا ہے اس کی مثالیں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں۔
جسارت میگزین: کیا مشاعرے اردو ادب کو فروغ دینے میں کوئی کردار ادا کرتے ہیں؟
باقی احمد پوری: مشاعرے انسانی زندگی کی تہذیب کرتے ہیں‘ اردو ادب کو مشاعروں نے پروان چڑھایا ہے۔ مشاعرے تحریکِ سخن کا باعث ہوتے ہیں‘ مشاعرہ نوجوان تخلیق کاروں کے لیے ایک درس گاہ کی حیثیت رکھتا ہے‘ اساتذہ کا کلام سن کر بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔
جسارت میگزین: دبستان کراچی اور دبستانِ پنجاب کی شاعری کا موازنہ پیش کیجیے۔
باقی احمد پوری: میں شاعری اور ادب کو دبستانوں میں تقسیم کرنے کا قائل نہیں۔ کراچی اور پنجاب اور ہمارے دیگر شہروں میں ہر جگہ بہت اچھی شاعری اور بہت اچھا ادب تخلیق ہو رہا ہے۔
جسارت میگزین: آپ نے مختلف شعرا کے کلام کو یکجا کر کے شائع کیا ہے‘ یہ تجربہ آپ کو کیسا رہا؟ کیا اس کام سے اردو ادب کی ترقی ممکن ہے؟
باقی احمد پوری: یہ تجربہ ادبی حوالے سے تو بہت کامیاب رہا‘ ضرورت اس امر کی تھی کہ ہمارے چھوٹے چھوٹے شہروں‘ قصبوں اور مضافات میں رہنے والے شاعروں کو ادب کی ’’مین اسٹریم‘‘ میں شامل کیا جائے۔ اس حوالے سے میں نے بری محنت کی اور کئی کتابیں مرتب کیں اس کا فائدہ یہ ہوا کہ شعرا کا پورے ملک میں ایک دوسرے سے براہِ راست رابطہ ہوگیا۔ میری دیکھا دیکھی دیگر لوگوں نے بھی مضافاتی ادب کی طرف توجہ کی اور اس طرح یہ ایک سلسلہ چل نکلا۔

حصہ