شریک مطالعہ

564

نعیم الرحمن
ممتاز احمد شیخ کے منفرد، بے مثال اور ضخیم ادبی جریدے ’لوح‘ کا تازہ شمارہ پوری آن بان کے ساتھ منصۂ شہود پر آگیا اور آتے ہی چھا گیا۔ ’لوح‘ کو بلاشبہ اردو ادب کی شان قرار دیا جا سکتا ہے۔ اردوکے معروف شاعر اور مزاح نگار ابن انشاء نے کہا تھا کہ ’نقوش‘ کو بطورآلۂ ضرب استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے عام شمارے خاص مواقع پر ہی شائع ہوتے ہیں۔ نقوشِ ثانی ’لوح‘ کا بھی ہر شمارہ خاص شمارہ اور بے حد ضخیم ہوتا ہے۔ آنکھ کے آپریشن کے باوجود ممتاز شیخ نے جون تا دسمبر2018ء کا ’لوح‘ بروقت شائع کردیا۔ عمدہ سفیدکاغذ اور بڑے سائز کے 678 صفحات کا جریدہ ترتیب دینا کسی عام انسان کے بس کی بات تو نہیں لگتی۔ پھر اس ضخیم پرچے کا ہدیہ صرف آٹھ سو روپے بھی ناقابلِ یقین سا ہے۔
’’خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیاکہیے‘‘ کے زیرعنوان اداریے میں ممتاز شیخ نے بالکل بجا لکھا ہے کہ ’’کراچی سے اردو ادب کے نامور فرزند اور جید عالم، جو میرے مہربان بھی ہیں اور روزِِاوّل سے وہ لوح پرنظرِِ عنایت رکھے ہوئے ہیں، فرمانے لگے کہ لوح میں اشتہارات کا یکسر نظر نہ آنا خطرے کی علامت ہے کہ اشتہارات تو کسی بھی رسالے کے خون کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایسا ضخیم اور ہر لحاظ سے معیاری رسالہ جیب میں دھیلا پائی بھی نہیں چھوڑے گا۔ اندرون اور بیرون ملک سے کئی عظیم المرتبت حضرات ایسی ہی نوازشات کرتے رہتے ہیں کہ مجھے اپنی کوتاہ قامتی کا سامنا کرنے میں دشواری محسوس ہونے لگتی ہے۔ یہ سب بیان کرنے کا مقصد اپنی یا لوح کی تعریف اور مدح سرائی نہیں، مگر یہ عرض کرنا ضرور مطلوب ہے کہ ایسے الفاظ اور خوش کن لمحات جہاں ایک عجب ذہنی آسودگی و تلذذ عطا کرتے ہیں، وہاں قوتِ کار بڑھانے میں ممد و معاون بھی ٹھیرتے ہیں۔‘‘
اگر ایسا شاندار جریدہ صرف حوصلہ افزائی کے ہی طفیل شائع کیا جا سکتا ہے تو اردو کے ادیب، شاعر و دانشورانِِ کرام اور قارئین کو بھی ہرگز بخل سے کام نہیں لینا چاہیے۔ جہاں تک کسی پرچے کی بقا کے لیے اشتہارات کا تعلق ہے، تو اس کا ثبوت تو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا حالیہ بحران ہے، جہاں سرکاری اشتہارات کی بندش یا کمی کے بہانے بے شمار صحافی بے روزگار کردیے گئے یا ان کی تنخواہوں میں کٹوتی کردی گئی۔ لوح کا بغیر اشتہارات کے شائع ہونا کسی معجزے سے کم نہیں۔
اداریے میں ہی لوح کے عزائم کی نشاندہی کرتے ہوئے ممتاز شیخ لکھتے ہیں کہ ’’لوح علم و ادب سے محبت رکھنے والے ہر شخص کے لیے دست ِ تعاون وا رکھنے کی کوشش اور تگ و دو میں سرگرداں ہے۔ کتاب کی اہمیت مسلّم، مگر رسالے پوری ادبی دنیا کا پرتو ہوتے ہیں۔ لوح کا امتیازی اختصاص یہ ہے کہ اس میں بلا تفریق و تفریط ہر مکتب فکرکی نمائندگی اور ترجمانی موجود ہے۔ کوشش یہ کی جا رہی ہے کہ لوح میں شائع ہونے والا ہر لفظ سند کی حیثیت اختیار کرسکے، اور لوح میں تجزیاتی اور تحقیقی مضامین، افسانوں اور دیگر اصناف کو وہ مقام حاصل ہوسکے جو تاحد وسعت اردو ادب کی نمائندہ تخلیقات کہلائی جاسکیں۔ دنیائے اردو کے ممتاز اسکالرز کے تحقیقی مضامین کو لوح کے لیے بطورِ خاص شامل کرنا اس امر کا غماز ہے کہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے والے اصحاب کے لیے کچھ ارزانی اور سہولت مہیا کرنے کی سعی کی جارہی ہے۔ اس شمارے میں ہندوستان اور دیگر ممالک سے نامور محققین نے لوح کے لیے اپنی نمائندہ تحریریں بھجوائی ہیں اور آئندہ شماروں میں کوشش کی جائے گی کہ انگریزی ادب کے نامور شاہ سواروں کی نثر اور شاعری پر مضمون اور تراجم پیش کیے جا سکیں۔ لوح کا لوح سے تقابل ایک آزار ہے جو جی جلانے لگتا ہے۔ ہر دفعہ لوح کو پہلے سے اچھا لانے کا آزار، مگر پھر شوق اور آزار مدمقابل آن ٹھیرتے ہیں۔ ہر دفعہ کچھ جداگانہ کرنے کا عمل گویا آگ کے دریا سے نکلنا ہے۔‘‘
ممتاز شیخ کے یہ عزائم لوح کے ہر صفحے سے عیاں ہیں اور بار بار قاری کے دل سے یہ دُعا نکلتی ہے کہ یااللہ لوح کی حفاظت فرما۔ اس بے مثال پرچے کو ’’سب رنگ‘‘ اور ممتاز شیخ کو ’’شکیل عادل زادہ‘‘ بننے سے محفوظ رکھ۔ یہ بے مثال جریدہ تادیر اپنی تابانی سے اردو ادب کے گلشن کو فروزاں رکھے۔
لوح کا آغاز ’’شامِ شہر ہول میں شمعیں جلا دیتا ہے تُو‘‘ کے عنوان سے سلیم کوثر، خالد اقبال یاسر، نیلم احمد بشیر اور شاہدہ حسن کے حمدیہ کلام سے ہوا ہے۔ سلیم کوثر ان دنوں بیمار ہیں۔ اُن کے لیے دعائے صحت کے ساتھ ان کے چند دل میں اترنے والے حمدیہ اشعار پیش ہیں:

خیال بندوں کا حق تعالیٰ کو کس قدر ہے
وہ ان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب تر ہے
ازل سے سینے میں رکھ دیا ہے بنا کے اس نے
دھڑک رہا ہے جو دل یہ دراصل اس کا گھر ہے
ہماری سوچوں پہ اور خیالوں پہ حکمران وہ
ہمارے ظاہر سے اور باطن سے باخبر ہے

’’کرم اے شہِ عرب وعجم‘‘کا عنوان نعتِ رسولؐ مقبول کو دیا گیا ہے۔ احسان اکبر کا قصیدہ سلام بر رسولِ انامؐ کا ہر لفظ دل میں اتر جاتا ہے۔ سلیم کوثر، جان کاشمیری، سید انور جاوید ہاشمی اور بی بی امینہ خان کا نعتیہ کلام بھی اس حصے کی زینت ہے۔
ممتاز شیخ نے سہ ماہی لوح اپنی مادرِ علمی گورنمنٹ کالج لاہورکی یادوں کو تازہ رکھنے کے لیے جاری کیا ہے۔ اس کے سرورق پر ’’اولڈر اویئنز کی جانب سے اسیرانِ علم وادب کے لیے توشۂ خاص‘‘ تحریر ہوتا ہے۔ ہر پرچے کا پہلا مضمون اسی درس گاہ سے متعلق ہوتا ہے۔ اس بارے میں مدیر کا کہنا ہے کہ جس طرح گورنمنٹ کالج لاہور کی تہذیب سے لاتعداد نسلیں جڑی ہوئی ہیں، آخر لوح بھی تو اسی درس گاہ کی کوکھ سے جنم لینے والے فرزانے کا ہی خواب تھا جو حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔ ’’محبت جو امر ہوگئی‘‘ کے نام سے اِس بار اس عظیم درس گاہ کے روشن ترین چراغ پطرس بخاری کا مضمون ’’کتب اور عالمی ثقافت‘‘ جسے محترم ڈاکٹر مرزا حامد بیگ کے شکریے کے ساتھ شائع کیا گیا ہے، دلدادگانِ ادب کے لیے توشۂ خاص کی حیثیت رکھتا ہے۔
رفتگانِ ادب کے ذکرِ خیرکو ’’تکریم ِ رفتگاں اُجالتی ہے کوچہ و قریہ‘‘ کا نام دیا گیا ہے جس میں معروف افسانہ نگار رشید امجد نے ’’آہ! نجم الحسن رضوی‘‘ میں افسانہ و ناول نگار، کالم نگار کو خراج ِ تحسین پیش کیا ہے۔ لکھتے ہیں کہ ’’نجم الحسن رضوی‘ صاحبِِ مطالعہ شخص تھے اور اردوکے علاوہ غیر ملکی زبانوں کے ادب پر بھی ان کی نگاہ تھی۔ وسیع مطالعے، زیرک مشاہدے اور فنی دسترس نے ان کی تحریروں میں ہمہ جہتی پیدا کی۔ لکھنے کے حوالے سے ان کی تحریروں میں روایت اور جدت کا امتزاج نظر آتا ہے۔ وہ نئی لسانی تشکیلات اور علامتی اندازِ فکر سے پوری طرح آشنا تھے لیکن انہوں نے درمیانی راہ اختیار کی، یوں ان کی تحریریں دونوں مکاتب ہائے فکر میں توجہ سے پڑھی جاتی تھیں۔ مزاجاً بھی وہ معتدل تھے۔‘‘
ڈاکٹر اختر شمار نے معروف شاعر اطہر ناسک کا بھرپور خاکہ ’’کسے دا یار نہ وچھڑے‘‘ کے نام سے تحریر کیا ہے، جس میں اطہر ناسک کے کینسرکے موذی مرض میں مبتلا ہونے اور دنیا چھوڑ جانے کا ذکر قاری کو اداس کردیتا ہے۔ بے مثال شاعرہ اور منفرد افسانہ و ناول نگار فہمیدہ ریاض کی یادیں صدف مرزا نے ’’پس ِ مرگ نہ مجھ پہ ستم کرنا‘‘ کے نام سے تازہ کی ہیں اور اپنے دور کی منفرد شاعرہ کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔
دورِ حاضر کے سب سے بڑے، منفرد اور صاحب ِ طرز افسانہ و گیت نگار اسد محمد خان کا گوشہ بھی اس شمارے کا اہم حصہ ہے جس میں اسد محمد خان کے افسانے اور گیت کے بعد ادبی رسالے ’مکالمہ‘ کے مدیر، شاعر و افسانہ نگار مبین مرزا نے طویل سوانحی مضمون کو ان کے کام کے حوالے سے ’’نئی زمین نئے آسماں تراشتا ہوں‘‘ کا عنوان دیا ہے، جس میں اسد محمد خان کے فن اور اسلوب کا بہت عمدہ جائزہ پیش کیا ہے۔ یہ اس گوشے کا سب سے عمدہ مضمون ہے۔ ڈاکٹر عبدالرحمن فیصل نے ’’حقیقت کے لسانی تصورکا بیانیہ‘‘ اسد محمد خان کے افسانوں کی روشنی میں تحریر کیا ہے۔ ڈاکٹر صفیہ سلطان کا مضمون ’’اسد محمد خان بحیثیت افسانہ نگار‘‘ بھی بہت عمدہ ہے۔ 30 صفحات سے زیادہ کے اس گوشے کے ذریعے اسد محمد خان کے فکر و فن کا خوب صورتی سے جائزہ لیا گیا ہے۔
لوح کا افسانوی حصہ کم و بیش 140 صفحات پر محیط ہے جسے 21 نئے، پرانے افسانہ نگاروں کی تحریروں سے مزین کیا گیا ہے۔ اِس بار ہر حصے کو اس شعبے کے نامور فرد کی تصویر سے مزین کیا گیا ہے۔ افسانوں کے آغاز پر نامور افسانہ نگار اشفاق احمد کی تصویر ہے۔ پاک، بھارت کے سینئر افسانہ نگاروں رشید امجد، سمیع آہوجا، محمد حمید شاہد، عبدالصمد، مشرف عالم ذوقی، محمد حامد سراج، خالد فتح محمد، نیلم احمد بشیر اور شموئل احمد کے دوش بہ دوش رابعہ الرباء، شہناز شورو، شکیل احمد خان، سیمیں کرن، حمیرہ اشفاق اور منزہ احتشام گوندل کی تخلیقات نے بھی خوب رنگ جمایا ہے۔ مختصر تبصرے میں ہر افسانے کا تجزیہ کرنا تو ممکن نہیں ہے، لیکن ان میں سے چند ذہن میں گھر کر لیتے ہیں۔ رشید امجد نے حسب ِ روایت مختصر لیکن پُراثر افسانہ ’’کہانی اور شہر‘‘ لکھا ہے جس میں کس خوبی سے ہر عہد کی کہانی بیان کردی ہے:
’’کہانی کے ایک کردار نے بغاوت کردی تھی لیکن کہانی کار نے زیادہ توجہ نہ دی کہ یہ کوئی بڑا کردار نہیں تھا۔ کہانی کار نے سوچا ’’اس بغاوت کا کہانی پرکوئی خاص اثر نہیں پڑے گا‘‘ پھر یہ کہ ابھی اس کے پاس وقت تھا کہ سمجھا بجھا کر، دھونس دھمکی سے یا ترغیب و لالچ سے وہ کردار کو بغاوت سے روک سکتا تھا۔ لیکن جب کردار، جو بظاہر چھوٹا کردار تھا، ٹس سے مس نہ ہوا تو کہانی کار سوچ میں پڑ گیا کہ اگر اسے کہانی سے نکال دیا جائے تو کہانی پر کیا اثر پڑے گا۔ اس کے ذہن میں کہانی کا جو خاکہ تھا اس نے ازسرنو جائزہ لیا اور بظاہر چھوٹے کردار کو نکال کر دور ایک ویران جگہ پھینک دیا۔ اس کا خیال تھاکہ پہلے تو دوسرے کرداروں کو اس کا علم ہی نہیں ہوگا، اگر ایسا ہوا بھی تو وہ معاملے کو سنبھال لے گا۔‘‘
پھر کہانی کا اختتام کچھ یوں ہے کہ ’’کہانی کے بظاہر چھوٹے کردار باغی ہورہے ہیں۔ شہرکے بظاہر چھوٹے لوگ اپنے حقوق کی بات کررہے ہیں۔ کہانی کار سوچنے سے عاری ہے۔ امیرِ شہر اپنی حاکمیت کے نشے میں سرشار … کہانی بھی ختم … شہر بھی ختم۔‘‘
کیا خوب بیانیہ ہے ۔کچھ نہ کہہ کر بھی افسانہ نگار نے بہت کچھ بیان کردیا۔
اے خیام کا ’’سسٹم‘‘، انور زاہدی کا ’’پرتو شام‘‘، محمد حمید شاہد کا ’’جنگ میں محبت تصویر نہیں بنتی‘‘، محمد حامد سراج کا ’’حیات دکھ ہے، ممات دکھ ہے‘‘، خالد فتح محمد کا ’’روپ اور بہروپ‘‘، نیلم احمد بشیرکا ’’گہرا سمندر‘‘، زین سالک کا ’’اوسا موکا الٹا پانسا‘‘، سیمیں کرن کا ’’میز پہ دھرے تین فیصلے‘‘ اور منزہ احتشام گوندل کا ’’خواب گزیدہ‘‘ اس شمارے کے بہترین افسانے ہیں۔ دیگر افسانے بھی موضوع اور برتاؤ کے اعتبارسے اچھے افسانوں میں شامل ہیں اور مدیر کے حسنِ انتخاب کی پہچان بنتے ہیں۔
80 صفحات کے حصۂ نظم میں 42 شعرا کی 111 نظمیں شامل کی گئی ہیں۔ اس حصے کو ن۔ م۔ راشد کی تصویر سے مزین کیا گیا ہے۔ احسان اکبر کی مختصر بحر میں طویل نظم دل پر خاص اثرکرتی ہے۔ اس کا ایک حصہ دیکھیں:
جبر و قدر کا کاتب/ حرف سخت لکھتا ہے/ تاج شوکت و پرویز/ جس قلم سے لکھتا ہے/ دوسرے ہی پل اس سے/ میرا بخت لکھتا ہے/ بخت سخت لکھتا ہے/ بخت سخت کے باوصف/ تعزیت کے لمحوں میں/ رو نہیں سکا ہوں میں/ بے دلی کے داغوں کو/ دھو نہیں سکا ہوں میں/ دردمند ہوتا توچپکے چپکے کیوں روتا… شہر یار سوتا ہے/ باپ کتنا ناداں ہے/ سونے والے بچے کو / دیکھ دیکھ روتا ہے
معروف شاعر، ڈراما، کالم اور سفرنامہ نگار امجد اسلام امجد نے ’’نئے برس کا پہلا سورج‘‘ کیا خوب صورت نظم لکھی ہے۔ ایک ایک مصرع دل میں اتر جاتا ہے۔ نظم کے عمدہ شاعر علی محمد فرشی ’’سمبل‘‘ کے نام سے لوح کے شہر راولپنڈی سے کیا اچھا ادبی رسالہ شائع کرتے تھے۔ کاش انہیں بھی کوئی جہلم بک کارنر مل جائے تو سمبل کا بھی احیا ہوسکے۔ علی محمد فرشی کی چھ نظمیں اس حصے میں شامل ہیں۔ ان کی ایک خوب صورت مختصر نظم ’’اجرک/ اک پھلواری/ زخموں کی پھلکاری/ جیسے ماں کی بکل/ درد چھپائے رکھے/ جیسے باپ کا سایہ/ لوکے جھولے جھولتا/ جیسے سندھ سہا گئی/ جیسے تھرمیں جل تھل/ بیت ہوں شاہ لطیف کے/ دل کو کر دیں گھائل/ اجرک مومل رانو کی/ جیسے مریم پاک/ میں بھنور بھنبور کی/ شہبازکے پاؤں کی پائل/ میں سسٹری کا آنسو/ میں سوہنی کی چھل/ نیّاکھیتے کھیتے/ عمریں بیت گئیں/ نظرنہ آئے ساحل
(جاری ہے)

حصہ