رانگ نمبر

315

فرح ناز
کسی نامحرم کی محبت جب ایک حسین بلا بن کے دل میں پنجے گاڑ کے بیٹھ جائے تو محرم کی محبت کے لیے جگہ نہیں بچتی، اب چاہے وہ ماں باپ، بہن بھائی ہوں یا نکاح کے بندھن میں بندھے رشتے۔
اس کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا، ایک انجانے اَن دیکھے نامحرم کی محبت نے آہستہ آہستہ اس کے دل و دماغ پہ قبضہ کرلیا تھا۔ غیر محسوس طریقے سے ماں باپ، بہن بھائیوں کے سامنے سے بند کھڑکی، دروازوں کو توڑتی ہوئی اس کے ذہن کو یرغمال بناکر اس سے اپنی مرضی کے کام کروانے لگی تھی۔ سب سے پہلے اس سے سکون چھینا اور بے چینیوں کو اس کا ہم راز بنادیا۔ وہ ہمہ وقت موبائل کی اسکرین پہ چمکنے والی روشنی کی منتظر رہتی، اس اجنبی محبوب کے میسج پڑھنا، جواب دینا اور پھر ان کو ڈیلیٹ کردینا… اس کام میں وہ ایک سیکنڈ کی بھی تاخیر نہ کرتی۔ اللہ کی بارگاہ میں جھکنے والا سر اب دعوتِ حق کے باوجود فون کی اسکرین پہ جھکا ہوتا ۔
ایک رانگ نمبر نے اس کو رائٹ راستے سے ہٹاکر رانگ راہ پہ لگا دیا تھا ۔ ’’ہیلو‘‘ دو بجے رات کو فون کی آواز پہ اس نے نمبر دیکھے بغیر فون کان سے لگا لیا۔
’’آپ ثنا بات کررہی ہیں؟‘‘کچھ تو تھا اس آواز میں، بڑی طلسمی سی آواز تھی۔
’’جی نہیں۔‘‘
’’تو پھر؟‘‘ یہ کیسا سوال تھا، وہ سمجھ نہیں پائی۔
’’بھئی اب آپ نے اٹھا لیا ہے تو آپ سے ہی بات کرلیتا ہوں۔‘‘اس کی آواز گویا تحریک دے رہی تھی ایک قدم آگے آنے کی۔
’’مطلب آپ کسی سے بھی بات کرلیں گے اِس وقت۔‘‘ کچھ شوخی، کچھ بے تکلفی عود کر آئی تھی اس کے لہجے میں۔ امی، ابو، بھائی سب اپنے اپنے کمرے میں سو چکے تھے، فائزہ آپی آج ہی اپنے بچوں کے ساتھ سسرال جا چکی تھیں۔ پچھلے دنوں کی شدید مصروفیت کے بعد آج وہ فارغ ہوئی تو یہ نئی مصروفیت مل گئی۔ سلسلہ چل پڑا تھا شناسائی کا، گو کہ امکان تھا رسوائی کا۔ لیکن فلموں سے سیکھا ہے: پیار کیا تو ڈرنا کیا۔
’’ملنا چاہتی ہوں آپ سے۔‘‘آج گھر میں اس کے رشتے کی کوئی بات ہوئی تو اس نے ایک قدم اور آگے بڑھایا۔
’’میں بھی ملنا چاہتا ہوں، لیکن اتنی جلدی کیا ہے!‘‘اس نے بڑے اطمینان سے کہا۔
’’جلدی، کیا مطلب! آج پورے چھ ماہ ہوگئے ہیں ہماری دوستی کو، اب ہمیں مل کے کوئی فیصلہ کرلینا چاہیے‘‘۔ نازیہ واقعی اب ملنا چاہتی تھی۔ ایک دوسرے کو اپنی اپنی بپتا سناتے چھ ماہ گزر گئے تھے، گو کہ ایک دوسرے کی تصویروں سے مستفید ہوچکے تھے لیکن بالمشافہ ملاقات ابھی باقی تھی۔ علی کے مطابق وہ پہلے جاب ڈھونڈ لے پھر ملاقات کرے گا، اور وہ تھی کہ دلِ مضطر کے ہاتھوں مجبور۔ اب اسے اپنے محبوب سے ملنا ہی ملنا تھا۔
’’علی تم اپنی امی کو رشتہ لے کے بھیجو، شادی تمھاری جاب کے بعد کرلیں گے۔‘‘ نازیہ کو یہی حل نظر آیا۔
’’ٹھیک ہے میں کرتا ہوں بات امی سے، لیکن مجھے لگتا ہے وہ نہیں مانیں گی۔‘‘ اس کے انداز سے سردمہری جھلک رہی تھی۔ ’’پھر بھی بات کرتا ہوں۔‘‘
اب اس کے لہجے میں نہ پہلی سی گرم جوشی تھی، نہ بے تابی۔ اور گھر بیٹھی وہ بے وقوف لڑکی اسے اپنا سب کچھ سمجھ بیٹھی تھی۔ اس کے رویّے اور مزاج میں اتنا فرق آگیا تھا جسے سب ہی نے محسوس کیا۔ کھوئے کھوئے رہنا، اچانک بیٹھے بیٹھے چونکنا، سالن میں کبھی نمک کا تیز ہوجانا اور کبھی چائے میں چینی ڈالنا بھول جانا۔ اماں جانے کیا سمجھیں کہ جھٹ پٹ رشتہ کرانے والی سکینہ بی بی کو بلا بھیجا۔
’’علی! امی میرے لیے رشتے دیکھ رہی ہیں، اپنی امی کو جلدی منائو۔‘‘ نازیہ نے اطلاع دی۔
اگلے ہی روز اسے علی کی طرف سے مثبت جواب ملا۔ علی کی امی اس سے ملنا چاہتی تھیں، لیکن بقول علی کے وہ بہت بیمار ہیں چل پھر نہیں سکتیں، لہٰذا اسے خود ملنے جانا پڑے گا۔
’’لیکن علی کیسے؟‘‘ کچھ خوشی، کچھ خوف سے اس نے پوچھا۔
’’بس تم کوئی بہانہ کرکے جمعہ کو دو بجے نکل آئو گھر سے، اگلے بس اسٹاپ سے تمہیں پک کرلوں گا اور بس آدھے گھنٹے میں تمہیں گھر ڈراپ کردوں گا۔‘‘ علی نے پورا پروگرام اسے سمجھا دیا، اور یہ اتنا مشکل بھی نہیں تھا، اس نے ہامی بھرلی۔ جمعہ میں ابھی دو دن تھے اور وہ بڑی بے تابی سے اُس دن کا انتظار کررہی تھی، اور صرف یہ سوچ رہی تھی کہ کیا پہنے گی، کیا کہے گی، کیسا لگنا چاہیے اسے۔ امی سے اس نے پہلے ہی دوست کے گھر میلاد کا بہانہ کردیا تھا، لیکن یہ کیا! جمعرات کی شام کو فائزہ آپی پھر حاضر تھیں، نہ صرف اپنی فیملی کے ساتھ بلکہ مٹھائی کے ٹوکرے کے ساتھ بھی۔ جھٹ پٹ نازیہ کو کرسی پہ بٹھاکر زرتار سرخ دوپٹہ اس کے سر پر ڈال دیا گیا، فائزہ آپی کی ساس نے آگے بڑھ کر نازیہ کی انگلی میں ڈاکٹر رمیز کے نام کی انگوٹھی ڈال دی اور اسے فائزہ کی دیورانی کے رشتے کی ڈوری سے باندھ دیا، اور وہ کچھ نہ کہہ سکی۔ سب بہت خوش تھے لیکن وہ تو جیسے وہاں تھی ہی نہیں۔ دن کے دو بجے کے بعد اس کا موبائل کئی دفعہ بجا لیکن وہ صرف اسکرین پہ چمکتا علینہ (علی کی جعلی شناخت) کا نام دیکھتی رہی، اس کے بس میں کچھ نہیں تھا۔
شادی کی تیاریاں زوروں پر تھیں۔ دن کے سارے کام نمٹا کر وہ روز فائزہ کے ساتھ شاپنگ کے لیے نکل جاتی۔
’’علی یہ دیکھیں، حماد کے لیے کیسا رہے گا۔‘‘ نازیہ اپنے لیے سینڈل منتخب کررہی تھی، جانے کیوں اس نے پلٹ کے دیکھا، علی جوگرز اپنے بیٹے کو پہنانے میں مصروف تھا، جب کہ اس کے پاس کھڑی خاتون یقینا اس کی بیوی تھی جس کی گود میں ایک بچی بھی تھی۔ وہ تیزی سے شاپ سے باہر آگئی، جب کہ فائزہ اسے آواز دیتی رہ گئی۔ گھر جاتے ہی وہ اپنی ماں کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی اور اماں نے اسے اپنی آغوش میں چھپا لیا۔ ماں باپ اولاد کے لیے کتنا صحیح فیصلہ کرتے ہیں۔ ہم تو زندگی کو کھیل تماشا بنادیتے ہیں۔ یہ آنسو تشکر کے تھے، ندامت کے تھے، اعتماد کے تھے۔ اللہ تو ماں سے بھی ستّر گنا زیادہ محبت کرتا ہے، جب ہی تو اس نے نہ صرف اس کا پردہ رکھ لیا بلکہ ایک ذلت سے بھی بچالیا۔ اب اسے سب سے پہلے علینہ کو بلاک کرنا تھا جو اب بھی کبھی کبھی اس کے اسکرین پہ چمکتا تھا۔

حصہ