خاتونِ کربلا۔۔۔۔ زینبؓ بنتِ علیؓ

1314

افشاں نوید
پیکرِ شجاعت:
حضرت امام حسینؓ کے صاحبزادے علی اکبر کو شہید ہوئے دیکھا تو ’’یا ابن اخاہ‘‘ کہتی ہوئی بے تابانہ خیمے سے نکلیں اور بھتیجے کے لاشے سے چمٹ گئں۔ خاندان کے سپوت ایک ایک کرکے جام شہادت نوش کرتے چلے گئے۔ سیدہ زینبؓ نے اپنے کم عمر فرزندوں عونؓ اور محمدؓ کو میدانِ جنگ میں بھیجنے کی اجازت چاہی۔ حضرت امام حسینؓ کس دل سے اجازت دیتے۔ سیدہ کے بے حد اصرار پر خاموش ہوگئے۔ سیدہ کے دونوں لال میدان جنگ میں داد شجاعت دیتے ہوئے تلواروں اور نیزوں کی زد میں آکر جام شہادت نوش کر گئے۔ سیّدنا حسینؓ تنہا رہ گئے۔ زین العابدین علی بن حسین شدید علیل تھے۔ میدان جنگ میں جانے کے قابل نہ تھے۔ سیّدنا امام نے ان کو حضرت زینبؓ کے سپرد کیا اور خود تلوار اُٹھا کر دشمنوں کی صفوں کو اُلٹ کر رکھ دیا۔ شمشیر حسینی کی چمک کے سامنے کوئی ٹھہر نہ پاتا۔ تلواروں، خنجروں، نیزوں کی برسات تھی، ایک نیزہ سیدنا کے گلوئے مبارک میں پیوست ہوگیا۔ حضرت زینب قریب ہی ایک ٹیلے پر چڑھیں اور شامی فوج کے کمانڈر کو للکار کر کہا ’’اے عمر بن سعد: کیا قیامت ہے کہ ابوعبداللہ قتل کیے جارہے ہیں اور تم تماشائی ہو‘‘۔
سیّدنا امام حسین خون کی اُلٹیاں کرتے ہوئے جسم کی قید سے آزاد ہوگئے۔ ان کے ناناؐ ان کے منتظر تھے۔ جنت ان کے لیے سجائی جاچکی تھی، شہدائے کربلا کو بے دردی سے قتل کرکے ان کے مقدس جسموں کو گھوڑوں کی ٹاپوں سے پامال کیا گیا۔ ایک بدنصیب نے چاہا کہ زین العابدین کو بھی نیزے کی نوک پر لے لے، مگر حضرت زینب ڈھال بن گئیں اور فرمایا ’’خدا کی قسم جب تک میں زندہ ہوں اس بیمار کو کوئی قتل نہیں کرسکتا‘‘۔
نوحہ زندگی کا:۔
یہ کہنے میںکوئی حرج نہیں کہ واقعہ کربلا جو اسلامی تاریخ کا ایک عظیم سانحہ ہے اس میں شہدائے کربلا کے کردار محض رنج و غم کے پیرائے میں بیان کرکے ان کی مظلومیت کو اس انداز سے بیان کیا جاتا ہے کہ ان کی ’’شجاعت‘‘ کی داستان اس آہ و بکا میں کہیں پسِ پردہ چلی جاتی ہے۔ بالخصوص حضرت زینب بنتِ علی کے صرف نوحے بیان کیے جاتے ہیں جب کہ انہوں نے اس اہم اور تاریخی موقع پر جس عظیم الشان استقامت اور دلیری کا مظاہرہ کیا اگر اس کو درست انداز میں بیان کیا جائے تو اکیسویں صدی کی عورت کے لیے اس میں پیغامِ حیات ہے کہ مسلمان خواتین نے ہر دور میں اپنے کردار کو پہچانا ہے، ہر وہ قربانی دی ہے جس کا تقاضا فطرت ایک مرد سے کرتی ہے۔ قرونِ اولیٰ کی یہ عظیم خواتین چاہے حضرت خدیجہؓ ہوں یا شہزادی فاطمہ الزہرہؓ، علم کا چراغ سیّدہ عائشہؓ ہوں یا میدان جنگ میں زخم پہ زخم سہنے والی حضرت ام عمارہؓ۔ دیگر امہات المومنین و صحابیات رسولؐ کی جو مختصر روایات ہم تک پہنچی ہیں وہ بھی ان کے غیر معمولی اور انتہائی حساس کردار کی گواہی ہیں۔ اہم ترین بات یہ کہ ایک مسلمان عورت مغربی عورت کی طرح مرد بن کر سماج میں کردار ادا نہیں کرتی بلکہ اپنے خانگی تقاضوں اور عفت کی چادر میں رہ کر وہ بڑے بڑے کام کرتی ہے کہ اس کی مثال دُنیا کی تاریخ پیش نہیں کرسکتی۔
یہاں سیّدہ زینب بنتِ علیؓ کے کردار کو دیکھیں کہ عورت ذات جو جسمانی حوالوں سے کمزور ہے اور جذباتی اور نفسیاتی حوالے سے بھی مرد کی طرح قوی نہیں ہے۔ تاریخ کے اس دردناک سانحے کے موقع پر جب کہ بھائی، بھتیجے، بیٹے سب شہید ہوچکے ہیں، ان کے لاشے بھی شقی القلب لوگوں نے پامال کیے، ان کے سر نیزوں پر اُچھالے، یہ سب دیکھ کر کوئی بھی عورت اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھتی مگر وہ اپنے اوسان بحال رکھتی ہیں نہ صرف امام زین العابدین کے آگے دیوار بن کر ان کی حفاظت کرتی ہیں بلکہ گاہے بگاہے دشمنوں کو بھی للکارتی اور ان کی غیرت کو بیدار کرتی ہیں، ان کو شرمندہ کرتی ہیں کہ اہل بیت رسولؐ کے ساتھ جو کچھ وہ کرچکے کم از کم اس پر شرمندہ ہی ہوجائیں۔
شہدائے اہل بیت کی ترجمان:۔
کربلا کی شہزادی سیّدہ زینب کے درج ذیل الفاظ پڑھیں۔ جس سے عرش کانپ گیا ہوگا۔ جب حضرت زینبؓ نے شہدائے کربلا کے لاشے دو روز بعد بھی بے گوروکفن میدان میں پڑے دیکھے تو اپنے جذبات کو یوں کربناک لفظوں کی لڑی میں پرویا۔
’’اے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم! آئیے دیکھنے آپ کے حسینؓ کا خون آلود لاشہ چٹیل میدان میں پڑا ہے
اس کا جسم پارہ پارہ کردیا گیا ہے
آپؐ کے گھرانے کی لڑکیاں رسیوں میں جکڑی ہوئی ہیں
آپؐ کی ذرّیت قتل کرکے گرم ریت پر بچھادی گئی ہے
اس پر خاک اُڑ رہی ہے
اے میرے نانا! یہ آپؐ کی اولاد ہے جسے ہنکایا جارہا ہے
ذرا حسینؓ کو دیکھیے اس کا سر کاٹ لیا گیا ہے
اس کا عمامہ اور چادر چھین لی گئی ہے
زینب کبریٰ کا یہ درد بھرا نوحہ سُن کر کون سا دل ہوگا جو پارہ پارہ نہ ہوگیا ہو۔ ایسے مواقع پر اہل کوفہ بڑی تعداد میں ان کے گرد جمع ہوجاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک موقع پر انہوں نے فرط جذبات سے فرمایا ’’لوگو! اپنی نظریں نیچے رکھو، یہ محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لٹی ہوئی اولاد ہے‘‘۔ اس غم و الم کی کیفیت میں بھی وہ لوگوں کے جذبہ حیا کو بیدار کررہی ہیں۔
قرۃ عین المرتضیٰ:۔
جن ہاتھوں نے سیّدہ زینبؓ کو جھولا جھلایا تھا وہ تاریخ میں ’’باب العلم‘‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ وہ درس علم و حکمت چھَن چھَن کر سیدہ کی رگوں میں اُتر گیا تھا۔ ان کے اہل خانہ کی پیشانی پر تحریر تھا کہ وہ کس کی اولاد ہیں۔ تاریخ ایسا عظیم الشان کوئی دوسرا حوالہ ڈھونڈنے سے عاجز ہے، اس وقت اہل کوفہ جمع ہیں، نہ معلوم ضمیر کا بوجھ انہیں سیدہ کے در تک لے آیا یا ان کے ساتھ ہمدردی۔ اہل کوفہ کو جو اپنے اطراف جمع دیکھا تو انہوں نے ایک عبرت انگیز خطاب کیا۔ لوگوں نے محسوس کیا کہ نسوانی لہجہ میں شاید خود حیدر کرار گویا ہیں۔ آپ فرماتی ہیں۔
ترجمہ:۔ ’’اے کوفیو! اے مکارو! اے عہد شکنو! اپنی زبان سے پھر جانے والو!
خدا کرے تمہاری آنکھیں ہمیشہ روتی رہیں
تمہاری مثال ان عورتوں جیسی ہے جو خود ہی سوت کاتتی ہیں
اور پھر اسے خود ہی ٹکڑے ٹکڑے کردیتی ہیں
تم نے خود ہی میرے بھائی سے رشتہ بیعت جوڑا اور خود ہی توڑ ڈالا
تمہارے دلوں میں کھوٹ اور کینہ ہے
تمہاری فطرت میں جھوٹ اور دغا ہے
خوشامد، شیخی خوری اور عہد شکنی تمہارے ضمیر میں ہے
تم نے جو کچھ آگے بھیجا ہے وہ بہت بُرا ہے
تم نے خیر البشیرؐ کے فرزند کو جو جنت کے سردار ہیں قتل کیا
قہر تمہارا انتظار کررہا ہے
آہ! اے کوفہ والو، تم نے ایک بہت بڑے گناہ کا ارتکاب کیا ہے
جو منہ بگاڑنے والا اور مصیبت میں مبتلا کردینے والا ہے
یاد رکھو تمہارا رب نافرمانوں کی تاک میں ہے
اس کے ہاں دیر ہے، اندھیر نہیں‘‘۔
ان کے خطبات سن کر اکثر کوفیوں کی روتے روتے گھگی بندھ جاتی تھی، ایسے ہی ایک موقع پر حذلم بن کثیر جس کی وجہ شہرت فصاحت و بلاغت تھی، بے ساختہ کہہ اُٹھا۔
’’واللہ اے علیؓ کی بیٹی، تمہارے بوڑھے سب بوڑھوں سے، تمہارے جوان سب جوانوں سے، تمہاری عورتیں سب عورتوں سے، تمہاری نسل سب نسلوں سے بہتر ہے جو حق بات کہنے میں کسی سے نہیں ڈرتی‘‘۔

حصہ